پیرالطاف حسین مردہ باد

Syed Anwar Mehmood
Print Friendly, PDF & Email

پہلے میں نے اس مضمون کا عنوان  ‘‘مہاجروں کی شناخت ’’ منتخب کیا تھا  لیکن سندھ اسمبلی میں بدھ 21 ستمبر 2016 کوملک کے خلاف الطاف حسین کی پیر 22 اگست2016 کی  اشتعال انگیز تقریر، نعرے بازی اور میڈیا ہاؤسز پر حملے پر الطاف حسین کے خلاف مختلف جماعتوں بشمول ایم کیو ایم  پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔ اس سبب میں نے اس مضمون کا عنوان موجودہ عنوان  ‘‘پیر الطاف حسین مردہ باد’’سے بدل دیا۔  وہ لوگ جو اس ملک میں ہی پروان چڑھے اور اس ملک نے ہی  انکو نام اور شہرت دی ، وہی اگر پاکستان  کے خلاف  کے خلاف نعرہ لگایں گے تو پھر وہ ہی مردہ باد ہونگے۔  پاکستانی عوام    پاکستان کےلیے صرف ایک  ہی نعرہ لگاتے ہیں، ‘‘پاکستان زندہ باد’’۔ آئیے اصل مضمون کی طرف چلتے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ  (ایم کیو ایم) کے لیے 12 مئی اور 22 اگست وہ بھیانک تاریخیں ہیں جس سے اگلے دس بیس سال تو ایم کیو ایم کی جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔ بارہ مئی 2007 کراچی میں ہنگامے، 50 افراد ہلاک ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں عوامی طاقت کے مظاہرے کے دوران ہنگامہ آرائی ہوئی، جس میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایم کیو ایم پر فسادات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا لیکن ایم کیو ایم نے الزامات کو مسترد کیا، مگر اس وقت سے 12 مئی ایم کیو ایم کےلیے ایک برا دن کہا جاتا ہے۔ الطاف حسین نےپیر 22 اگست 2016 کو اپنی تقریر میں پہلے تو  پاکستان  اور پاکستانی  فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ ساتھ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کی اور اس کے بعد پاکستان مخالف نعرئےنہ صرف خود لگائے بلکہ پنڈال  سے بھی پاکستان مخالف نعرئے لگوائے۔ الطاف حسین کی اس تقریر نے سب کچھ بدل ڈالا۔ ایم کیو ایم  کے کافی رہنما وں نے الطاف حسین  کی اس پاکستان مخالف تقریر کا رد عمل دیتے ہوئے  ایم کیو ایم   سے علیدہ ہونے کا اعلان کیا ہے، کچھ رہنماوں نے سوشل میڈیا پر ‘‘پاکستان زندہ باد’’ کا پیغام دیا۔

الطاف حسین کی تقریراورکارکنوں کو پرتشدد واقعات پراکسانےکےبعدرینجرز ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو میں داخل ہوئی اور اسکو سیل کردیا  اوراس کے بعد ایم کیو ایم کے قانونی  دفاتر بھی سیل  کردیے گئے ہیں  جبکہ غیر قانونی دفاترتوڑئے جارہے ہیں۔ کراچی کے علاوہ پورئے سندھ  میں  بھی موجود  ایم کیو ایم کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ منگل 23 اگست  کی دوپہر ڈاکٹر فاروق ستار نےخواجہ اظہار الحسن،  سینیٹر نسرین جلیل اور ایم کیو ایم کے دوسرئے ساتھیوں کے ہمراہ پیر 22 اگست  کو کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پاکستان مخالف نعروں اور میڈیا ہائوسز پر کئے جانے والے حملوں پر معذرت کرتے ہوئے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے اور کہا کہ ہم ہی ایم کیو ایم ہیں، متحدہ قومی موومنٹ اب پاکستان سے چلائیں گے، اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم دو حصوں بٹ گئی ایک وہ جو اب بھی لندن میں موجود الطاف حسین کو ایم کیو ایم کا سربراہ مانتے ہیں اور دوسرئے وہ جو الطاف حسین سے لاتعلق ہوگئے ہیں  اور جن کی قیادت فاروق ستار کررہے ہیں۔

فاروق ستار کی سرپرستی میں ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے قطع تعلقی کے بعد پارٹی آئین میں بھی تبدیلی کی ہے اور جو فیصلے کیے ہیں وہ انتہائی اہم نوعیت کے ہیں، ایم کیو ایم اپنے فیصلوں کی توثیق اپنے کارکنوں سے لیتی ہے، لہذا پرچم اور آئین سے الطاف حسین کا نام حذف کرنا ، بحیثیت قائد الطاف حسین  کو سبکدوش کرنا ایسے فیصلے ہیں جن کی توثیق ہونا لازمی ہے۔ بہت سے سوالات ایم کیو ایم کے کارکنان کے ذہنوں میں بھی گردش کر رہے ہونگے۔ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ قطع تعلقی کے بعد اُن کا الطاف حسین یا ایم کیو ایم لندن سے کوئی رابطہ نہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے الطاف حسین سے قطع تعلقی کے بعد وسیم اختر کراچی کے مئیر منتخب ہوئے۔ اپنے انتخاب کے بعد متحدہ کے دوسرے رہنمائوں کی طرح انہوں نے بھی الطاف حسین اور لندن ایم کیو ایم کی بجائے ایم کیو ایم پاکستان سے اپنے آپ کو جوڑا۔ کراچی کے منتخب مئیر وسیم اختر نے الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیان کو غداری قرار دیتے ہوئے فاروق ستار کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت گذشتہ چار ہفتوں سے الطاف حسین کی 22 اگست  کی تقریر سے اپنے آپ کو لاتعلق قرار دئے رہے ہیں اور ایم کیو ایم کو سیاسی تباہی سے بچانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ فاروق ستار کی یہ کوششیں کچھ  کارآمد ہوتی نظر آئیں تو لندن میں موجود الطاف حسین اور ان کے حواریوں  کو یہ بات قطعی پسند نہیں آئی،  لہذا 20 ستمبر 2016 کی دوپہر ایم کیو ایم لندن کے رہنما ندیم نصرت نے  ایک بیان جاری کیا جس میں  کہا گیا ہے کہ ‘‘بانی ایم کیو ایم نے ہی مہاجروں کو شناخت دی،ان کے بغیر ایم کیوایم کچھ نہیں ہے، بانی ایم کیوایم اپنی ذات میں ایم کیوایم ہیں’’۔اس کے جواب میں رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لندن سے جاری کے گئے بیان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان کا مزید کہنا ہے کہ ندیم نصرت کے بیان کو ایم کیوایم پاکستان کا بیان نہ سمجھا جائے، 22 اگست کے واقعے کے بعد متفقہ طور پرلندن سے اظہار لاتعلقی کرچکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان لندن سے چلنے والی ایم کیو ایم کی ویب سائٹ سے پہلے ہی لاتعلقی کا اظہار کرچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ندیم نصرت، واسع جلیل، مصطفیٰ عزیزآبادی اور قاسم علی کو رابطہ کمیٹی سے خارج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ23اگست کی پالیسی کی خلاف ورزی پر ندیم نصرت، واسع جلیل، مصطفیٰ عزیزآبادی اور قاسم علی کی پارٹی رکنیت منسوخ کی جائے گی۔

ندیم نصرت کے بیان کے جواب میں رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان نے بلکل صیح فیصلہ کیا ہے، ندیم نصرت کہہ رہے ہیں کہ‘‘بانی ایم کیو ایم نے ہی مہاجروں کو شناخت دی’’، جی ہاں  30 سال میں الطاف حسین  نے مہاجروں کو ہزاروں لاشیں، بھتہ خور بدماش، ٹارگیٹ کلر، بوری بند لاشیں اورخوف دیا ہے اور آج پاکستان میں مہاجروں کی یہ ہی شناخت ہے۔ الطاف حسین 24 سال قبل پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے تھے اور 2013 میں جن نوجوانوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیا تھا انہوں نے الطاف حسین کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھا ہے۔ پاکستان ایک ایسا بدنصیب ملک ہے جہاں عوام  شخصیت پرستی کے مرض میں بری طرح ملوث ہیں۔ ایم کیو ایم روز اول سے الطاف حسین کا دوسرا نام اور شخصیت پرستی کے اعتبار سے یہ پاکستان کی سب سے قابل ذکر جماعت ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکن الطاف حسین کو پیر صاحب کہتے تھے، پیر صاحب شہرت اور دولت میں مالامال ہوئے تو  اپنی حیثیت بھول بیٹھے، پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا اورپیر 22 اگست کو انہوں نے ‘‘پاکستان مردہ باد’’ کے نعرئے لگا دیئے، پاکستان تو مردہ باد نہیں ہوا البتہ  مہاجروں کی نظر میں پیر الطاف حسین ضرور مردہ باد ہوگئے ہیں۔

اس وقت ایم کیو ایم پر پارٹی کی حیثیت سے اس کے سینکڑوں کارکنوں پرٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دوسرے جرائم کے مقدمے چل رہے ہیں۔  مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد چاہے کسی بھی جما عت سے تعلق رکھتے ہوں انہیں سزا دی جانی چاہئے لیکن  ضرورت اس امر کی  بھی ہے کہ سیاسی ماحول کو بہتر کیا جائے۔ سینیر کالم نگاروسعت اللہ خان کے مطابق ‘‘ایم کیو ایم سے لاکھ اختلاف سہی ، کسی کو پسند ہو یا نہ ہو لیکن وہ بہرحال پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی کی نمائندہ جماعت اور حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر کی شہری سیاست کا ناگزیر حصہ ہے اور پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی ہے، جس نے گذشتہ عام انتخابات میں 25 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ لہٰذا اس وقت ایم کیو ایم جس دور سے گذر رہی ہے اسے سہولت سے گزرنے دیا جائے۔ اس عمل کو کوئی خاص سمت دینے کی کوئی بھی ماورائے جماعت خارجی مداخلت معاملات کو سنوارنے کے بجائے مزید بگاڑ سکتی ہے’’۔ ایم کیو ایم کو اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے، دفاتر کھلنے سے فاروق ستار اور ایم کیو ایم کو اپنے کارکنان سے رابطہ بحال کرنے میں آسانی ہوگی  اور ان کو حال ہی میں کیے گئے فیصلوں سے آگاہ کرنے کے بعد  کارکنان کی توثیق کرانے کا موقع ملے گا ،جس کے بعد کراچی  اور دوسرئے شہروں میں امن قائم ہونے میں کافی مدد ملے گی۔ 14 اگست 1947 کو وجود میں آنے والے پاکستان  کے وجود میں آنے سے پہلے  بھی بہت زیادہ مخالفت کی گئی تھی، اس وقت بھی سب  نےملکر ایک نعرہ لگایا تھا اور آج  بھی سب ملکر وہی نعرہ لگاتے ہیں  ‘‘پاکستان زندہ باد’’۔

Short URL: http://tinyurl.com/jqrmssl
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *