جہیز اور ہمارا معاشرہ

M. Tariq Nouman Garrangi
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

آہ!حسن ڈھل گیاجوانی گزر گئی
بیٹی غریب باپ کی بے موت مرگئی

مذہب اسلام ایک آفاقی دین ہے جس نے رہتی دنیا تک کہ ہر شخص کے لیے زندگی کاایک مکمل لائحہ عمل دیا ہے، اور دنیا میں بسنے والے جاندار کے حقوق متعین کیے ہیں، مرد وعورت کے حقوق کوواضح طور پر بیان کردیا ہے،اسلام وہ مذہب ہے جس نے عورت کو اس کے تمام تر حقوق کے ساتھ باعزت زندگی گذارنے کا حق دیا ہے، اسلام کے ابتدائی زمانہ جب کہ روم، یونان کو تہذیب وتمدن کا منبع تصور کیا جاتا تھا، سامانِ تجارت کے مانند عورتیں فروخت کی جاتی تھیں، مذہب اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسوم ورواج کو ختم کرکے عورتوں کے لئے معاشرے میں ایک باعزت مقام عطا کیا، اور انہیں وراثت کا حقدار قرار دے کر قرآن شریف میں اس کی مکمل وضاحت کردی، غیر مسلموں میں آج بھی عورتوں کو وراثت کا حقدار نہیں سمجھا جاتا ہے، اسی بات کے پیشِ نظر باپ اپنی بیٹی کی شادی میں اپنی استطاعت کے بقدر اس کی ضروریات زندگی کے سامان تیار کرکے جہیزکی شکل میں دے دیتا ہے، یہانتک کہ یہ جہیز والی شکل ہر شادی کے لئے جزو لاینفک کی صورت اختیار کرگئی، خربوزہ خربوزہ کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے بر صغیر میں ہندو مسلم کے باہمی اختلاط کی بناپر جہیز کی وبا مسلمانوں میں بھی سرایت کر گئی، خدا کے متعین کردہ حقوق کو بھلا کر مسلمان جہیز کی لعنت میں گرفتار ہوگئے، جہیز کے نام پر مسلم دوشیزاؤں کا استحصال کیا جانے لگا، نیک سیرت صنف نازک کی ایک بڑی تعداد ہر دن جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھتی ہے، متاع تعیش کے عشاقوں نے نہ جانے کتنی مسلم بہنوں کو آگ کی نذر کیا ہے، اخبار کی سرخیاں جہیز کی لعنت میں گرفتار ہوئی لڑکیوں کے خون سے ہر دن رنگی ہوئی ہوتی ہیں۔
دورِ حاضر میں جہیز مسلم معاشرہ کے لئے وہ ناسور بن چکا ہے جس کی گرفت سے خلاصی ممکن نظر نہیں آتی، بلکہ یوں کہا جائے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے، اور اس لعنت سے خود کو آزاد نہیں کرانا چاہتا، جس طرح عیدالاضحی کے ایام میں بیل بچھڑوں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں، بعینہ یہی صورت شادی کے وقت لڑکے کی ہوتی ہے، کئی کئی جگہ دعوت اڑاکر اور بنت حوا کی تذلیل کرکے محض سامانِ آرائش وزیبائش کے مکمل نہ ہونے کی بنا پر یا کچھ کم ہونے کی بنا پر (Reject) کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے، فلاں لڑکا سول انجینئر ہے اس لئے اس کی قیمت دو لاکھ روپئے اور ایک موٹر سائیکل ہے، فلاں صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹرہیں انکی قیمت دس لاکھ روپئے اور چار پہیے والی گاڑی ہے،فلاں صاحب گلف میں رہتے ہیں ان کی قیمت پانچ لاکھ روپئے اور چار پہیے گاڑی کے ساتھ تمام عیش وآرائش کاسامان ہے۔ اسلام نے نکاح کو جس قدر آسان بنایاتھا مادیت اور دولت کے معبود کادرجہ دینے والوں نے اسے اتنا ہی مشکل بنادیا ہے
اقبال کے شاہین جو کبھی پہاڑوں،ریگستانوں اورجنگل وبیابان میں شب وروز بسر کرکے دین حنیف کی حفاظت کرتے تھے آج کاسہ گدائی لے کر بنت حوا کی مجبوریوں کاناجائز فائدہ اٹھا کر دین مستقیم کے قلع کو مسمار کرنے کی زد پر ہے، جس مقدس رشتہ کے ذریعے ایک صالح معاشرہ کاقیام ممکن ہے اس کی ابتدا احکام اسلام کو یکسر پس پشت ڈال کر کی جاتی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب دل اس بری رسم کے خلاف کمربستہ ہوتے ہیں اور اپنے اعزہ واقارب کی شادی میں طریقہ نبوی اختیار کرتے ہیں تو مادیت کے پرستاروں اور دین اسلام کی دھجیاں اڑانے والے الزام تراشی شروع کردیتے ہیں، فلاں لڑکے میں یہ عیب تھا اس لیے کچھ نہیں لیا، فلاں صاحب بھی معیوب تھے اس لیے مطالبہ نہیں کیا۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے زیادہ آسانی ہو۔ دین اسلام نے نکاح کو بہت ہی آسان بنایا ہے صحابہ کرام اور اولیا اللہ کی زندگی کے بے شمار واقعات موجود ہیں، کس طرح سادگی سے نکاح کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے صحابی اور مدینہ کے مالدار تاجر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا نکاح ہوا تو مدینے کی گلیوں میں قمقمے نہیں جلائے گئے، ڈھول باجوں کی آواز پر تھرکے نہیں گئے بلکہ خود آقا مدنی ﷺکو بروقت خبر بھی نہ دے سکے۔
جب مسلمان شریعت مطہرہ پر قائم تھے اور نکاح طریقہ نبوی پر ہورہا تھا زنا کی لعنت ناپید تھی، روئے زمین پر بسنے والی تمام قوموں میں سب سے زیادہ پاکباز معاشرہ مسلم معاشرہ تھا، مگر افسوس کہ جب سے جہیز کی لعنت معاشرہ میں سمائی ہے او رنکاح دنیا کا سب سے مشکل ترین امر بن گیا ہے زنا کی وبا عام ہوگئی ہے، غربت وافلاس کی زنجیروں میں قید ایک باپ جب بروقت اپنی جوان بیٹی کو نکاح کے مقدس رشتے میں باندھنے سے عاجز ہوجاتا ہے تو یہ ظالم معاشرہ طرح طرح کی الزام تراشیاں شروع کردیتا ہے، کبھی لڑکی کو منحوس قرار دیاجاتا ہے تو کبھی اس پر شناسا کے ساتھ ملنے کا بہتان لگایاجاتا ہے نتیجتاً حوا کی پاکباز بیٹی کے قدم ڈگمگاتے ہیں اور وہ گناہوں کے دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے، آج مسلم نوجوان کی بڑی تعداد جنسی بے راہ روی کی شکار ہوگئی ہے، طرح طرح کی برائیاں سماج میں جنم لے رہی ہیں بروقت نکاح کے مقدس رشتے سے نہ بندھنے کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کا گھر سے فرار ہوکر شادی کرنے کی رسم عروج پر ہے اور روز مرہ کا معمول بن چکی ہے۔
وہ مسلم قوم جس کے شب وروز کا ایک ایک عمل جس کی زبان کا ایک ایک قول اور جس کی زندگی کا ایک ایک معمول سنت رسولﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا معاملات سے لے کر عبادات تک اور اخلاق وعادات سے لے کر معاشرت تک ہر ہر شعبہ میں جن کی زندگی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نمونہ تھی اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، سوتے جاگتے اس طرح کے تمام طبعی امو رمیں بھی سنتوں کا نہ صرف خیال رکھتے تھے بلکہ پابندی کے ساتھ ان پر عمل پیرا تھے
آج جاہلانہ رسم ورواج کے گرویدہ بن چکے ہیں سسٹم اور کسٹم کے نام پر سنت نبوی کو یکسر فراموش کرچکے ہیں، جہیز جیسے ناسور کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنا چکے ہیں، پھر بھی عشق ومحبت کا دم بھرتے ہیں، خود کو عاشق رسولﷺ اور محسن انسانیت کی محبت میں گرویدہ سمجھتے ہیں، اتباع رسولﷺ کے بغیر عشق نبی کا دم بھرنا عشق وعبدیت کی نزاکتوں کی توہین نہیں تو اور کیا ہے یادرکھئے قومیں اور تہذیبیں اپنے تشخص اور امتیازی تعلیمات سے زندہ رہتی ہیں اور جب کوئی قوم اپنا تشخص پامال کرکے کھوبیٹھتی ہے تو اسے ماضی کا حصہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ کون سا عشق رسول ہے کہ صنف نازک کو خودکشی پر مجبور کرکے سکون محسوس کیا جائے آج ہمارے پیارے ملک پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یہ جہیز کی لعنت عام ہے اور روز کسی نہ کسی بنت حوا کے جلنے، گولی سے مارنے اور زہر لے کر ہلاکت کی خبریں آتی ہیں کیا یہی عشق رسول ہے کہ وہ نبی جس نے بیٹی کو اتنی اہمیت دی اور اس کے امتی آج ان کی بیٹیوں کو زندہ درگور کررہے ہیں۔ خدارا غریب کی آہ نہ لیں جہیز کی رسم کو ختم کریں یہ اسلامی شعار نہیں ہے یہ محض ہندوانہ رسم ہے کہیں ہم اس من تشبہ بقوم فہومنہم کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی گویا وہ اسی میں سے ہے میں نہ گردانے جائیں۔
طلب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں
دیکھواداس بیٹھی ہیں حواکی بیٹیاں

Short URL: https://tinyurl.com/2ovxq88d
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *