(لارڈز کے شیر اولڈ ٹریفرڈ میں ڈھیر (پہلے و دوسرے ٹیسٹ کا موازنہ

Print Friendly, PDF & Email

  :لارڈز کا پہلا ٹیسٹ
پاکستان کیلئے انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز کے دوران پہلا ٹیسٹ ہی جیت لینا ایک بہت بڑی اور ناممکن کو ممکن دکھا دینے والی کامیابی تھی۔جس کا سہراسلیکٹرز کے بعد سب سے پہلے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو جاتا ہے جس نے ٹیم کی فوجی تربیت کے دوران صاف کہا تھا کہ کھلاڑیوں کا جیت کے سفر کی طرف قدم بڑھانے کیلئے اُنکے ذہن سے شکست کا خوف نکالنا ہو گا اور ڈسپلن اُسکی پہلی منزل ہو گی۔ تیسرا اہم کردار کپتان مصباح الحق کا رہا جنہوں اپنی زیادہ عمر کو نہ اپنے اُوپر حاوی ہو نے دیا اور نہ ہی اپنے اسکوڈ پر کسی قسم کا ایسا دباؤ ڈالا جسکی وجہ سے وہ گھبرائے ہو ئے نظر آتے۔
:کامیابی کا سہرا
کپتان مصباح الحق نے پہلے ٹیسٹ میچ میں سنچری بنانے کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُس ہی وقت گراؤنڈ میں دس پش اَپس نکال کر بتایا کہ وہ ابھی بہترین کھیل پیش کر سکتے ہیں ۔
لیگ سپنر یاسر شاہ اس میچ کے بعدٹیسٹ کیر ئیر میں پہلی دفعہ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پا ئے ہیں اور لارڈز ٹیسٹ میں 10وکٹیں لیکر پاکستان کو انگلینڈ کے فتح سے ہمکنار کروانے والے یاسر شاہ کو شاندار باؤلنگ کا انعام مل گیااور ٹیسٹ کی عالمی رینکنگ میں سرفہرست یعنی نمبر1پر آگئے۔لارڈز ٹیسٹ سے پہلے وہ نمبر4کے درجے پر تھے۔یہ اعزاز 20سال بعد کسی پاکستانی باؤلر کا حاصل ہو اہے۔ اس سے پہلے دسمبر 1996ء میں پاکستانی باؤلر مشتاق احمد جو اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کو چ بھی ہیں نمبر1کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں پہلے ٹیسٹ میں ایک بھر پور جوڑ نظر آیا اور ہر کھلاڑی نے انتہائی ذمہداری سے پورے میچ میں اپنا حصہ ڈالا جسکی وجہ سے ٹیم موریل بہت بلند نظر آیا۔ انگلینڈ کی ٹیم کے اگر بلے باز ناکام نظر آئے تو اُنکے باؤلز کی کارگردگی قابلِ تعریف رہی۔ خصوصی طور پر کرس ووکس کی جس نے میچ میں کُل11کھلاڑی آؤٹ کیئے اور براڈ کی اِن و آؤٹ سوئنگ اپنی جگہ کمال رہی۔ساتھ میں اُنھوں نے ٹیسٹ میچوں میں اپنی350وکٹیں بھی مکمل کر لیں۔
سوال یہ نہیں کہ اسکو ر نہ کرنا ،آؤٹ نہ کرنا یا کوئی کیچ چھوٹ جانا میچ کی ہار جیت کا باعث بن جاتا ہے سوال یہ ہے کہ یہ کمی بیشی کھیل کا حصہ ہوتی ہے اور اس ہی میں ٹیم ورک ایک کی جیت اور ایک کی ہار بن جاتی ہے۔لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ مقابلہ جوڑ کا ہونا چاہیئے۔جو پہلے ٹیسٹ میں واضح نظرآیا ۔
بعدازاں پہلا ٹیسٹ جیت کر پویلین میں واپس آنے سے پہلے پوری پاکستانی ٹیم نے ایک نئے انداز میں کھڑے ہو کر پہلے اپنے ٹرینرز کو سلوٹ کیا اور پاک فوج و پاکستان ملٹری اکیڈمی انسڑکٹرز کو خصوصی طور پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ پھر سب نے مِل کر کامیابی کا جشن مناتے ہوئے گراؤنڈ میں پش اَپز نکالیں جس پر وہاں پر موجود شائقین نے اُنکو داد دی۔
:اولڈ ٹریفرڈ مین دوسراٹیسٹ
انگلینڈ کرکٹ ٹیم نے بہترین کھیل سے اولڈ ٹریفرڈ میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ کو یک طرفہ بنا کر آسانی سے جیت لیا۔ وجہ اُنکی ہر شعبے میں اعلیٰ کار کردگی تھی۔ لیکن غور طلب یہ رہا کہ انگلینڈ کے کپتان اور کھلاڑیوں نے فتح کی خوشی تو منائی لیکن سخت مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی خاص جوش نہیں دِکھایا۔
:پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناکامی کی وجہ
مانچسٹر میں اولڈ ٹریفرڈ فُٹ بال اسٹیڈیم اور دوسرا اولڈ ٹریفرڈ کرکٹ گراؤنڈ بہت مشہور ہے اور دونوں جگہ بالترتیب اپنے کلبوں ہوم آف مانچسٹر یونائیٹڈ ایف سی اور ہوم آف لنکا شائر کاونٹی کرکٹ کلب کی وجہ سے اہم سمجھی جاتی ہیں ۔ انگلینڈ کے اہم فاسٹ باؤلر جیمز اینڈریسن جنکو 22ِ تا 26ِ جولائی 2016ء کو کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میں شامل کیا گیا تھا اس ہی کلب کے ہیں اور اُنکا ہوم گراؤنڈ بھی۔ لہذا اُنکی شمولیت کا کہیں نہ کہیں نفساتی اثر پاکستان کی ٹیم پر ضرور تھا ۔ ساتھ مین ثقلین مشتاق کا انگلینڈ ٹیم کے سپن باؤلرز کا کوچ بننا اور ٹیسٹ میں باؤلنگ کے دوران معین علی کی باڈی لینگویج کوچ کی تربیت کا پیش خیمہ نظر آنا بھی اہم رہا۔
بیٹنگ وکٹ اور اولڈ ٹریفرڈ میں پہلے دِ ن کا مناسب گرم ترین موسم مصباح الحق اور پاکستانی بلے بازوں کیلئے بہت ساز گار سمجھا جارہا تھا اور اس وجہ سے مصباح الحق کو ٹاس جتنے کی خواہش بھی تھی جو وہ ہار گیا اور اگلے چند گھنٹوں میں پوری ٹیم کی باڈی لینگویج ہی تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔جیسے اس وکٹ پر ہم نے اسکور کرناتھا لیکن موقعہ انگلینڈ کو مل گیا ۔
کپتان ایلسٹر کک یہی چاہتا تھا لہذا اُس نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے بلے بازوں کے ساتھ مِل کر پاکستان کے خلاف589رنز کر ڈالے اور پھر 8کھلاڑی آؤٹ پر ڈیکلیئر کر کے پاکستان کے بلے بازوں کو اُس وقت اَزمائش میں ڈال دیا جس وقت دوسرے دِن کا کھیل ختم ہونے والا تھا۔
پاکستانی بلے باز نفسیاتی دباؤ میںآگئے اور پھر دونوں اننگز میں ایک ایسی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے جس میں ہم آہنگی کا فقدان واضح نظر آیا ۔ جسکی مثال وقت ہونے کے باوجود بے ترتیب یا غیر ذمہ دارانہ شارٹس کھیل کر آؤٹ ہو نا تھا۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایسے لگ رہی تھی جیسے پہلے دِن سے ہی ذہنی طور پر تھکی ہوئی تھی اور باؤلنگ ، فیلڈنگ کے بعد بیٹنگ میں بھی تھکان کے اثرات نے مقابلے کی دوڑ سے باہر کر دیا تھا۔اگر پہلی اننگز میں جمیز وینس کا سلپ میں یونس خان نے کیچ چھوڑا تھا تو دوسری اننگز میں ایلسٹر کک نے بھی سلپ میں یونس خان کا کیچ چھوڑ دیا تھا۔ لیکن فرق یہ تھا کہ یہ ٹیسٹ وہ جتنے آئے تھے لہذا اُنھوں نے ذہنی طور پر ایسا کوئی دباؤ محسوس نہ کیا کیونکہ وہ باؤلنگ، بیٹنگ و فیلڈنگ کے شعبوں میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے اور پاکستانی ٹیم تمام شعبوں میں ناک آؤٹ۔
ایک اور غور طلب معاملہ تھا یاسر شاہ کی ناکامی اور ووکس کی دوسرے ٹیسٹ میں بھی کامیابی۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے یاسر شاہ کی باؤلنگ کو سمجھتے رہے ہیں لہذا وہ پورے ٹیسٹ میں 266رنز دے کر صرف1وکٹ حاصل کر سکا جبکہ پاکستان کے بلے بازوں نے ووکس کی پہلے ٹیسٹ کی باؤلنگ کا جائزہ نہیں لیا اور وہ جیمز اینڈریسن کے خوف میں ہی مبتلا رہے ۔ حالانکہ اُسکی شمولیت خصوصی طور پر انگلینڈ کی کامیابی کا باعث نہیں بنی بلکہ ووکس ایک دفعہ پھر ٹیسٹ میں7وکٹیں لے گیا۔
یاسر شاہ کے ساتھ یہ ضرور ہوا کہ وہ اس ٹیسٹ کے بعد نمبر1سے 5ویں نمبر پر آگیا ہے اور اُسکی جگہ بھارت کا روی چندرن ایشوون ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 7وکٹیں لیکر نمبر1پر آگیا ہے۔
محمد عامر کی باؤلنگ کی اگلے پر دہشت بہترین فیلڈنگ پر بھی منحصر ہے لیکن دونوں ٹیسٹ میچوں میں اُسکی باؤلنگ پر ہاتھوں سے کیچ ہی گرا دیئے جائیں تو اُس پر تنقید کیا ؟
نائٹ واچ مین اور دوسرے ٹیسٹ میں پھر راحت علی ہی اور پھر اُس ہی دِ ن آؤٹ۔ تنقید کی زد میں آگیا ۔ کیونکہ دونوں دفعہ نتیجہ بھی نہ نکلا اور وکٹ بھی گئی۔
آخر میں شاہد آفریدی کے اس بیان پر تنقید کرنے کی بجائے ضرور غور کر نا چاہیئے کہ عالمی کرکٹ کی طلب کے مطابق ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا ہے۔دوسرے ٹیسٹ میں یہ واضح نظر آیا ہے کہ کسی نوجوان بلے باز نے بہترین اننگز کھیلنے کی کوشش نہیں کی یا اُس سے کھیلی ہی نہیں گئی۔ مثلاً شان مسعود دونوں اننگز میں 450سے زائد ٹیسٹ وکٹیں لینے والے فاسٹ باؤلر جیمز اینڈریسن کا شکا ر بنے۔
دونوں ممالک کے درمیان اس موجودہ ٹیسٹ تک اولڈ ٹریفرڈ میں 6 مقابلے ہو چکے ہیں جن میں سے 2001ء میں پاکستان جیتا تھا اور 2006ء اور2016ء میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ 3ٹیسٹ میچ برابر رہے ہیں ۔
:ٹیسٹ کی اہم یادیں
ٹیسٹ کرکٹ میں آج تک کسی بھی ٹیم نے چوتھی ا ننگز میں اتنا بڑا ہدف (565رنزکا)تعاقب نہیں کیا۔جبکہ سب سے بڑے ہدف418اسکور کے حصول کا ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے پاس ہے۔
انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف 589رنز بنا کر مجموعی اسکور کا نیا ریکارڈ بنا دیا۔ اس سے پہلے1954ء میں 558رنزکا ریکارڈ تھا۔
:ٹیسٹ سیریز 2016
کے 4میں سے 2ٹیسٹ میچ ہو چکے ہیں اورسیریزاب1-1سے برابر ہو گئی ہے۔اُمید ہے پاکستان کی انتظامیہ، کپتان اور کھلاڑی موجودہ ٹیسٹ کی خامیوں اور ماہرین کی مثبت تنقید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 3ِاگست کو برمنگھم میں شروع ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میں ایک دفعہ پھر لارڈز والے ٹیسٹ کے ولولے سے میدان میں اُتر کر اس جملے کی نفی کر دیں گے کہ ” لارڈز کے شیر اولڈ ٹریفرڈ میں ڈھیر” ۔

Short URL: http://tinyurl.com/h78oqlc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *