حیا ء۔۔۔۔ تحریر: زینب ملک
حیاء کے معنوں میں عربوں میں اختلاف ہے ۔بعض لوگ کہتے ہیں “حیا”وہ خلق جو اچھے کام کرنے اور برے افعال چھوڑنے پر ابھاڑتا ہے ۔
یوم حجاب منانے کا فیصلہ آج سے محض چند سال قبل ہوا جبکہ امت مسلمہ اس خوبصورت تحفے کو کئی سالوں سے اپنائے ہوئے ہیں ہر خطے اور علاقے میں اس کی ساخت جدا سہی مگر اس کا مقصد صرف اور صرف ایک ہے معاشرے کو حیا کی چادر سے مزین رکھنا ۔
حجاب مسلمان خواتیں کا فخرو امتیاز ہے جو اسلامی معاشرے کو پاکیزگی عطا کرنے کا ذریعہ ہے۔
مسلم دنیا کو پاکیزگی سے ہٹا کر بے حیائی کی دلدل میں دکھیلا اور عورت کو ترقی کے نام پر بیحجاب کرنا ہمیشہ شیطانی قوتوں کا ہدف رہا ہے شیطان کی پہلی چال صف نازک کو سیدھی راہ سے ہٹانے کی ہے ۔
حیا عورت کا مان ہے شرم ،آداب ،شیریں لہجہ سب صف نازک کو قیمتی بناتے ہیں۔
حیا شرم و لجاجت خود کو ڈھانپنے اور پردادار رہنے کا نام ہے گندگی سے دور رہنے کا نام ہے ۔
حضرت ام خلاد کا لڑکا ایک جھنگ میں شہید ہوگیا وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کیلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہہ وسلم کے پاس آئیں مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی ۔
بعض صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے خیرت کیساتھ کہا:
“اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے(یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا اور تم باپردہ آئی ہو)۔
جواب میں کہنیں لگیں :
میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھو دی
اسلام میں حیا کا مقام بہت بلند ہے عورت اور مرد کا حیا کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا بہت ضروری ہے مر اور عورت کیلئے حدود مقرر کر دی گئیں ہیں جن پر ان دونوں کا عمل کرنا ضروری ہے ۔
آج معاشرے میں مقام کیلئے عورت اپنی حدود بھولتی جارہی ہے ترقی کی دور نے اسے نقاب سے دور کردیا ہے حیا ختم ہوگئی ہے وہ حیا جو ایک دائرے میں مقید رکھتی ہے اور گندگی کے ڈھیر سے بچاتی ہے عورت کو سکھاتی ہے کیا لباس اسکیلئے بہتر اور کیا ناگزیر ہے تنگ لباس چست پاجامے ڈوپٹے سے عاری وجود معاشرہ جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے آخرت کیلئے صرف بڑے اعمال اکھٹا کررہا ہے ۔
بیحیائی عام ہوچکی ہے عریاں وجود ٹیلی ویڑن انٹرنیٹ پر کھلے عام افشان کیئے جاتے ہیں ہر راز کی بات کو کھلے عام پوری کائنات کے سامنے پیش کردیا ہے ایسی چیزیں جو کچے ذہنوں کو تباہ کرتی ہیں ان کیلئے نقصان کا باعث بنتی ہیں وہ تمام ہدایتیں مہیا کرتی ہیں جو ان کی عمر سے بہت بڑی ہیں ۔
افسوس صد افسوس آج معاشرہ غلاظت کے ڈھیر میں دبتا جارہا ہے ۔شرم و حیا کا نام و نشان نہیں ہے برائی ہر جگہ ہے ۔
عورت کا خود کو ڈھانپنا بہت ضروری ہے ۔
اے نبی اپنی بیویوں اپنی صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں سے کہ دیجئیے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں اس بات سے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ وہ پاک دامن عورتیں ہیں) پھر انہیں آوارہ باندیاں سمجھ کر ایذاء نہ پہنچایا جائے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مومن عورتوں سے کہ دیجئیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں(النور 24 :آیت 31)۔
عورت کو خود کو ڈھانپنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ درندوں سے بچ سکے۔
Leave a Reply