غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا

M. Tariq Nouman Garrangi
Print Friendly, PDF & Email

Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena Farog e Wadi Sena

تحریر: مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی

آمنہ کے لال عبد اللہ کے دریتیم محبوب کبریا احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے جس کی ہرجھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ کی ذات مبارکہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا حلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کاجلال اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر پایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے بستیوں اور بیابانوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا، مخالفین کی سنگ زنی وسختیاں سہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح وطن چھوڑا اور ہجرت کی مگر پھر بھی دنیا ئے انسانیت کو امن و محبت، رحمت اور سلامتی کا پیغام دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح اس دنیا میں حکمت کی بنیاد ڈالی غرض وہ تمام خوبیاں، اوصاف حمیدہ جو پہلے نبیوں میں پائی جاتی تھیں وہ تمام بدرجہ اتم محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ میں موجود تھیں۔

حسن یوسف، دم عیسی، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارد، تو تنہا داری

قبل از اسلام دنیا کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں توحید کی جگہ شرک خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم واستبداد نے لے رکھی تھی۔ عورت کی معاشرے میں کوئی تکریم نہیں تھی۔ بیٹی کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جنگ شروع ہوجاتی تووہ جنگ کئی سالوں تک جاری رہتی۔ شراب نوشی، جوئے بازی اور اوہام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ انسانیت سسک رہی تھی، بلک رہی تھی اور کسی ایسے مسیحا کا انتظار کر رہی تھی جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سمیٹ سکے ان جاہلانہ رسومات، خود ساختہ مذہبی، سماجی بندشوں، تہذیبی اور اخلاقی تنزلی، فتنہ و فساد، تخریب کاری، خرافات کا خاتمہ کر سکے جو ایسی تحریک چلائے جس سے اوہام پرستی کا خاتمہ ہو جائے جہالت وگمراہی کے اندھیروں، ظلم و جبر کی زنجیر کو توڑ کر غریبوں، بیواؤں یتیمو ں اورکمزوروں کے استحصال کو روکے بالآخر رب ذوالجلال کی رحمت جوش میں آئی۔ ظلم وبربریت کی تاریکی میں ہدایت کا ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے ساتھ ہی ایسے معجزات رونما ہوئے جو اس امر کا پیش خیمہ تھے کہ وہ عہد آچکا ہے کہ جس میں فرسودہ نظام اور توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی سر زمین پر ایک نئی تہذیب اور الٰہی نظم و نسق کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والے تھے لہذا ولادت کے پہلے ہی دن نظام جاہلیت کے کلیساں میں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فارس کے آتش کدہ میں جو آگ ہزار وں سال سے جل رہی تھی وہ بجھ گئی۔ ان واقعات کے رونما ہونے سے بڑے بڑے سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر کائنات کا نظام اچانک تبدیل کیسے ہوگیا اور دنیا میں کونسا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جسکے اثرات انکے مذہبی عقائد پر مرتب ہو رہے ہیں۔ الغرض چالیس سال تک اس پر آشوب اور بد ترین عہد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صداقت اور دیانت داری کا لوہا منوایا اور جب فاران کی چوٹیوں سے اعلان رسالت کیا تو عرب ہی نہیں بلکہ تمام عالم میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ وہ تہذیب اور قانون الٰہی کی بالادستی جو حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلا م کے بعد دم تو ڑ چکی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے اس کو نئی زندگی مل گئی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ کا اِنتقال وِلادت سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کو ملی تو وہ خوشی سے حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوش و محبت سے اپنے پوتے کو سینے سے لگایا اور کعبہ میں لے جا کر خیر برکت کی دعائیں مانگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا۔ حلیمہ سعدیہ کو جب آمنہ کے لال کی خبر ملی تو بی بی آمنہ کے گھر سے اپنی گود میں لے گئیں اور آپ کو حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک6 سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں۔ واپسی میں بمقامِ ابوا ان کا انتقال ہوگیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش ام ایمن کے سپرد ہوئی۔ 8 سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے لیا۔ 9 سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور25 سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے 2ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا سے عقدنکاح ہوا۔ 35 سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیر کعبہ میں حصہ لیا۔ حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے الجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا۔ جس سے ایک ایسی خون ریز جنگ ٹل گئی جس کے نتیجے میں نہ جانے کتنا خون خرابہ ہوتا۔

معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب امی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے کسی معلم سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ من جانب اللہ متعلم تھے ظاہر ہے جس ہستی کو تعلیم دینے والا خود خالق کائنات ہو اسے کسی اور سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہوگی۔

مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی

غارحرا اور پہلی وحی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں اماں حلیمہ کی بکریاں بھی چرائیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کا چالیسواں سال شرع ہوا تو آپ کی ذات اقدس میں ایک نیا انقلاب رونما ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت پسند آئی چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ خلوت میں اللہ کی عبادت کا ذوق اس طرح بڑھ گیا آپ کا بیشتر وقت مناظر قدرت کے مشاہدات و کائنات فطرت کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ دن رات نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔ ایک دن آپ غار حرا کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ جبرائیل امین اللہ کی طرف سے قرآن پاک کی سورت العلق کی ابتدائی آیات لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر تاج نبوت سجانے آگئے۔ آیات مبارکہ کے بعد اللہ رب العزت نے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت و تبلیغ حق کے منصب پر مامور فرمایا۔

سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا شباب مجسم حیا اور عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلان نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام حیات مبارکہ بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی صداقت ودیانت کم گوئی، ایفائے عہد، خندہ پیشانی، خوش اخلاقی، چھوٹوں سے شفقت، بڑوں سیمحبت، صلہ رحمی، غمخواری، غریب پروری، عفو و درگزر، مخلوق خدا کی خیرخواہی الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اخلاص حسنہ و محاسنہ افعال کا مجسمہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک تھی۔ بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار انسانیت کا ایک ایسا محیرالعقول اور غیر معمولی کردارہے جو نبی کے علاوہ کسی کا ممکن ہی نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور امت کے لیے مینارِ ہدایت ہے، چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا امت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگا ؤاور دلچسپی تھی معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی صلاحیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں مو جود تھیں۔جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریشِ مکہ کے دوش بدو ش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے جب عمارت میں حجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل میں سخت جھگڑا ہوگیا اس کشمکش میں چار دن گزر گئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ آپ نے اس طرح اس جھگڑے کا تصفیہ فرمایا کہ آپ نے ایک چادر بچھا کراس پر حجر اسود رکھا اور تمام سرداروں کو حکم دیا کہ سب اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر اٹھائیں سب سردارو ں نے مل کرچادر کو اٹھایا اورجب حجراسود اپنے مقام پر پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔
کسب حلال کی اہمیت کے پیش نظر بچپن میں قریش کی بکریاں چرائیں جو تمام انبیا ء علیہم السلام کی سنت بھی ہے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الامین (امانت دار سچے تاجر)کی صورت میں سامنے آئے۔
صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ا وصاف کا اقرار کرتے تھے چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا:”ماوجدنک الا صادق“اہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتداء بنانا تھا اور امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بطورِ اسوہ حسنہ پیش کرنا تھا۔
وحی الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیا ء علیہم السلام اور باری تعالی کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔
بے شک یہ(قرآن) ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔
(التکویر: 21۔ 19)

تین ادواردعوت و تبلیغ کے

پہلا دور: تین سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ طور پر اور راز داری کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا فرماتے رہے اس درمیان میں سب سے پہلے ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ سب سے پہلے اسلام لا نے والے سابقین اولین کے لقب سے سرفراز ہوئے۔
دوسرا دور: تین سال کے بعد اس خفیہ دعوت سے مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہو چکی تھی اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ سلم پر سور ۃ شعراء کی آیت مبارکہ نازل فرمائی: وانذِر عشِیرتک الاقربِین۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی پر کھڑے ہو کر قبیلہ قریش کو پکارا جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اگر ایمان نہیں لا ؤگے تو تم پر عذاب الٰہی اترے گا۔ تمام قوم کو صرف اللہ تعالی کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی پوری قوت سے دعوت دی یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ کے چچا ابولہب بھی موجود تھا سخت ناراض ہوئے شان رسالت کا انکار کیا۔اور(معاذاللہ)کہنے لگا ” تبالک سائر الیوم الھذا جمعتنا۔” (یعنی تو برباد ہو جائے کیا ہم کو اسی بات کے لئے جمع کیا تھا)
تیسرا دور: اعلان نبوت کے چوتھے سال سورۃ حجر کی آیت: “فاصدع بِما توٗمر واعرِض عنِ المشرِکِین ” نازل فرمائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا کہ اس دعوت حق کو علی الاعلان بیان فرمائیے جب آپ اعلانیہ طور پردین مبین کی دعوت وتبلیغ حق بیان فرمانے لگے۔ شرک وبت پرستی کی کھلم کھلا برائی فرمائی تمام قریش، اہل مکہ تمام کفار مشرکین آپ کی مخالفت میں جمع ہو گئے اور ایذاء رسانیوں کا ایک طولانی سلسلہ شروع ہو گیا۔

فرزندان توحیدپرظلم وستم

کفار مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اورلڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی ہمت تو نہ کر سکے مگر طرح طرح کی تکالیف اور ایذا ء رسانیوں سے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ ہرکوچہ بازار میں پروپیگنڈا شروع کردیا کفار و مشرکین نے آپ پر اور اسلام قبول کرنے والے مسلمانو ں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے کفار ومشرکین اس بات پر مصر تھے کہ مسلمانوں کو اتنا تنگ کرو کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و کفر میں مبتلا ہو جائیں اس لئے قتل کرنے کے بجائے ہر طرح کے ظلم وستم اور ایذا رسانیوں اور جاں سوز عذابوں کے ساتھ ستاتے تھے مگر بخدا!محبوب خدا نے انہیں شراب توحید کے وہ جام پلا رکھے تھے کہ ان فرزندان توحید نے استقلال، استقامت کا وہ منظر پیش کردیا کہ پہاڑوں کی چوٹیا ں سر اٹھا کر حیرت سے ان بلا کشان اسلام کے جذبہ، قوت ایمانی کے ساتھ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں بے رحم، سنگدل، درندہ صفت کافروں نے ان غریب، بے کس مسلمانوں پر جبرو کراہ ظلم وستم کا کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا مگر ایک بھی مسلمان کے پائے استقلال میں تزلزل نہیں آیا۔

ان کے قدم پر ہیں نثار جن کے قدوم ناز نے
اجڑے ہوئے دیار کو رشک چمن بنادیا

شعب ابی طالب میں محاصرہ: اعلان نبوت کے ساتویں سال کفار مکہ نے جب دیکھا کہ اسلام روز بروز پھیلتا جارہا ہے تو غیض و غضب میں آپے سے باہر ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے ساتھ مکمل سوشل بائیکاٹ کردیا گیا اور قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان اورچچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال محصور رہے۔ تین سال کا زمانہ اتنا سخت اور کٹھن تھا کہ سنگدل اور ظالم کفار نے ہر طرف پہرہ بٹھا دیا تھا کہ کہیں سے بھی گھاٹی کے اندر کھانے پینے کا سامان جانے نہ پائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورخاندان بنو ہاشم ان ہوش ربا مصائب کو جھیلتے رہے معاہدہ کی دستاویز ات کو دیمک نے کھالیا۔ ابو طالب نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ میرا بھتیجا کہتا ہے۔ معاہدہ کی دستاویزات کو دیمک کھا گئیہے جہاں خدا کا نام لکھا ہوا تھا وہ حصہ بچ گیا ہے۔ یہ سن کر معطم بن عدی کعبہ کے اندر گیا اور دستا ویز اتار لایا واقعی بجز اللہ کے نام کے ساری دستاویز کیڑوں نے کھالی تھی اس کے بعد یہ محاصرہ ختم ہوا منصور بن عکرمہ جس نے یہ دستاویز لکھ تھی اس پر قہر الہی ٹوٹ پڑا اس کا ہاتھ شل ہوکر ناکارہ ہو گیا۔

عام الحزن یعنی غم کاسال

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب اسی سال جب شعب ابی طالب سے نکل کر گھر آئے توان کا شدید علالت کے بعدانتقال ہوگیا۔ان کی وفات کے بعد آپ بہت مغموم رہنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غم گسار زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی بھی وفات ہوگئی۔ ابھی ابو طالب کے انتقال کا زخم تازہ تھا مکہ میں ابو طالب کے بعد جس ہستی نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور حمایت میں تن من دھن سب کچھ لٹادیا وہ حضرت خدیجہ تھیں جس وقت دنیا میں آپ کا کوئی مخلص و غمخوار نہیں تھا یہ دونوں ہستیاں آپ کے ساتھ جانثار اور مدد گار رہیں۔ اب دونوں اس دنیا میں نہ رہے آپ کے قلب مبارک پر اتنا صدمہ گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کا نام عام الحزن رکھ دیا۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے ایک نہ سنی بلکہ الٹا ایذائیں پہنچائیں اس لئے یہ سال عام الحزن (غم کا سال)کہلاتا ہے

بہا طائف کی گلیوں میں لہو فخردوعالم کا
سنایا آپ نے پتھروں کی بارش میں بھی قرآں ہے

نبوت کے گیارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی۔ پنج گانہ نماز فرض ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی چنانچہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے 6 آدمی مسلمان ہوئے۔نبوت کے بارہویں سال اوس و خزرج کے 12 افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ اولی کہلاتی ہے۔تیرہویں سال مدینہ کے 70 مردوں اور 20 عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔

ہجرت مدینہ منورہ اور خطبہ حجۃ الوداع

شہر مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا۔ قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے دار الندو ہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اللہ تعالی نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے بااطمینان نکلے اورحضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں 3 دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے۔
یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ قبا میں 14 دن قیام رہا وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب انصارِی رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔ مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ آگئے تھے اس پر بھی کفار مکہ راضی نہ ہوئے۔ مدینہ میں بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔ اہل مدینہ کے بھی جان کے دشمن ہو گئے اب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ لوگو ں کو اسلام کی دعوت دیجئے اور کفار و مشرکین کی ایذاؤں پر صبر و تحمل، برداشت کا حکم تھا اسی لئے مسلمانوں پر کفار نے بڑے بڑے پہاڑ توڑ دئیے مگر مسلمانوں نے کبھی اپنے دفاع میں ہتھیار نہیں اٹھایا لیکن ہجرت کے بعدجب کفار و مشرکین مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان کا جینا دوبھر کردیا اب رب ذولجلا ل نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی ابتدا ء کریں تم بھی ان سے لڑسکتے ہو۔
ہجرت مدینہ سے نظام عالم کے ایک دور کاخاتمہ ہوااور دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ دنیائے انسانیت کو نظام عالم کے نئے دور کے آغاز پر خطبہ حج الوداع کے ذریعے بالخصوص اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے بالعموم نیا عالمی نظام نبی آخرالزمان نے عطا کیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ ولیہ وسلم نے پچھلے نظام اور اس کے جاہلانہ امور کو منسوخ کرنے کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
خبردار؛ جاہلیت کا سارا (ظالمانہ اور استحصالی)نظام میں نے اپنے پاؤں سے روند ڈالا ہے اور آج سے نظام جاہلیت کے سارے خون (قصاص، دیت اور انتقام)کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں اور آج سے نظام جاہلیت کے سارے سودی لین دین بھی ختم کیے جاتے ہیں۔
ان دو اعلانات کے بعد اس امر میں کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ خطبہ حجۃ الوداع فی الحقیقت ایک نئے نظام کا اعلان تھا۔
نبی پاک صلی اللہ ولیہ سلم ر کے فرامین سے یہ امر واضح ہے کہ اسلام دین امن، محبت اور رحمت ہے۔ آپ نے حجۃالوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا:: اللہ تعالی نے تم پر تمہارے خون؛ تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں حرام کر دی ہیں اور ان چیزوں کو ایسی عزت بخشی ہے جو عزت تمہارے اس شہر میں اس مہینہ اس دن کو حاصل ہے۔
کیا میں نے پیغام حق پہنچا نہیں دیا؟ سبھی نے بیک زبان جوابا عرض کیا جی ہاں ضرور۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب حاضرین کو تلقین فرمائی۔ سنو جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں اس وقت موجود نہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی جو یہاں موجود نہیں تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور خطبہ حجمۃ الوداع ہمارے لیے مشعل راہ ہے ہمیں ہمیں چاہیے کہ ہم اسوہ نبی کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں علامہ اقبال مرحوم نے کیاہی خوب کہا

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسں وہی طہ

Short URL: https://tinyurl.com/2hftpell
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *