تعلیم و تربیت ۔۔۔۔ تحریر : سحر صدیقی ،لاہور

Print Friendly, PDF & Email

رب کریم نے نبی مکرم ﷺکی بعثت فرماتے ہوئے پہلی وحی جو نازل کی اس میں تعلیم کی اہمیت ،اس کے مقاصد ،اس کے حصول کے ذرائع کو شاندار انداز میں بیان کردیا، پڑھ اپنے رب کے نام سے جو پیداکرنے والا ہے،پیداکیا انسان کو جمے ہوئے خون سے ،پڑھ عزت والے رب کے نام سے ،وہ جس نے تعلیم سیکھائی قلم کے ذریعہ سے ،انسان کو وہ تعلیم دی جس کو وہ نہیں جانتاتھا۔سورہ علق کی ان پانچ آیات میں تعلیم اور اس کے مشتقات اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھلے انداز میں بیان کردیا گیا۔ امت محمدیہ کا رشتہ علم کے ساتھ ایسا وابستہ کردیا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی چھوٹ نہیں سکتا ، اللہ نے انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات پر جو فضیلت دی اس کا بنیادی سبب بھی علم سے واقفیت کی وجہ سے ہی ہے۔
فرشتے جو کہ نورانی اور معاصیات سے پاک مخلوق ہے ) انسان(باوجود اس بات کے کہ رب ذوالجلال کے علم میں تھا کہ انسان دنیا میں انتشار و فسادات کو بپاکرنے کے ساتھ گناہوں کا مرتکب ہوگا) کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا ۔سورہ البقرہ میں اس مکالمہ کا ذکر موجود ہے جو اللہ تعالی اور فرشتوں کے مابین ہوا ۔اللہ رب العزت نے جب فرشتوں کا امتحان لیا وہ عاجز ہوگئے اور حضرت آدم علیہ السلام کامیاب ٹھہرے ،بالآخر فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا۔یہ فضیلت و منزلت علم ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی کہ انسان مسجود ملائک بنا۔
اللہ نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ علم وہی ہے جس میں رب کائنات کی رضا کا حصول مضمر ہو ،دنیا کا کوئی علم فی نفسہ مضر یا نقصان دہ نہیں ہے ہاں جب اس کی ٹہنی کو غیر اللہ کی جانب سے حرکت دی جائے گی اور اس کو حاصل کرنے کا مقصد دنیا میں خود کواونچا سمجھنے کی کوشش کی جائے گی ،ظلم و ستم کا راستہ اختیار کرکے کمزور و ناتواں لوگوں پر مصائب ڈھائے جائیں گے ،یا علم کو حاصل کرنے کے بعد انسانیت کے حقوق کو غصب کیا جائے گا،یا علم کے آجانے کے بعد مادر پدر آزادی کی لہر کو فروغ دیاجائے گا،یا پھر اسلامی تعلیمات اور اس کے تہذیب و ثقافت کو کمتر جانتے ہوئے غیراللہ کی اندھی تقلید کی جائے گی تو ایسے میں لازم ہوگا کہ یہ علم فائدہ دینے کی بجائے انسانیت کو ہلاکت کی تہوں میں داخل کرنے کا موجب ہوگا ۔جیساکہ عصر حاضر کا مشاہدہ بتاتاہے کہ انسان نے خود ہی اپنی ہلاکت کا سامان تیار کرلیا ہے۔
پہلی و دوسری جنگیں اس بات کی شہادت ہیں اور اسی طرح ایٹمی مواد کے تیار ہوجانے کے بعد دنیا کا ہر گوشہ غیر محفوظ ہوچکا ہے۔اسی وجہ سے سورہ علق کی پہلی دوآیات میں علم کے حصول اور رب عظیم کے ساتھ رشتہ و تعلق کی اہمیت بھی انسان کو بتادی گئی ہے کہ انسان کو متکبر و گھمنڈ کارویہ اختیار کرنے کی چنداں حاجت نہیں کیوں کہ انسان کی اصل پانی کے ایک گندے قطرے کے بعد خون کے لوتھڑے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تاوقتیکہ وہ اپنی بعثت و تخلیق کے مقصد پر اپنی زندگی بسر کرنا شروع نہ کردے ۔
قرآن میں بیان ہواہے کہ ہم نے انسان کو پیدا ہی اپنی عبادت کی خاطرکیا ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی حصول علم کی اہمیت اور اس کے مقصد و مطلب کو واضح کیا گیا ہے۔علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے ’’میں معلم بناکر بھیجا گیاہوں ‘‘’’اوراے اللہ علم نافع عطافرما ‘‘جیسی بے شمار احادیث نبوی اور دعائیں موجود ہیں جو علم کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں ۔
تیسری آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ پڑھنے کے بعد واجب ہے کہ ہم انسانیت کے ساتھ نرمی ،محبت کے رویہ کواختیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی و ہمدردی اور نیکی کا تعلق استوار کریں۔کیوں کہ جو علم انسان کو دیا گیا ہے یہ علم کریم و عزت والے رب کی جانب سے ملا ہے ۔اس علم کو انسانیت کی خدمت اور ان کی دست گیری کا ذریعہ بناناچاہیے نہ کہ اس کے بعد انسان مارے غرور کے حیوانیت کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے چاہے اس کے سبب دوسروں کے گھر ویران و تاریک ہوں۔گویا کہ اللہ رب العزت انسان کاتزکیہ فرمارہے ہیں کہ علم کے حصول کے بعد مادہ پرستی کا دامن نہ تھام لینا اور اس کے ساتھ سرکشی و بڑائی کو اپنا شعار نہ بنالینا کیوں کہ اسی کے سبب شیطان کو تاقیامت مردود اور جن و انس اور کائنات کی تمام مخلوقات کی لعنت کا مستحق بنادیا گیا۔
چوتھی اور پانچویں آیت میں اول تو علم کے حاصل ہونے کے اہم ترین ذریعہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ آگے واضح الفاظ میں اللہ نے انسان کی استعداد و صلاحیت کی بنیاد کو بیان کردیا کہ جوکچھ تم جانتے ہو وہ ہم نے تم کو بتایا اور سکھلایا ہے وگرنہ تم تو جانتے ہی نہ تھے ۔اس بات کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کو اپنا سینہ اس بات پر چوڑا کرنا چاہیے جو اس کی اپنی تخلیق ہو اور وہ چیز کسی اور کے پاس موجود نہ ہو اور اس نے یہ کسی کی مدد و نصرت کے بغیر حاصل کی ہو ، تو لہذا انسان کو عاجزی کا راستہ اپناناچاہیے۔
اسلام وہ دین متین ہے جس نے نہ صرف علم کی اہمیت کو ببانگ دہل بیان کیا اور اس کے حصول پر زور دیا بلکہ اس کے حدود اربع کو بھی متعین کردیا کہ یہ حد فاصل ہے علم رحمانی اور علم شیطانی کے مابین جو علم رحمانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا وہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہوجائے گا وگرنہ ابدی لعنت اور ناکامی کا مستحق ٹھہرے گا۔
اللہ جل جلالہ نے قرآن میں حضور ﷺکی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ہم نے (امیین (ان پڑھ لوگوں میں سے رسول بناکر بھیجاجو انہیں میں سے ہیں ا ور وہ تلاوت کرتے ہیں آیات کی ،اور تزکیہ کرتے ہیں،تعلیم دیتے ہیں کتاب و حکمت کی ۔۔۔۔۔
اللہ نے نبی کریم کی چار صفات کا ذکر کیا ہے جن کی تعلیم دینا آپکے فریضہ میں شامل تھا۔1۔آیات کی تلاوت۔2۔تعلیم کتاب۔3۔ تعلیم حکمت و دانشمندی ۔4 ۔تزکیہ ۔علم کا رشتہ جب تک تزکیہ کے ساتھ استوار و قائم رہے گا اس علم کے ذریعہ انسان عروج کے اقبال تک پہنچے گا اور جب علم سے تزکیہ کے رشتہ کو کاٹ دیا جائے گا تو یہ علم ضلالت و گمراہی اور انسانیت کی کشتی کو ڈبودینے کا سبب بھی بن جائے گا اور اس کے ساتھ ہی اللہ کی ناراضگی ہمیشہ کا مقدر بن جائے گی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل کے تمام تعلیمی ادارے بالخصوص حکومتی و عصری تعلیمی اداروں کا رشتہ تزکیہ سے کٹا ہوا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ طالب علم استاذ پر دست درازی ، والدین ،اساتذہ ،بڑوں ،دوستوں اور رشتہ داروں کی عزت و تکریم سے تہی دامن ہوچکا ہے ۔اور اس کابدیہی ومشاہداتی نتیجہ ہے کہ معاشرہ عدم اطمینان کی کیفیت سے دوچار ہے اور کرپشن،لوٹ مار ،چوربازاری،دھوکہ دہی و بددیانتی کا رواج عام جاری و ساری ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ علمی چوری ،مالی خیانت کو عزت و منزلت کے حصول کے لئے گھنونے جرم کو بھی کر گزرنے میں کوئی حجاب نہیں کرتے ۔آئے روز اخبارات و ٹی وی چینلز پر خبریں چلتی ہیں مگر ایک اہم نقطہ کو ہمیشہ نظروں سے اوجھل رکھاجاتاہے کہ اس حدتک پہنچانے کا ذریعہ کون سی چیزیں بن رہی ہیں ہے شاید کبھی کسی نے اس پر غور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
تعلیم وہ مطلوب ہے جو تزکیہ و تربیت کے ساتھ مربوط ہو اور استاذ کا وہ منصب ہے کہ جس پر فائز ہونے والے کی ابدی کامیابی کا انحصار اور معاشرے کی ترقی و فلاح کا منبع تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں ۔اگر ان کی خط مستقیم پر رہنمائی و نگہبانی نہیں کی گئی تو مسلم معاشرہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوجائے گاجس کا آغاز بڑی سرعت کے ساتھ پروان چڑھ رہاہے اس کے سامنے بندھ باندھنے کا واحد ذریعہ تعلیم ہے اوروہ تعلیم جس کا تعلق و رشتہ تزکیہ و تربیت کے ساتھ اٹوٹ ہو۔

Short URL: http://tinyurl.com/hpahfjs
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *