ڈاکٹر، نرسز، میڈیکل سٹاف مسیحا بنیں

Sara Ali Syed Advocate
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ایڈووکیٹ سارہ علی سید
(فوکل پرسن و ایڈوائزر سائوتھ پنجاب خواتین ونگ تحریک انصاف )

پاکستان میں 90 فیصد سے زائد ڈاکٹرز کمیشن کی دوائی لکھتے ہیں اور اس کے بدلے کمپنی مالکان اُن کو رقم، کار، اے سی یا دیگر سہولتیں فراہم کرنے کیساتھ ساتھ بیرون ملک کے ٹوورز پر لے جاتے ہیں جہاں ان کے لئے ہر عیاشی میسر ہوتی ہے اور ڈاکٹر دوائی کی اچھائی یا برائی دیکھے بغیر خوب سیل کرتے ہیں جو کہ انسانی زندگی کے ساتھ کھیل ہے۔ حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ ایسے قصائی ڈاکٹروں کے خلاف سخت ایکشن لے اور ڈاکٹرز سے التماس ہے کہ زندگی ختم ہو جانے والی چیز ہے جو لوگ آپ کے ہاتھوں میں دم توڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے بھی کسی دن موت کے منہ میں جانا ہوتا ہے۔ تمام مراعات، دھن، دولت سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے انسان اپنے ساتھ صرف اور صرف عمال لے جاتا ہے۔ جو دھن دولت دونمبریوں سے کمایا جاتا ہے اس کے نتائج کبھی درست ثابت نہیں ہوتے کہ زمین پر نہیں تو اوپر عرش پر تو ایک انصاف کرنے والا بیٹھا ہے۔ دنیا کی پکڑ سے تو انسان بچ نکلتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ پاتا۔ میں واضح کر دوں کہ میرا لکھنے کا مقصد نہ تو ڈاکٹرز کی توہین کرنا ہے اور نہ ان کے پول کھولنا ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز اور میڈیکل سٹاف کی بے حسی شاید کہ کم ہو جائے اور مہنگائی کے بعد بچ جانے والی انسانیت جو ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے کو بچایا جا سکے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے اور جس مخلوق نے اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی پیار سے بنایا ہے اس کی جان ڈاکٹروں کی غفلت سے چلی جائے تو کیا وہ رب ان کی پکڑ نہ کرے گا؟
آزادی پاکستان سے لیکر اب تک پاکستان میں بہت سی حکومتیں آئیں اور محکمہ صحت پر بھاری بجٹ خرچ کیا لیکن کسی حکومت نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ عوام کے ٹیکسوں سے بھاری بجٹ جو ہم محکمہ صحت کیلئے دے رہے ہیں اس کا استعمال بھی درست ہو رہا ہے کہ نہیں؟ عوامی ٹیکسز سے بنائے جانیوالے بجٹ سے سرکاری ہسپتالوں میں دوائیاں، انجکشن و دیگر اشیاء بھی فری مہیا کی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دوائیاں، انجکشن و دیگر طبی اشیاء کہاں جاتی ہیں؟ عوام کو تو نہیں ملتیں تو آخر جاتی کہاں ہیں؟ ڈاکٹر مسیحا بنیں، انسانیت کی خدمت کریں۔ ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں میں دشمن اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر سجن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹرز، نرسز و دیگر سٹاف کی بے حسی نا قابل برداشت و قابل مذمت ہے۔ ڈاکٹرز اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ یہ ڈاکٹر بھی اللہ کی مدد سے بنیں ہیں اور ان کی لکھی ہوئی دوائیوں سے بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے مریض صحت یاب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک لمحے کا حساب لینا ہے۔ مہنگائی کا طوفان ہے لوگ دو وقت کی روٹی کی وجہ سے پریشان ہیں پرائیویٹ ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں کہاں سے بھریں۔ فیسوں کے نہ بھر پانے کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹرز کو جو ہنر دیا ہے اس ہنر کی پوچھ پریت نہ ہو گی؟ اللہ تعالیٰ نے پوچھنا ہے کہ تم نے اپنے ہنر سے میرے کتنے پیاروں کو نوازا؟
گزشتہ روز میری معصوم بیٹی بخار میں تپ رہی تھی۔ پریشانی کے عالم میں نشتر ہسپتال ملتان میں گئی تو دیکھا کہ نشتر ہسپتال ملتان میں بچوں کے ایمرجنسی 19 نمبر وارڈ میں بچوں کا ٹمپریچر چیک کرنے کیلئے صرف ایک تھرما میٹر ہے وہ بھی خراب ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز معصوم مریض بچوں کیساتھ قصائیوں والا سلوک کرتے ہیں جبکہ یہی ڈاکٹرز جو سرکاری ہسپتالوں میں عوامی ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں بٹور رہے ہیں اپنے پرائیویٹ کلینکوں میں مریضوں کو لانے کا مشورہ دیتے ہیں ان کے کلینکوں میں جائیں تو یہی قصائی ڈاکٹرز، مسیحا بن جاتے ہیں۔ جن کے منہ سے سرکاری ہسپتالوں میں بے حسی و توہین آمیز کلمات نکلتے ہیں اپنے کلینکوں میں ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز بیٹی کے بیمار ہونے پر نشتر ہسپتال ملتان بچوں کے ایمرجنسی 19 نمبر وارڈ میں گئی جہاں کثیر التعداد مریضوں کا بخار چیک کرنے کیلئے ایک ہی تھرما میٹر تھا۔ میں گھر سے اپنی بیٹی کا ٹمپریچر چیک کرکے نکلی تو بخار 103پر تھا۔ ہسپتال کے اکلوتے تھرما میٹر سے بخار چیک کرنے پر 99 ٹمپریچر سامنے آیا جو کہ غلط تھا۔ میرے بات کرنے پر مجھ سے ڈاکٹرز اور نرسز سٹاف نے تلخ کلامی کی۔ اردگرد کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ نشتر ہسپتال ملتان میں بچوں کا ایمرجنسی 19 نمبر وارڈ کا عملہ بدتمیزی اور بد کلامی میں پورے نشتر میں مشہور ہے۔ نہ ڈاکٹرز اپنے پیشے سے مخلص ہیں اور نہ ہی نرسز و دیگر ہیلتھ سٹاف کو انسانیت کی کوئی پرواہ ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی لائن لگی ہوتی ہے، ڈاکٹرز، نرسز و دیگر سٹاف الیکٹرک ہیٹر کے آگے بیٹھ کر موبائل استعمال کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ کوئی کچھ کہہ دے تو اس کی بے عزتی کرتے ہیں۔ ہم بطور عوام پوچھتے ہیں کہ ہمارے ٹیکسز سے تنخواہیں لینے والے ڈاکٹرز، نرسز پر ہمارا کوئی حق نہیں؟ روزانہ ڈاکٹروں اور نرسز کی غفلت سے کتنی ہی جانیں قبل از موت لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ کیا ڈاکٹرز کو موت نہیں آتی، نرسز نے اللہ تعالیٰ کو منہ نہیں دکھانا؟ کیا انہوں نے آب حیات پی رکھا ہے جو مریضوں و لواحقین کو ذلیل و خوار کرتے ہیں؟ کیا بس یہ سرکاری ہسپتالوں میں اپنے پرائیویٹ کلینکوں کی مارکیٹنگ اور بھاری تنخواہیں بٹورنے کیلئے آتے ہیں؟ انسانیت کی خدمت کون کرے گا؟ مہنگائی کے اس طوفان میں غریب کہاں سے علاج کرائے؟ ڈاکٹرز، نرسز، میڈیکل سٹاف خدا کا خوف کریں اور مریضوں، لواحقین سے سرکاری ہسپتالوں میں بالکل ویسا برتائو کریں جیسا کہ اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر کرتے ہیں کہ آپ نے بھی اللہ کو منہ دکھانا ہے۔ مریض و لواحقین آپ کی عزت کرتے ہیں آپ بھی ان کو عزت کے بدلے میں عزت دیں نہ کہ بے عزت کریں۔ 

Short URL: https://tinyurl.com/2qqux3gt
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *