موسیقی اور ناچ گانا مسلمانوں کا کلچر نہیں

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: آکاش بلوچ


کچھ دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق وزیرِاعلیٰ سند ھ سید مراد علی شاہ نے سکولوں میں موسیقی اور ڈانس پر پابندی کے نوٹیفیکشن کے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کیا۔ کوئی سید مراد علی شاہ صاحب کو بتائے کہ شاہ جی آپ تو سید گھرانے کے چشم وچراغ ہیں آپ کو تو بہت اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ موسیقی اور ڈانس اسلام میں حرام ہے اور حضور پاک ﷺ نے سختی سے نا پسند کئے ہیں ۔ شاہ صاحب کے بیان سے تو نئی لگتا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک صوبے کو وزیرِ اعلیٰ ہیں بلکہ ایسا لگتا جیسے وہ کسی بھارتی ریاست کے وزیر ہیں۔
اس خبر نے سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ ہم کیسی تعلیم بچوں کو دے رہے اور کیسے دوسروں کے کلچر اور روایات کو اپنا کہہ رہے۔ناچ گانا باجے تاشے تو کفار کی روایات ہیں اور الحمداللہ ہم تو اللہ اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰیﷺ کے پیروکار ہیں اور ہمارا مذہب اسلام تو واضح طور پہ موسیقی اور ناچ حرام اور شیطانی کام کہتا ہے اور ایسے کام کرنے سے منع کرتا ہے۔ناچ گانا تو ہم مسلمانوں کا کلچر ہی نہیں یہ تو ہندووٗں کا کلچر ہے اور انہوں نے اس کا اپنے مذہب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔
سمجھ نہیں آتی کیسے ایک سمجھ دارانسان اور اسلامی جمہوریہ کے وزیرِ اعلیٰ اور ایسا انسان جو سادات خاندان سے تعلق رکھتا ہوموسیقی اور ناچ گانے کو آزادی اور ترقی کی علامت کہہ رہااور ایسی بے ہودگیوں کو پاکستان کا کلچر کہہ رہا۔شاہ صاحب ذرا بتائیں کب حضور پاک ﷺ نے موسیقی اور ناچ گانے کو پسند کیا؟حضورکریم کی 63سالہ حیات مبارکہ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی سوائے ہجرتِ مدینہ کے وقت جب مدینہ پاک کے لوگوں نے دف بجا کر حضور کریم ﷺ کو خوش آمدید کہا تھا۔ حضورپاکﷺ کوبانسری کی آواز سنتے ہیں کانوں مبارک میں انگلیاں ڈال لیتے تھے تاکہ یہ بے ہودہ آواز ان کے کانوں تک نہ پہنچے۔کچھ نادان اور ان بے ہودگیوں کو پسند کرنے والے تاویل دیتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی کا منع نہیں کیا گیا۔ارے نادانو! جب حضورپاک ﷺ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور حضور کریم نے ان بے ہودگیوں کو ناپسند فرمایا تو پھر ان تاویلات کی کیا ضرورت؟قرآن میں تو اور بھی کچھ معاملات کا ذکر نہی ملتالیکن حضورپاکﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے ہمیں بتایا کہ کون سے پسندیدہ عمل ہیں اور کون سے نا پسندیدہ عمل ہیں۔ اگر موسیقی اسلام میں جائز ہوتی تو حضور اکرمﷺ کی زندگی میں ہی کتنے ہیں خوشی مواقع اور تہوار آئے، کتنے ہیں غزوات اور جنگوں میں فتوحات ملیں ، تو کب کسی ایسے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ڈھول تاشے بجا کر خوشی منانے کا حکم دیا؟اور نہ ہی حضور پاکﷺ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین نے موسیقی کو جائز کہا۔ہم مسلمان تو جنگ کا آغاز بھی اللہ اکبر کے نعرے سے کرتے ہیں نہ کہ کفار کہ طرح ڈھول اور نقارے بجا کے۔تو پھر کیسے موسیقی اور ناچ گانے کو جائز قرار دیا جا سکتا اور کیسے پاکستان کے مستقبل اور معصوم ذہنوں میں یہ زہر انڈیلنے کی حکومتی سرپرستی میں اجازت دی جا سکتی اور پابندی کا نوٹیفیکشن جاری کرنے والے کے خلاف ایکشن لیا جا سکتا؟
پاکستان کے آئین کو اگر دیکھا جائے تو اس میں سب سے پہلا نقطہ یہ ہے کہااقتدارِاعلیٰ اللہ کی ذات ہے اور پاکستان میں جوبھی قانون ہوگا وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات مطابق ہوگاتو کیسے اس شیطانی کام کو مسلمان اپنا کلچر کہہ سکتے ہیں؟قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کی جدوجہد زمین کا ایک ٹکڑا لینے کے لئے نہیں کی بلکہ ایک ایسا ملک یا خطہ لیا جائے جس میں ہم مسلمان اسلام کے سنہرے اصولوں کے مطابق قرآن و سنت پہ عمل کرتے ہوئے سکون سے زندگی گزار سکی۔ ایک اور جگہ پہ قائد کہتے ہیں کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والامَیں کون ہوتا ہوں؟ مسلمانوں کا طرز حکومت تو آج سے 1300سال قبل وضاحت سے قرآن کریم نے بیان کر دیا۔الحمداللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک رہے گا(آل انڈیا مسلم فیڈریشن 15نومبر 1942)۔
دُکھ تو اس بات کا ہے کہ پاکستان مین بڑے بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے نصاب میں سے اسلامیات کو ختم کیا جا رہا ہے موسیقی اور ناچ گانے کو لازمی مضمون کے طورپہ سکھایا جارہاہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ مرادعلی شاہ صاحب جیسے لوگوں کی شاباشی میں مزید ایسے بے ہودہ مضمون پڑھائے جا رہے۔اب ہم لوگ برائی کو برائی سمجھتے ہی نہیں بلکہ برائی کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ایسے بے ہودہ کام کرکے خود کو ترقی یافتہ اور ترقی پسندکہتے ہیں اور اگر کوئی انسان ایسے کاموں سے منع کرے اس کو تنگ نظر، دقیانوس، شدت پسند، طالبان اور اسلامسٹ کانام دے دیتے ہیں۔مسلمان ہونے کے ناطے تو ہمیں اسلامسٹ پہ فخر ہونا چاہئے۔
ایک دور تھا جب والدین اپنے بچوں کو قرآنی سورتیں اور آیات، نمازکا طریقہ اور دعائیں سکھایا کرتے تھے پھر دوستوں رشتہ داروں کے سامنے فخر سے بچے سے یہ سب سنا کرتے تھے اور اب والدین فخر سے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ میرے بچے کو فلاں فلاں گانا بھی آتا ہے اور اس پہ اچھا ڈانس بھی کر لیتا ہے۔سوچ کی تبدیلی میں اس مدر پدر آداز میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جو مختلف ملکوں کے کلچر اور مذاہب کی تقریبات کو سارا سارا دن نشر کرکے لوگوں کے ذہن خراب کر رہا ہے ناچ گانے کے پروگرامز کو دیکھ کے بچے موسیقی اور ناچ گانے کو جائز سمجھنے لگے ہیں۔یہ میڈیا بچوں کے کچے ذہنوں کو موسیقی اور ناچ گانے جیسے زہر سے آلودہ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم بڑے عمر کے لوگ جو مذہب سے دوری کی وجہ سے اس برائی کو برائی ہی نہیں سمجھتے۔
شاہ صاحب سے گذارش ہے کہ اپنے اس بیان پہ غور کریں کیونکہ مسلمان ہونے کے ناتے ناچ گانا اور موسیقی ہمارا کلچر نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے ترقی کا زینہ ہے۔ بھلے ہی ہم برصغیر کے باشندے ہیں جس میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، مسلمان ہونے سے پہلے ہمارے آباوٗ اجداد جو کچھ بھی تھے پر جیسے ہی ہم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہمارا کلچرخود بخود اسلامی ہوجاتا ہے جس میں ان خرافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اگر کسی انسان نے انفرادی طور پہ ان خرافات کو اپنایا ہوا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے لیکن شاہ صاحب آپ تو سکولوں میں ایسی خرافات کو فروغ دے کر مذہب سے روگردانی کر رہے ہیں اور گناہ جاریہ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں موسیقی جیسی بے ہودگیوں کا زہر انڈیلنے کا سبب بن رہے ہیں اور کچھ عرصہ بعد ہماری یہ نسلیں ان خرافات کو مذہب کا حصہ ماننے لگیں گی۔ خدا را ایسی خرافات کو تعلیمی اداروں اور پاکستان کے معاشرے سے ختم کرنے میں کردار ادا کریں نہ کہ ان کے فروغ میں۔ اللہ پاک ہم سب کو قرآن و سنت پہ عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرے ۔امین

Short URL: Generating...
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *