کلچر کلیش ، مردانگی اور پاکستانی سنیما کی نئی ہِٹ

Print Friendly, PDF & Email

اب تک یہ سال پاکستانی سنیما انڈسٹری کے لیے بھلائے جانے کے قابل رہا ہے۔ پچھلے سال جب سے سنیما مالکان نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مار کر (تھوڑے عرصے تک) انڈین فلموں پر پابندی عائد کی تھی، سنیما کا رُخ کرنے والے فلم بینوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کم رہ گئی ہے۔
اس کے باوجود کہ اب انڈین فلمیں دوبارہ پاکستانی سنیماؤں کی زینت بن رہی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا اثر پاکستانی فلموں پر پڑا ہے۔ کچھ فلموں کی تکمیل میں تاخیر ہو گئی اور کچھ بڑی فلموں نے توقع سے کم بزنس کیا۔ لیکن اس عید پر شاید یہ سب کچھ بدل جائے۔ کیونکہ دو بڑی پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ دونوں باکس آفس پر اچھا خاصا کمائیں گی۔
اِن دو فلموں میں سے ایک ہمایوں سعید کی پروڈکشن “پنجاب نہیں جاؤں گی” ہے، جس سے سب کو بہت توقعات وابستہ ہیں کیونکہ یہ اُسی ٹیم کی پیشکش ہے جس نے “جوانی پھر نہیں آنی” بنائی تھی۔ یاد رہے کہ “جوانی پھر نہیں آنی” پاکستانی فلمی تاریخ کی کامیاب ترین فلم ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ “پنجاب نہیں جاؤں گی” ہر اعتبار سے “جوانی” سے بہتر فلم ہے۔ “پنجاب” کی کہانی مضبوط، اس کی عکاسی عمدہ، اس کے اداکاروں کی پرفارمنس قابلِ ستائش، اور اس کے گانے اور ڈائیلاگ اچھے ہیں۔ تکنیکی طور پر (خاص طور پر ساؤنڈ پر) اس فلم پر جو محنت کی گئی ہے وہ صاف ظاہر ہے۔ اس کا سہرا فلم کے ہدایتکار ندیم بیگ کے سر جانا چاہیے جنھوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ اب “جوانی” سے بہت آگے بڑھ چُکے ہیں۔
‘پنجاب نہیں جاؤں گی’ کی کہانی دو کرداروں کے گِرد گھومتی ہے۔ایک ہیں فواد کھگا (ہمایوں سعید)، فیصل آباد کے ایک امیر زمیندار کے لاڈلے اور قدرے نالائق پوتے (جس نے ایم۔اے پولیٹکل سائنس کی ڈگری دس سال لگا کر حاصل کی)۔ لیکن جو بڑھکیں مارنے میں آگے آگے ہیں۔ اُن کو بھی پتہ ہے کہ گاؤں میں اُن کی بات کو جھُٹلانے والا کوئی نہیں ہے۔ آخر اور کچھ نہیں تو لوگ اُن کی چودھراہٹ کا لحاظ کر لیتے ہیں۔ دوسرا کردار ہے امل (مہوش حیات) کا جو برطانیہ سے ایم-اے اکنامِکس کی ڈگری لے کر واپس کراچی آئی ہیں۔ امل ایک روشن خیال، ‘ماڈرن’ خاتون ہیں۔
امل اور فواد کے خاندانوں میں رشتےداری ہے اور مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب فواد امل کی تصویر دیکھ کر اسے پسند کر لیتا ہے۔ لیکن امل اپنے کالج کے دوست کو پسند کرتی ہے اور فواد کے رشتے سے انکار کردیتی ہے۔ اس کے خیال میں اس کے اور فواد کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں ہے اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے۔
لیکن 70 مربعے اور 12000 بھینسوں کے مالک فواد کو یہ بات کون سمجھائے؟ وہ امل کو ‘جیتنے’ نکلتا ہے اور باقی کہانی اس کی کوششوں اور اس کے آگے کی روُداد پر مبنی ہے۔
فواد اُن مردوں کی طرح ہے جو عورتوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اُن کو کنٹرول کرنا اُن کا حق ہے۔ ظاہر ہے امل اِن خیالات کو زیادہ برداشت نہیں کر سکتی۔
یہ کہانی ایک عمومی سی رونے دھونے کی کہانی بن سکتی تھی، لیکن “پنجاب نہیں جاؤں گی” کی طاقت اس میں ہے کہ وہ اس سارے قِصّے میں مزاح کا پہلو ڈھونڈ لیتی ہے اور اس ‘کلچر کلیش’ میں اپنا ہاتھ ہوَلا اور متوازن رکھتی ہے۔ مثلاً، فواد کے دادا، مہتاب کھگا (سہیل احمد) ایک مثالی وڈیرے بھی نہیں ہیں اور اپنی کمزوریوں کے باوجود تنگ نظری سے بہت دور ہیں۔
فلم کی دوسری طاقت یہ ہے کہ اس میں تقریباً سب ہی کردار بہت ہی بھرپور طریقے سے لکھے گئے ہیں۔ پہلے پندرہ منٹ کے اندر دیکھنے والوں کو اُن کے آپس کا تعلق بخوبی سمجھ میں آچُکا ہوتا ہے۔ یہ یقیناً لکھاری خلیل الرحمان قمر کی مہارت کا نتیجہ ہے۔
ہمایوں سعید نے اپنی فلمی زندگی کا سب سے انوکھا اور مزیدار رول نبھایا ہے، اور کیا خوب نبھایا ہے۔ فواد کی انگریزی کے لب و لہجے سے لے کر اُس کی مردانگی کا مذاق اُڑانا، شاید ہی کوئی اور ‘ہیرو’ اداکار ایسا کردار کرنے کو تیار ہوتا۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو فواد کا درد بھی محسوس ہوتا ہے، وہ درد جو سوسائٹی کی توقعات میں پھنسا اور ایک بدلتی ہوئی دنیا سے کنفیوزڈ مرد کی سائیکی کا حصّہ ہوتا ہے۔
مہوش حیات بھی اپنے کردار پر ٹھیک بیٹھتی ہیں اور اچھا پرفارم کرتی ہیں، حالانکہ اُن کے کردار کے لکھنے میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں۔ باقی اداکاروں میں صبا پرویز (فواد کی ماں)، نوید شہزاد (امل کی دادی) اور سہیل احمد خاص طور پر نمایاں ہیں لیکن شاید عروہ حسین، جو کہ فواد کی ایک ایسی کزن کا رول کرتی ہیں جو فواد سے خود شادی کی خواہشمند ہے، ان سب پر بازی لے جاتی ہیں۔
عروہ کا کردار دردانہ آپ کو عرصے یاد رہے گا اور اس سے منسلک ڈائلاگ کی ایک لائن ضرور آئندہ تکیہ کلام بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر مجھے اس فلم سے کوئی شکایت ہے تو وہ یہ کہ اِس میں دو جگہ امل کا کردار اپنا ذہن تبدیل کرتا ہے لیکن اِن اہم تبدیلیوں کی وجہ واضح نہیں ہے۔ اِن میں سے ایک کا تعلق اس فلم کے واحد کمزور کیریکٹر سے ہے۔ واسع (اظفر رحمٰن) وہ لڑکا ہے جو امل کے ساتھ لندن میں پڑھتا تھا اور جس کو وہ پسند کرتی ہے لیکن اس کا کردار بہت ہی یک رُخا لکھا گیا ہے۔ شاید اگر یہ کردار اُتنا ہی تگڑا لکھا جاتا جتنا کہ باقی کردار لکھے گئے ہیں تو کہانی میں کم از کم یہ جھول نہ ہوتا۔
میری دوسری شکایت یہ ہے کہ سیاسی طور سے یہ فلم تھوڑی ڈنڈی مار جاتی ہے۔ فواد کے کردار میں تبدیلی ضرور آتی ہے لیکن اس کا اثر اس کی دولت اور رتبے پر کبھی نہیں پڑتا۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہانی اس بات کو نظرانداز کرتی ہے کہ کلاس، دولت، رتبہ اور مردانگی کا آپس میں ایک بہت گہرا رشتہ ہے۔ (ویسے ‘مہرالنساء وی لب یُو’ کے بعد یہ اس سال کی دوسری پاکستانی فلم ہے جس میں مرکزی کرداروں کا آپس میں جنسی رشتہ نہ ہونا ایک ایشُو بن جاتا ہے۔شاید پاکستانی فلمساز ہمیں کچھ بتانا چاہ رہے ہیں۔)
بہرکیف، ‘پنجاب نہیں جاؤں گی’ تکنیکی اور ڈرامائی اعتبار سے پاکستان کی بہترین ‘کمرشل’ فلموں میں سے ایک ہے اور فلم بین اس کو یقیناً پسند کریں گے۔
سلیمان رزاق کی عکاسی اور شیراز اُپل، شانی ارشد، فرحان سعید اور ساحر علی بگا کے گانے فلم کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
یہ فلم پاکستان سے باہر بھی بڑے پیمانے پر ریلیز ہو رہی ہے (بلکہ کسی بھی پاکستانی فلم کی سب سے بڑی انٹرنیشنل ریلیز ہوگی) اور مجھے یہ یقین ہے کہ ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی پنجاب جا پائیں یا نہ جا پائیں، اس فلم کو خوشی خوشی دیکھنے بار بار جائیں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yd7oxkvg
QR Code: