چورنہیں تو شور کیسا ۔۔۔۔ تحریر :ملک ارشد جعفری

Malik Arshad Jaffri
Print Friendly, PDF & Email

کئی دنوں سے پانامہ لیکس کی ہر روز نئی بحث سن سن کر لوگ تنگ آگئے کہ حکمران چو رہیں یااپوزیشن میں خرابی ہے کیونکہ وزیر اعظم کے خاندان نے تو خودآف شور کمپنیوں کو تسلیم کرلیا کہ یہ ہماری ملکیت ہیں لیکن چند غلطیوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کوہی جھوٹا ثابت کرلیا۔ ہر کسی کے بیان مختلف ہیں اور ملکی وزیر داخلہ نے تو حد کر دی انہیں بچپن ہی سے اس جائیداد کا مالک بنا دیا! عوام کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ صرف یہ حق ملک کے ہر فر د کا ہے کہ اتنی دولت کدھر سے آئی اور کس طرح بیرون ملک گئی ؟کیا اس پر قانونی ٹیکس اداکیا گیا ؟آسان سی بات تھی لیکن وزیر اعظم صاحب نے 1956کا حوالہ دیکر پاکستان بننے سے لیکرآج تک کی تحقیقات کا جو اعلان کیا یہ عوام کو قبول نہیں کیونکہ آپ سر براہ مملکت ہیں اور نام آپ کے خاندان کا آیا۔ آپ کو چاہیے کہ آپ ایک آرڈینس جاری کروائیں اور حقائق عوام کے سامنے لائیں تاکہ روز روز کی چیخ و پکار سے جان چھوٹے اور ہر چینل پر رات مختلف حواری اپنی ذمہ دار تقاریریں بند کریں۔اپوزیشن میں سے جس جس نے ملکی دولت لوٹی یا کرپشن کی اسکو پکڑا جائے حکومت وقت کا کام ہے انکے خلاف نیب یا ایف آئی اے کو تحریری حکم نامہ جاری کریں تاکہ فوری کاروائی ہوسکے ۔سپریم کورٹ کو غلط خط میں نہ الجھائیں۔ جب کمیشن 1956کے ایکٹ کے تحت بنے گا تو اسکی تحقیقات وہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں فرانزک ایکپرٹ کی ضرورت ہے اگر وہ بھی آجائیں تو یہ کئی سال لگ سکتے ہیں ۔ لہذا اگر حکومت کے ہاتھ اگر صاف ہیں تو جو ٹی اوآرزاپوزیشن جماعتوں نے بنائے ہیں آپ ان پر عمل کر کے فور ی تحیقیقات کا حکم دیں اور اپوزیشن میں جو جو بھی کرپشن میں ملوث ہے وہ ملکی اداروں کے حوالے کریں۔ کسی کی نہ سنے چاہے عمران خان ہو یا اعتراز احسن سب کے خلاف کاروائی کریں۔ لیکن عوام یہ کہ رہی ہے کہ حکومت یہ نہیں کرسکتی کیونکہ میاں صاحب تو ملکی سربراہ ہیں یہ تو کھربوں کے مالک ہیں اٹک میں تو انکی پارٹی کے چھوٹے چھوٹے نمائندے جن کے گھر نہیں تھے چند سال پہلے آج ضلع کی کئی تحصیلوں میں محل اور کروڑوں کے مالک ہیں ۔اگر شک ہے تو نیب اٹک شہر CMHروڈ پر آکر ایک محل دیکھیں اور دوسری تحصیلوں میں بھی اگر نہ ملیں تو میں سب ثبوت دے دوں گا بلکہ جو کلرک تحصیلوں میں انہوں نے لگوائے انکی جائیدادوں کے ثبوت بھی ہم دیں گے کہ یہ پلازے اور کوٹھیاں کہاں سے آئیں۔ جتنی کرپشن میاں صاحب آپکی حکومت میں ہوئی اتنی زردار ی نے بھی نہیں کی ہوگی کیونکہ یہاں تو پانچویں سکیل کا ملازم بھی اعلیٰ اور قیمتی کاروں پر پھر رہا ہے اور کئی کوٹھیوں کا مالک ہے ۔احتساب کا نعرہ سن سن کر کان پک گئے 1958 ؁ٗ ؁ء سے لیکر آج تک یہ نعرہ چل رہا ہے لیکن نہ کوئی پکڑا گیا نہ کسی کو سزاہوئی ہے اسی وجہ سے منتخب نمائندے جو ووٹوں کی طاقت سے آئے ہیں انکی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات جب ملک خانہ جنگی اور کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کے شور میں ہوتو مجبواً پاک فوج کو آنا پڑتا ہے۔ لیکن احتساب پھر بھی نہیں ہوتا اور یہ شور شروع ہو جاتا ہے کہ سیاسی انتقام ہو رہا ہے جو ملزم پکڑا جائے تو جیل میں کچھ ماہ بیمار ہوجاتا ہے اور ملکی اسپتالوں کے ایک وارڈ کو گھر کا ماحول بنا اسکو رکھا جاتا ہے اور جب وہ باہر آتا ہے تو وہ نعرے لگا کر اپنے آپ کو اک بہادر اور دلیر آدمی سمجھتا ہے لیکن اب معاملہ کچھ اور طرف جا رہا ہے اور عوام کی اکثریت بھی یہ چاہتی ہے کہ احتساب اب ایسا ہو کہ صرف کرپشن میں ملوث اور ملک کو لوٹنے والے صرف شور نہ مچائے انکی جائیدادیں اور کرپشن میں لوٹی دولت کو جہاں بھی ہے واپس ملکی خزانہ میں واپس لائیں کرپٹ سیاستدانوں کو جیل میں ڈالیں تاکہ پتہ چلے کہ ملکی کارخانے یہ نہیں چلا سکتے اور اپنے ان کے ادارے جو ہیں ان میں یہ کھربوں پتی بن گے اب ملک کا بچہ بچہ اک آواز کررہا ہے کہ اب یہ ڈرامہ بند ہونا چاہیے جس جس نے ملکی خزانہ کی بجائے غیر قانونی طریقہ سے دولت باہر منتقل کی ہے اس کا حساب دیں اور ہر بجٹ میں اک قانون پاس کیا جائے کہ جن جن سیاستدانوں کے بچے یا خاندان کے قریبی وراثوں کے اثاثے باہر ہیں یا ملک میں انکو سامنے لایا جائے تو کسی کو یہ شور کرنے کا موقع نہیں ملے گا اب پانامہ کی وجہ سے ملک کا امن خراب ہوچکا ہے حکومت نے جسطرح پہلے اعلان کیا کہ ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں احتساب کے لیے اسطرح اب صدراتی آرڈیننس جاری کر کے اپنے آپ کو پیش کر یں اگر چور ہیں تو شور کیسا؟ اب عوام کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ایسا طوفان آنے والا ہے کہ کچھ نہیں بچے گا ۔فوج نے ہمیں ہٹا دیا ورنہ ہم تو سونے کے دانے عوام کے لیے تیار کر لیے تھے انکو دیتے اور ہر گھر میں بھوک ختم ہوجاتی اور خوشحالی ملک میں آتی اعلانوں اور نعروں سے عوا م اب پاگل نہیں بنے گے جلدی کرو ورنہ بجٹ کی مہلت نہیں ملے گی ۔

Short URL: http://tinyurl.com/gt69nb5
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *