اپنی سوچ کا معیار بدلو

Sajal Malik
Print Friendly, PDF & Email

سجل ملک، اسلام آباد

جب میں چھوٹی تھی اور سیاست کے بارے میں زیادہ کوئی علم و واقفیت نہیں تھی تو میں سمجھتی تھی کہ یہ بڑے بڑے لوگ کتنی محنت کرتے ہونگے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوں گے، کتنے صاحب علم، عقلمند، اور دانشمند ور ہوتے ہونگے، ہر بات اور ہر معاملے پر گہری نظر اور مہارت رکھتے ہوں گے تبھی تو یہ بڑی بڑی کرسیاں ان کو ملتی ہیں، ملکوں ملکوں گھومتے ہیں ملک کا نظام چلا تے ہیں اور فلمی ہیروز کی طرح یہ لوگ بھی آئیڈیل ہوتے ہونگے۔لیکن اس وقت مجھے ان باتوں کی اتنی سمجھ نہیں تھی۔
لیکن جب میں بڑی ہوئی تو دیکھا کہ ایسا تو کچھ بھی نہیں، میرے خیال کے سارے بت ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگے، سب سے پہلے تو یہ کہ یہ لوگ زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہی نہیں بلکہ یہ تو عام لوگوں سے بھی کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں یہ تو اپنے جدی پشتی نظام کی وجہ سے یہاں تک پہنچتے ہیں۔
پھر تھوڑی بات اور عیاں ہوئی تو پتہ چلا ان کے پاس اپنا یا اللہ کا دیا تو اتنا نہیں ہے بلکہ ان کی جاگیروں میں آدھے سے زیادہ تر عوام کا کھایا ہوا مال ہے اور اچھا خاصا حصہ قومی خزانے میں سے بھی نظر بچا کر چرایا گیا ہے۔
تھوڑا وقت ملا تو بڑے شوق سے ان کی تقریروں کو سنا کہ سنو بھلا ہمارے حکمران، قدر دان عوام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیا لائحہ عمل ہے ان کے پاس، کیا منشور اور منصوبے ہیں ان کے جو عوام کے لئے سوچے ہیں، لیکن یہ کیا پہلے تو حسب معمول کچھ خواب دکھائے گئے پھر بات وعدوں تک آ گئی،چلو کوئی بات نہیں یہ خواب جب تک ٹوٹ نہ جائے اور وعدہ وفا نہ ہو تو اہمیت بڑھتی ہے اور پھر یہی تو سیاست کی خوبصورتی ہے سو پھر سے اعتبار کر کے دیکھتے ہیں۔
مگر یہ کیا، یہاں تو سارا منظر ہی تبدیل تھا پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ محلے کی دو عورتیں آپس میں لڑتے
ہوئے گالی گلوچ اور پھر ہاتھاپائی، یہاں بھی یہی سب چل رہا تھا، گالی گلوچ، طعنے، الزامات، میں اچھا تو برا، میں صادق و آمین اور تو چور،اور پھر ایک بات پر تو میں نے ادھر ادھر دیکھا کہیں دادی تو نہیں سن رہی، نہیں تو پھر ان کو تہذیب و تربیت سکھانے کا دورہ پڑ جاتا۔کیونکہ یہاں جو صاحب کرسی خطاب کر رہا تھا دوسرے کو صرف الٹے سیدھے ناموں سے ہی نہیں باقاعدہ طور پر مسکرا مسکرا کر مختلف جانوروں سے تشبیہ دے رہا تھے مثلا چوہا، چور، گیدڑ وغیرہ۔
تو شکر ہے دادی نے نہیں سنا، نہیں تو مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے اور لڑتے لڑتے کسی کو الٹے نام سے پکارتے تو فٹ کہتی، بری بات بیٹا کسی کو بھی الٹے یا کسی برے نام سے پکارنا گناہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، لوگ کیا کہیں گے ان کو کسی نے تمیز نہیں سکھائی، تو اس سے اندازہ ہوا ان کی تو زبان بھی اچھی نہیں ہے اور بڑے بڑے ملکوں میں اس لیے گھر بناتے ہیں تاکہ جب ملک وقوم پر مصیبت آئے تو یہ وہاں پناہ لے سکیں۔
پھر دادی کی ایک اور بات یاد آئی کہ کوئی بڑی نوکری، کرسی اور امیری سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ سچائی، ایمانداری، تقویٰ، پرہیزگاری، خداترسی، رحم دلی،انصاف پسندی اللہ کی نظر میں تو یہ معیار ہوتا ہے بڑے پن کا۔بس اس دن سے میں نے اپنا معیار بدل لیا، اب سوچنے کی باری اپ لوگوں کی ہے کہ آپ کو اپنا معیار کب بدلنا ہے یا پھر ان کی جھوٹی تقریروں پر تالیاں ہی بجاتے رہو گے، جھوٹے وعدوں پر مسکراتے رہو گے اور اب تو وہ جھوٹے وعدے بھی نہیں ہوتے، گالی گلوچ ہوتی ہے، الزامات ہوتے ہیں، چور سپاہی ہوتا ہے، تیری باری میری باری ہوتی ہے اور ہم اتنے بیوقوف کہ تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں مگر کس بات پہ؟ یہ کوئی نہیں جانتا، یہ ہے ہمارا سیاسی رنگ،سیاسی معیار، سیاسی ایجنڈا،
تو پھر اپنی سوچ بدلو، معیار بدلو، تا کہ ہمارا کل بدلے۔

Short URL: https://tinyurl.com/29h6fwv4
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *