رمضان المبارک کی برکتیں اور مہنگائی

Attia Rabbani
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:عطیہ ربانی، بیلجیئم

”اماں! آج بھی ابا ہمارے ساتھ روٹی نہ کھائے گا؟
“کام بتھیرا ہے، ختم کرلے گا تو آجائے گا- چل تو چپ کر کے روٹی ختم کر اور پڑھائی کر لے-“
“ابا آج کل اتنا کام کیوں کر رہا ہے- رات بھی گھر دیر آتا ہے اور صبح بھی میرے جانے سے پہلے پہلے نکل جاتا ہے-“
باولے لڑکے، تُو تو جانے ہے کہ مسلمانوں کے روزے شروع ہونے والے ہیں – آٹے، چاول، دالوں کی قیمتیں آسمان کو پہنچ جانی ہیں – پھر کہاں خرید سکیں گے- ابھی سے دوگنا، چوگنا کام کریں گے تو ہی کچھ خرچہ پانی کا بندو بست ہو سکے ناں!“
“اماں، اتنی روٹی کیوں بنا رہی ہو- ہمارے لئیے تو پوری ہے-“
“کل صبح تجھے ناشتہ نہ بنا کے دے سکوں – کل ملکوں کے یہاں بھی کام پر جانا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ سویرے تڑکے ہی ان کے یہاں صفائی کا کام کرنا ہے اور پھر برتن ورتن دھونے، اس لیے صبح تیرے لئیے ناشتہ نہ بنا سکوں گی- چل یہ تھالی خالی ہو گئی تو کھرے میں رکھ دے میں دھو ڈالوں گی-“
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور خود ہی اپنی تھالی اور گلاس دھونے لگا-
باولے چھوڑ دے اسے جا، جا کر پڑھائی کر لے- میں کرلوں گی-“
“اماں، اتنی جگہ کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ہمارا خرچہ بہت بڑھ گیا ہے؟“ مسلمانوں کے مہینے میں ہمارا کام نہ ہوگا کیا؟“
“ ایسا نہ ہے لڑکے! ہر کسی کو کمانے کا موقع چاہیے- اب سال میں ایک ہی بار یہ با برکت مہینہ آتا ہے تو مسلمانوں کو بھی رو اپنی روزی روٹی کی فکر کرنی ہوتی ہے ناں! تو بس ہر چیز کی قیمت بڑھا دیتے ہیں – باجی کہہ رہی تھیں کہ بہت رحمتیں ہوتی ہیں اس مہینے میں اور ان کا خدا بہت برکتیں نازل کرتا ہے-“
“ اسی لئیے اتنی مہنگائی ہو جاتی ہے- ابا کے ساتھ ساتھ اماں تم بھی دن بھر جانور کی طرح کام کرتی ہو-“
ارے باولے لڑکے، کام ہو تو ہی برکت بھی آئے ناں، قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تاکہ ذیادہ کمائی ہو- ایسے ہی تو کمائی ہوتی، برکت آتی- اب ہمارے بس میں تو نہ ہوگا کہ ہم اس پورے مہینے میں آٹآ چاول، خرید سکیں، کوئی فل فروٹ چکھ لیویں – اب کام تو دوگنا چوگنا کریں گے تو ہی تھوڑا روٹی پانی خرید کر رکھ سکیں -، سمجھ گیا بٹو!“
اماں نے رسان سے اپنے نو سالہ نا سمجھ کو سمجھایا کہ کیسے رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لئیے برکتیں لاتا ہے اور کیسے غریب لوگوں کو اس ماہ میں خرید و فروخت میں تکلیف ہوتی ہے-
صبح وہ سکول کے لئیے تیار ہوا تو اماں ناشتہ چولہے کے آگے رکھ کر پیڑھی ساتھ میں رکھ گئی تھی- وہ چپ چاپ روکھی سوکھی کھا کر سکول کو روانہ ہوگیا- آج سکول کی فیس کا آخری دن تھا- ابا نے وت کل رات ہی فیس اماں کو تھما دی تھی مگر جانے کیوں وہ نو سال کا کم عمر بچہ فیس کی رقم ہاتھ میں دبائے بیٹھا رہا-
“یاسر مسیح!تمہاری فیس آج بھی نہیں آئی؟“
ماسٹر نورالزمان نے اونچی آواز میں اس کا نام لیا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا-
“ وہ ماسٹر صاحب ابا نیتو فیس دی تھی لیکن میں جمع نہیں کر وا سکتا، میں اس ماہ سکول نہ آسکوں گا-“
ماسٹر صاحب نے حیرت اور غصے سے اس کی جانب دیکھا-
“کیوں؟ کیا فیس کہیں گرا دی ہے یا کوئی ویڈیو گیم کھیل کر پیسے ضائع کر دئیے؟ بولو!“
یاسر اپنی جگہ کانپ سا گیا-
“وہ— وہ ماسٹر صاب، مسلمانوں کا برکت والا مہینہ سر پر آیا کھڑا ہے- اس مہینے میں آٹا، چاول اور دالیں بہت مہنگا ہو جاتا ہے- میرے اماں، ابا بہت محنت کر رہے ہیں – صبح سے رات ہو جاتی مگر ابا کی شکل نہ دکھائی دیتی- اماں بھی اب تو سویرے تڑکے ہی گھر سے نکل جاتی ہے- ایک اور گھر کا کام پکڑ لیا ہے تاکہ مسلمانوں کے برکت والے مہینے سے پہلے پہلے آٹا اور دالیں خرید کر رکھ لے- نہیں تو بھوکے مریں گے-“
ماسٹر نورالزماں حیرت سے بچے کو دیکھنے لگے-
“تو— تو تم سکول کی فیس کا کیا کرو گے؟“
“وہ ماسٹر صاب گھر پر ہی جمع رکھوں گا- اماں کو دوں گا کہ وہ تھوڑا آرام کر لے-آٹے کا تھیلا میری فیس کے پیسوں سے لے آئے- بہت تھک جاتی ہے مگر آرام نہ ملتا اماں کو-“
“اچھا بیٹھو—!“
آج سکول سے واپسی پر ماسٹر نورالزمان گہری سوچ میں پڑے تھے- قدم گھر کی جانب اٹھتے اٹھتے مسجد کی جانب مڑ گئے-
“امام صاحب کیا زکاۃ یا فطرے کی رقم کسی غیر مسلم کو دی جا سکتی ہے؟“
“ نہیں ماسٹر صاحب نہیں – ہاں البتہ صدقات نافلہ غیر مسلم کو دئیے جا سکتے ہیں – اور صدقات تو گناہ ایسے بجھاتا ہے جیسے آگ پانی کو-“
یعنی صدقات نافلہ سے مدد ہو سکتی ہے- مسجد سے نکل کر ماسٹر صاحب گھر روانہ ہوئے اور دن سے شام ہوئی شام سے رات، اور پھر فجر کا وقت آن پہنچا- سوچ کی سوئی وہیں اٹکی تھی کہ مسلمانوں کا با برکت مہینہ کیسے اشیاء خوردنی کو غریب لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیتا ہے – اسلام کی روح کو نہ سمجھنے والا انسان اس کی کیسے تشریح کرتا ہے اور“برکت“ کا کیا معنی اخذ کرتا ہے-
قرآن کریم کا نذول اسی بابرکت مہینے میں ہوا- رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ عبادات میں خشوع، جھوٹ، غیبت کئی بروئیوں سے انسان دن بھر بچنے کی کوشش کرتا ہے- زبان و بیان پر قابو، نماز کی پاپندی، رمضان ختم ہونے کے بعد بھی انسان کو بہت سی برائیوں سے بچنے میں مدد کرتی ہے-
رمضان المبارک کا چاند نظر آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے کہ یہ خیر و برکت کا چاند ہے-
حضرت جبرائیل علیہ سلام نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے، جس پر حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا آمین! حضرت جبرائیل علیہ سلام کی یہ دعا اوراس پر حضرت محمد ﷺ کا آمین کہنا اس دعا سے ہمیں رمضان کی اہمیت کو سمجھ لینا چاہئے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں رب العزت کا ارشاد ہے کہ روزہ دار کو اس کا اجر بغیر کسی واسطہ کے رب باری تعالیٰ خود عطا فرمائیں گے- اور اس مہینے کی آڑ میں مسلمان قوم کیسی بد عنوانیوں میں پڑ جاتی ہے- ایک عام آدمی رمضان میں خرید و فروخت سے ڈرتا ہے- ایک غریب شخص کے گھر میں آٹا خریدنے کی خاطر کتنی تنگی ہو جاتی ہے- دو وقت کی روٹی انسان کو گھن چکر بنا ڈالتی ہے-
ماسٹر صاحب نے اگلی ہی روز اپنے نفلی صدقے کی رقم سے یاسر مسیح کی فیس جمع کروائی- گھر میں جو کھانا بنا تھا وہ ایک ٹفن میں پیک کر کے یاسر مسیح کے دراوزے کے سامنے پہنچ کر دستک دی اور لفافہ سامنے رکھ دیا-
نو سالہ بچہ دراوزے سے باہر نکلا، کوئی نہ تھا مگر ایک لفافہ رکھا ہوا تھا جس میں ایک ٹفن کا ڈبہ اور ایک خط موجود تھا- اس نے دروازہ بند کیا- خط پڑھا- جس میں لکھا تھا کہ اس کے سکول کی فیس جمع ہوگئی ہے اور کسی بھلے مانس نے ایک معمولی رقم یا سر کی ذہانت اور جماعت میں بہترین کارکردگی پر اس کے نام بھیجی ہے-
وہ بچہ ضرور تھا لیکن یہ لکھائی روزانہ اپنے ماسٹر نورالزمان کو بلیک بورڈ پر لکھتے دیکھتا تھا- وہ بھلا مانس کون تھا یہ لکھائی سے ہی پہچان گیا تھا- کچھ دیر بعد ہی دروازہ کھلا اور یاسر مسیح سکول کا بستہ گلے میں ڈالے باہر نکلا- احتیاط سے گھر کو تالا لگایا اور چہرے پر مسکراہٹ لئیے سکول کی جانب چل پڑا-
خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ رمضان کریم ہر کسی کے لئیے برکت و احترام کا باعث ہے شرط یہ ہے تمام کار صرف اور صرف اس کی ذات کے لئیے کیے جائیں جس نے انسان کو تخلیق کیا- بھروسہ اسی پر ہو جس نے رزق دینے کا وعدہ کیا-
ماسٹر نورالزمان کچھ فاصلے پر کھڑے نو سالہ بچے کو مسکرا کر گلی سے باہر نکلتا دیکھ رہے تھے- کچھ روز میں ہی با برکت مہینہ شروع ہونے کو تھا- نیکیاں سمیٹنے کا وقت قریب آرہا تھا- نیکی یہ بھی ہے کہ ارد گرد، پڑوس میں کوئی بھوکا نہ رہے-
اس ماہ میں ہر سو نور کی بارشیں ہوتی ہیں، ہرسو رحمتوں کا نزول ہوتا ہے- حضرت محمد ﷺ خصوصی دعائیں کیا کرتے تھے- اللہ سبحان تعالیٰ کے نیک بندے بھی اس کا اہتمام کرتے ہیں –
یہ تو ایک تصوراتی کہانی تھی جو کہ معاشرے کے کچھ کرداروں کی دگرگوں حالت دیکھ کر لکھ ڈالی مگر اس وقت جو مہنگائی کا عالم ہے اس سے عام آدمی کس قدر متاثر ہو رہا ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا تو شاید ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
سیاست ساری ایک کرسی کے گرد گھوم رہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت کا مقصد صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا، جملے بازی، ایک دوسرے سے بدلے کی سیاست ہی رہ گیا ہے۔ ایک عام پاکستانی اس وقت کن حالات سے گزر رہا ہے، وہ خود بھوکا رہ کر بھی اپنے بچوں خو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا پا رہا۔ مگر نظر یہ آرہا ہے کہ آنے اور چلی جانے والی حکومتوں کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔
ہمارے بہت سے بہن بھائی رمضان میں جگہ جگہ مفت کھانے کا بندو بست کرتے ہیں جو کہ یقینا بہت بہترین عمل ہے۔ گزارش بس اتنی ہے کہ سفید پوش طبقہ اس سے مستفید نہیں ہو پاتا کیونکہ مفت کھانا شاید اس کے نفس پر گراں گزرتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے سٹال لگا لیئے جائیں جہاں سے کھانے پینے کی اشیا نہایت سستی فروخت کی جائیں۔ مگر ذخیرہ کے لئے فروخت نہ کریں۔ ایک گھر کے لئے رمضان میں ایک آٹے کا تھیلا اور اسی طرح دالیں، چاول وغیرہ۔۔۔ جتنی جس کی استطاعت ہو۔ تاکہ ایسے لوگ فائدہ نہ اٹھائیں جو مہنگے داموں فروخت کریں۔ اس طرح سفید پوش طبقے کا بھرم بھی رہ جائے، اس کے گھر میں فاقہ بھی نہ ہو اور مدد کرنا والا بھی سرشار ہو جائے کہ اس نے کسی کی عزت نفس خو مجروح کئے بغیر اللہ تعالٰی سے عمدہ تجارت کی۔ یہ بس ایک گزارش ہے اگر پڑھنے والوں کو سمجھ آئے تو پہلا قطرہ بنیں۔
در کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا ؎
جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو

Short URL: https://tinyurl.com/2fk2dfdk
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *