عیب اورغیب

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد ناصر اقبال خان

جس وقت پارلیمنٹ میں ” نیب” کے حریف اس نحیف ادارے کاپوسٹ مارٹم کررہے تھے، نیب زدگان کامخصوص طبقہ نیب کی بوٹیاں نوچ رہا تھا،اس وقت مجھ سمیت سینئر کالم نگارڈاکٹر شوکت ورک اورسعیداحمدملک بھی ایوان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ہم تینوں سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے یہ دلخراش منظر اپنی آنکھوں سے دیکھااورقومی چوروں کے بے رحم احتساب کاخواب ان کی آنکھوں میں عذاب بن کراترآیا۔نیب قوانین میں ترامیم کے نام پراس خودمختار ریاستی ادارے کے قلب اورقومی ضمیر پرکاری ضرب لگائی گئی، ان کے نزدیک نیب ایک آسیب تھا جس کوبوتل میں بندکردیاگیااوراب یہ کسی بدعنوان کونہیں چمٹ سکتا۔اگراس روزکپتان اپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ ایوان یامیدان میں ہوتا توشایدنیب کاجنازہ نہ اٹھتا۔چندتوندیں قانون کے نشتر اورگردنیں احتساب کے پھندے سے بچانے کیلئے نیب کے ہاتھوں اورپیروں کو کاٹ دیاگیا۔بیسیوں نیب زدگان نے نیب کی آنکھیں پھوڑدیں اوراسے زندہ دیوارمیں گاڑنے کے بعد قانون کی حکمرانی کامژداسنایا۔نیب قوانین میں جوترامیم کی گئی ہیں،وہ جائز ہیں اورنہ ان کاکوئی جواز تھا۔اس روز ایوان میں جوارکان” نیب” کے عیب اوراسے فوجی آمر کی باقیات بتارہے تھے انہیں لگتا ہے اس طرح وہ اپنے سیاہ” عیب” تاریخ کے اوراق سے” غیب” کرسکتے ہیں۔نیب میں نقب لگاتے وقت ایوان میں موجود زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ جس انداز سے آپس میں گپ شپ کررہے تھے اس سے صاف ظاہرتھا انہیں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ کی تقریر سننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔وہ نامعلوم موضوعات پربات کرتے ہوئے قہقہے لگارہے تھے،مہنگائی اورکرپشن سے نجات کی دہائی دینے والے بیچارے عوام کی وہاں کسی کوپرواہ نہیں تھی۔وہ مقروض پاکستان کی نیم مردہ معیشت کودرپیش چیلنجز سے بے نیاز تھے۔ایوان میں براجمان متعدد شوگرملزمالکان میں سے کسی نے چینی کی قیمت میں کمی پرزور نہیں دیالیکن نیب کونکیل ڈالنا اوراسے یرغمال بناناان کامتفقہ ایجنڈا تھا۔سپیکر قومی اسمبلی راجاپرویزاشرف نیب میں ترامیم کے ساتھ ساتھ دوسرے بل پرارکان کو”ہاں یاناں ” کاآپشن دیتے اوراگلے لمحے وہ بل پاس ہوجاتا یعنی حکمران اتحاد کے پارلیمنٹرینز کواختلاف رائے کی اجازت نہیں تھی۔انڈے کوآملیٹ بنانے میں کچھ دیرلگتی ہے لیکن نیب میں ترامیم کابل پاس ہونے میں اتناوقت بھی نہیں لگا۔مجھے لگا ایوان میں ارکان نہیں بلکہ کوئی بے زبان اوربے جان “روبوٹ” بیٹھے ہوئے ہیں اورایک خودکار سسٹم کے تحت ان کاسر اثبات میں ہلتا ہے۔عوام نے نیب میں ترامیم کا بل” پاس” کرنیوالے ارکان کو” فیل ” قراردے دیا کیونکہ کسی نے نیب پرشب خون مارے جانے کیخلاف مزاحمت نہیں کی اورنہ کسی نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
2018ء میں ہونیوالے عام انتخابات کے دوران کسی سیاسی یامذہبی جماعت نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں نیب میں ترامیم کاعندیہ اور ووٹرز نے مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی سمیت کسی جماعت کو نیب میں نقب لگانے کامینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں نیب زدگان نے اپنے اتحادی نیب زدگا ن کوبچانے کیلئے نیب کوقربان اورپاکستان میں کرپشن کاراستہ ہموار کردیا۔کسی قومی چور کیخلاف چارج شیٹ کے حق میں ناقابل تردیدشواہدپیش کرنے میں ناکامی کی صورت میں نیب آفیسرز کیلئے پانچ سال سزا کاقانون بننے کے بعد کون جسارت کرے گا۔نیب میں حالیہ ترامیم کے بعد محتسب کوخاندان کے واحد” کفیل “سے اس کے بیوی بچوں کے نام بیش قیمت جائیداد یابنک بیلنس بارے سوال پوچھنے کی اجازت نہ دینا ایک بھونڈا مذاق ہے۔بارشواہد ملزم کی بجائے مدعی یامحتسب پرڈالنا قانون اورانصاف کاخون کرنے کے مترادف ہے۔جس کے قصر میں پڑی تجوری یا اس کے “چپڑاسی” کے بنک اکاؤنٹ سے اربوں روپے برآمدہوں تووہ محتسب کو بتانے کاپابند ہے،یہ کہاں سے آئے۔منشیات فروش یا”جہاز” کی جیب سے “پڑیاں “برآمدہونے پر سرکاری اہلکار نہیں ملزمان جوابدہ ہوتے ہیں، ملزم اپنی بیگناہی کے حق میں شواہد اورشہادت دے گا۔ قوی امید ہے پنجاب میں ڈی جی نیب شہزادسلیم اورڈی جی اینٹی کرپشن راناعبدالجبار اپنی اپنی خدادادصلاحیت اورپیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کرپشن کیخلاف کامیاب آپریشن کرتے ہوئے معاشرے کاوجوداس ناسور سے پاک کردیں گے۔کرپشن کیخلاف جاری جہاد میں شہزادسلیم،رانا عبدالجباراوران کے ٹیم ممبرزتنہا نہیں بلکہ پورا معاشرہ ان کی پشت پر ہے۔
جہاں قومی سیاست میں سرگرم قومی چوروں نے احتساب کاسامناکرنے کی بجائے الٹا نیب کوناکام اوربدنام کرنے کیلئے ہرطرح کے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کئے وہاں نیب کے اندر موجود مخصوص ” خواجہ سراء ” بھی ان قومی چوروں کامحاسبہ کرنے کی بجائے الٹا ا نہیں خوش اورا ن کیلئے آسانیاں پیداکرتے رہے،ان مخصوص مفاد پرست آفیسرز نے مستقبل میں منفعت بخش تقرریوں کیلئے نیب زدگان کومجرم بنانے کی بجائے اپنا محرم بنالیا۔میں سمجھتا ہوں جس طرح کوئی انسان اپنے اندر کسی ناسور کاخودآپریشن نہیں کرسکتا اس طرح نیب زدگان کونیب میں نام نہاد اصلاحات کے نام پراحتساب کلچرکاکچومر بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔میں انتہائی تیقن سے کہتا ہوں اگر آئندہ انتخابات شفاف ہوئے توآنیوالی تازہ دم حکومت قومی چوروں کو”بے حال” کرنے کیلئے نیب کے اختیارات “بحال” کردے گی لہٰذاء نیب زدگان اپنی حالیہ کامیاب واردات پرزیادہ خوش نہ ہوں۔عوام ڈیل اورڈھیل کی بنیاد پراس وقت اقتدارمیں شریک متعدد نیب زدگان کومسترد کردیں گے۔اشرافیہ کے شعبدہ باز یادرکھیں اگر احتساب کادربندہواتوخونیں انقلاب کسی سیلا ب کی طرح انہیں اپنے ساتھ بہالے جائے گا۔ مال دار اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں۔
مراد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم اور فاروق اعظم حضرت عمر رضی ا للہ عنہ منبر پر تشریف فرما ہیں اور ایک نوجوان نمازی نے ان سے سوال کیا، اے امیر المومنینؓ آپ نے جو” کرتا” پہناہوا ہے وہ ایک چادر سے تیار نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ سمیت ہم سب کو مال غنیمت سے ایک ایک چادر ملی تھی۔ حضرت عمرؓ نے نوجوان کی اس جسارت پر غضبناک ہونے کی بجائے اپنے صاحبزادے کو حقیقت بتانے کیلئے کہا،ان کے فرزند نے بتایا کہ میں نے اپنی چادر اپنے بابا جان کی خدمت میں پیش کردی تھی اور یوں دوچادروں سے ان کا کرتا تیار ہوا۔ حضرت عمر ؓنے سوال کرنیوالے نوجوان کوانتقام کانشانہ بنانے کی بجائے اسے شاباش دی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدمبارک میں فتح مکہ کی جنگ کے وقت ایک عورت نے چوری کرلی،اس قوم کے لوگ گھبرا کرحضرت اسامہ بن زیدؓ کے پاس آئے کہ وہ اس کی سفارش فرمادیں جب حضرت اسامہ ؓ نے آپؐ سے معافی کیلئے استدعا کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کے چہرہ اقدس کارنگ بدل گیا،آپ ؐ نے فرمایا،کیا تواللہ تعالیٰ کی حدودمیں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے۔حضرت اسامہ ؓ نے عرض کی رسول اللہ ؐ میرے واسطے استغفار فرمائیں۔نمازظہر کے بعدرسول اللہ ؐخطبہ کیلئے کھڑے ہوئے اوراللہ تعالیٰ کی حمدوثناء فرمائی جواس کے شایان شان ہے،پھرفرمایا “اے لوگوتم سے پہلے لوگ اس بناپرتباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی طاقتور شخص چوری کرتا تواسے چھوڑدیتے اورجب کوئی کمزور شخص چوری کرتا تواس پرحد نافذ کردیتے “۔قسم اس پاک ذات جس کے ہاتھ میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے،اگر بالفرض فاطمہؓ بنت محمد ؐ چوری کرتی تومیں اس کابھی ہاتھ کاٹ دیتا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے حکم پراس کاہاتھ کاٹ دیاگیا تاہم اس کے بعد عورت نے توبہ کرلی تھی۔
یادرکھیں معبود برحق کی رحمت” عطاؤں ” تک محدود نہیں بلکہ قانون قدرت بندوں کی” خطاؤں ” پر سخت” سزاؤں ” کا حامی ہے۔ جہاں سزاؤں کا ڈر نہیں ہوتا وہاں خطاؤں کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔ ڈر انسانوں کا دوست اور ابن آدم کو غلطیوں یا گناہوں سے روکتا ہے۔دین فطرت اسلام ہر سطح پر احتساب کا حامی ہے، وہ معاشرے جہاں ملزمان اور بالخصوص بدعنوان آزاد ہوں وہاں معیشت کا شٹر ڈاؤن ہوجاتا ہے جبکہ معاشرت پرنحوست کے سیاہ بادل چھا جاتے ہیں۔ ہماری بدصورت جمہوریت کے مضرات دیکھیں،چندماہ قبل جو “اشرافیہ” نیب کے ریڈار پر تھی آج نیب ان کے رحم وکرم پر ہے۔ مخصوص سیاستدانوں کے” زر”،” زور”اورانتقام انتقام کے”شور” نے نیب کوناکارہ کردیا۔ ہم “بلے باز” کیخلاف “گیند باز” کو تومیدان میں اپنی مرضی سے فیلڈنگ سیٹ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں،اب شعبدہ باز اپنے مخصوص انداز سے شب وروز بدعنوانی کرنے جبکہ ا پنے بچاؤ کیلئے اپنی مرضی سے نیب قوانین کی نوک پلک سنوار رہے ہیں۔پاکستان میں شہبازشریف اور آصف زرداری سے مستند ایماندار، دیا نت دار اورامانت دار حکمرانوں کادم غنیمت ہے جو محتسب کا بھی احتساب کرسکتے ہیں۔جوماضی میں ایک دوسرے کو میدانوں میں گھسیٹنے کادعویٰ کیا کرتے تھے وہ اب نیب کو ایوانوں میں گھسیٹ رہے ہیں۔واشنگٹن کی ڈکٹیشن پرایک”اناڑی” کپتان کوہٹانیوالے بیسیوں ” تجربہ کار”اقتدارمیں آئے تو انہوں نے الٹا مہنگائی کے ہنٹروں سے عوام کوچمڑی اوردمڑی سے محروم کردیا۔پٹرول بم کی صورت میں عوام پر بار بارشب خون مارنیوالے نام نہاد نجات دہندہ اپنے بیرونی آقاؤں کی مدد سے اس پرآشوب دورکوزیادہ طول نہیں دے سکتے۔

Short URL: https://tinyurl.com/2etcsxqy
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *