جارحیت و بے حسی؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حافظ شاہد


جارحیت بھارتی ہو یا اسرائیلی، میانمار( برما) کی ہو یا دیگر ممالک کی ۔ تمام کی جارحیت نہتے معصوم مسلمانوں کے خلاف ہے۔بھارتی جارحیت ، اسرائیلی جارحیت اور برمائی جارحیت ایک دو دنوں کی بات نہیں سالہا سال گزر گئے مگر مسلمانوں پر ظلم و ستم بند ہونا تو درکنار کم بھی نہیں ہورہا ہے ۔ درجنوں افراد روزانہ کی بنیاد پر شہید اور سینکڑوں زخمی ہوتے ہیں۔مگر اس ظلم و ستم پر سب کی آنکھیں بند ہیں۔(بلکہ خراب ہیں)۔ عالمی برادری کو کچھ نظر نہیں آرہا دنیا میں امن کا ٹھیکیدار امریکہ بھی کھسیانی بلی کے مترادف کردار ادا کر رہا ہے۔ پردے کی اوٹ میں تمام مناظر کا نظارہ کیا جا رہا ہے مگر ’’ آہ ‘‘ تو کیا ’’سی ‘‘ بھی نہیں کی جا رہی۔ انسانی حقوق کے تمام چیمپین شاید وفات پا چکے ہیں ۔ عالمی میڈیا شاید ان مظالم سے بے خبر ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔
صرف بات یہ ہے کہ یہ ظلم مسلمانوں پر ہے اس لیے نہ امریکہ کو نظر آرہا ہے، نہ دیگر ممالک کو ، نہ انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کونہ عالمی میڈیا کے اداروں کو۔ یہ سب اسلام اور مسلم دشمنی والی ذہنیت کا نتیجہ ہے ۔ یہ سب برسوں پرانی مسلمانوں سے کھائی جانے والی چوٹوں کے زخموں کے تازہ رہنے کا سندیسہ ہے۔ اور ان ممالک میں امریکی اورعالمی مفادات کی تکمیل کے لئے شائد کوئی جگہ نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے ان مظلوموں کی طرف توجہ نہیں آرہی اور تو اور اگر مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او۔آئی ۔سی بھی خواب غفلت کا شکار ہو گی تو پھر کسی اور سے گلہ شکوہ تو شاید دیوانگی ہی کہلائے گا۔ فلسطینی مسلمان برسوں سے اسرائیلی ظلم کا شکار ہیں، برما کے مسلمان بھی ایک عرصے سے ظلم کا شکار ہیں، کشمیری مسلمان بھی برسوں سے بھارتی جارحیت کا شکار ہیں اور او ۔آئی ۔سی مسلسل غفلت کا شکار ہے۔اسلامی نمائندہ تنظٰم کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی ممالک انفرادی طور پر بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بے اعتنائی کا شکار ہیں ۔ وہ خواہ سعودی عرب ہو ، ایران ہو ، افغانستان ہو ، ترکی یا پاکستان اور دیگر بھی تما م خاموش ہیں ۔ان تمام مظالم پر ان کو خواب خرگوش کے مزے لینے سے شائد ہی کوئی روک سکے۔یا اللہ مسلمانوں پر رحم فرما اپنے حبیب کے صدقہ سے اور مسلمانوں کو مظلوم بھائیوں کی مدد کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرما مسلمانوں اور بے گناہوں پر ظلم و تشدد کرنے والوں کو نیست و نابود فرما ۔
تمام مسلمان بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ مظلوم مسلمانو ں کے لیے صبح و شام دعا کیاکریں ۔
کشمیر ی مسلمان نت نئے بھارتی ظلم و جبر اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں ، پاکباز خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے ۔ مزارات و عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں ، کبھی نماز مسجد میں پڑھنے پر پابندی تو کبھی جمعہ کی نماز پڑھنے پر پابندی تو کبھی سال بعد آنے والی عید کی نماز پڑھنے پر پابندی لگادی جاتی ہے تصور کریں ایسے حالات میں جینا کتنا مشکل ہوجاتا ہے ، جہاں پر دن یا رات کے کسی بھی پہر ظلم وستم کے شروع ہونے کا اندیشہ ہو وہ قوم کیا پڑھے گی ، کیا لکھے گی ، کیا کاروبار کرے گی ، کیا کھائے گی اور کیسے ترقی کر سکے گی ۔
مگر تما م تر رنج والم ، ظلم و ستم کے باوجود کشمیریوں کا زندہ رہنا اور ظلم کے سامنے ڈٹے رہنا انقلاب کے دروازے پر دستک ہے ، اور انقلاب ہمیشہ طویل جدوجہد کے نتیجہ میں ہی رونما ہوتے ہیں، اور انقلاب قربانیوں کے نتیجہ میں ہی آتے ہیں اور ہر ظلم نے بالآخر ایک دن مٹنا ہوتا ہے ، ہر کسی کی جدو جہدنے کسی دن رنگ لانا ہوتا ہے ، ہر ظالم نے ایک دن انجام کو پہنچنا ہوتا ہے، معصوموں کی آہوں اور سسکیوں نے ایک دن رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہونا ہوتا ہے ، وہ فرعونوں کو کچھ مہلت دیتا ہے مگر پھر فرعونوں نے بالآخر غرق ہونا ہوتا ہے، عالمی دنیا سوئی رہے ، میڈیا غفلت کا شکار رہے مگر پرور دگار سب دیکھ رہا ہے ، وہ ظالموں کو ضرور نشانِ عبرت بنائے گا ، اور دعائیں اثر رکھتی ہیں اسی لیے پچھلی سطور میں مظلوموں کے لیے صبح و شام دعا کرنے کی التجا کی ہے۔
اور یہاں ذکر کرتا چلوں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی جو بے شمار مراعات سے مستفید ہورہے ہیں کشمیریوں کے نام پر ، کشمیرکمیٹی کے چیئر مین ہیں مگر درجہ وفاقی وزیر کا ہے، سہولتیں حکمرانوں جیسی ہیں ، دو محافظوں کی اجازت پر دو کے ساتھ صرف ایک صفر لگا کر اتنے ہی محافظوں کے ساتھ گزارا کر رہے ہیں ، بلٹ پروف گا ڑی ، مفت پٹرول، سرکاری فون ، باہر ممالک کے دورے اور ساتھ میں ٹی اے ڈی اے ، ملازمین کی فوج ظفر موج ، آٹھ سال سے سرکاری بنگلہ و کوٹھی کے لطف ، پارلیمنٹ ہاؤس میں شاندار چیمبر ، کشمیر پر سب سے مہنگی پارلیمانی کمیٹی ، 17 کروڑ کے سالانہ خرچ اورکشمیر کے لیے بھی صرف زبانی جمع خرچ ۔ یہ صاحب کون ہوسکتے ہیں ، آپ ذرا بتائیں تو سہی اگر معلوم ہے تو کونسے الفاظ منہ سے ان کے لیے نکل رہے ہیں ، ان کی کارکردگی پر اگر معلوم نہیں ہے توپھر آپ پر بھی حیرت ہے کہ پاکستانی ہونے کے ناطے اتنی اہم شخصیت سے نا واقف ہیں جو پانامہ لیکس پر تو دو دو جلسے منعقد کرسکتی ہے مگر کشمیر پر جلسہ تو درکنار ایک اجلاس بھی نہیں بلکہ کچھ ٹھوس الفاظ بھی نہیں کبھی ادا کیے ، بلکہ وہ تو اکھنڈ بھارت کے قائل ہیں۔ اور جب اکھنڈ بھارت کے قائل ہیں تو پھر کشمیر آزاد کروانے کیے لیے بات کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے ان کو ، ان کا پروٹو کول چلنا چاہییے ، کشمیری بے شک سارے اپاہج ہو جائیں ( اللہ نہ کرے) انکی مراعات بڑھنی چاہیءں کشمیری بے شک کئی دنوں سے بھوکے ہوں ، ان کی سیکیورٹی بڑھنی چاہئیے کشمیری بے شک کئی راتوں کے جاگے اور ستائے ہوں، انکے اخراجات کا الاؤنس زیادہ ہونا چاہیے کشمیری بچے بے شک دودھ کے لیے بلک بلک کر دم توڑ رہے ہوں، مگر جناب کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے جو کشمیریوں کے غم میں دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔
اور آخر میں ڈرامہ بازوں اور ستم گروں کے لیے شاعر کی زبان سے نکلے ہوئے کچھ الفاظ۔

وہ مہربان بھی لگتا ہے ستم گر بھی
کہ اسکے ہاتھ میں اک پھول بھی ہے پتھر بھی
یہ کیسی امن کی خواہش ہے میرے دشمن کی
کہ فاختہ کے گلے میں بندھا ہے خنجر بھی
یہ پہلی با ر یکسانیت سی ہے موسم میں
ہوا جو گھر میں چلی ہے وہ ہے باہر بھی
بپا ہوئی وہ قیامت میرے زمانے میں
کہ آج کانپ رہے ہیں لبِ سخن ور بھی
ابھی تو فتح کی تکمیل بھی نہیں لیکن
لہو کا رقص بھی ہے اور اہتمامِ ساغر بھی

Short URL: http://tinyurl.com/j9sa4lx
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *