ڈی ایچ کیو چکوال اور ڈاکٹروں کی مہربانیاں

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: کو مل سعید 
چھوٹے بھا ئی کو کچھ عر صہ سے گردوں کی بیما ری نے گھیر لیا ،یہ با ت ہم سب کے لئے سو ہا ن روح تھی کہ ہمارا راج دولارا اس مر ض میں مبتلا ہے مگر کہتے ہیں کہ خدا بہت مہر با ن ہے اسی ذات نے معجزہ کیا اور بھا ئی با لکل ٹھیک ہو گیا اور اپنے قد موں پہ چلنے لگ گیا ۔ایک سال با لکل تند رست ر ہنے کے بعد کچھ دنوں سے پھر گردوں کی تکلیف شروع ہو ئی تو ہم چکوال لے کر گئے وہاں DHQ سے اور تمام پرائیو یٹ ہسپتا لوں سے یہی کہا گیا کہ پہلے Dialysis پنڈی سے کروائیں بعد میں یہاں سے ہو جا ئیں گے ہم اگلے ہی دن اسلا م آ باد پمز ہسپتال میں پہنچ گئے جہاں ایمر جنسی ڈاکٹرز نے دیکھتے ہی اپنا تمام پراسیس شروع کر دیا اور تقر یبا رات آ ٹھ بجے کے قر یب Dialysis یو نٹ سے فا رغ کر دیا اور ہمیں تسلی دیتے ہو ئے کہا کہ اب آ پ اپنے ضلع کے DHQ سے کروا سکتے ہیں ہم نے تمام تر تفصیلا ت پر چی پر لکھ دی ہیں ۔ہم بھی مطمئن ہو کر رات ہی وہاں سے نکل آ ئے اور اگلے دن صبح صبح DHQ چکوال پہنچ گئے اور تمام ٹیسٹ ر پورٹس ڈاکٹر کو دکھا ئی یقین جا نیں کہ صبح سے یہ عمل شروع ہوا اور رات کے 7 بج گئے مگر ہم کبھی ایک ڈاکٹر کے پاس جا تے تو وہ ایک اور ڈاکٹر کے پاس جا نے کا کہتا جب اس کے پاس جا تے تو وہ بھی بنا ء کو ئی بنا کو ئی بات سنے تیسرے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتا اور آ خر میں جواب ملتا کہ Dialysis یو نٹ میں ہمارے ریگو لر مر یض ہیں اگر ان میں سے کو ئی نہ آ یا تو آ پ کے کر دیں گے ہم نے بہت منت کی سارے ٹیسٹ دکھا ئے کہ مر یض کی حا لت ایسی ہے کہ ہمیں ایمر جنسی آج ہی کروانے ہیں ڈاکٹر نے ہمیں لکھ کے دیا ہے مگر ہماری کسی منت سما جت کا ان پہ کو ئی اثر نہ ہوا اور یوں ہم 12 گھنٹے ذلیل و خوار ہو کر گھر واپس آ گئے اگلے دن حا جی عمر حبیب صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے فون کر دیا ہے آ پ جا ئیں تو کام ہو جا ئے گا سو ہم پھر چلے گئے جا تے ہی DHQ کے MS نے فورا سٹاف کو بلا کر کہا کہ اس مر یض کے Dialysis فورا سے بیشتر کر یں اور یوں خدا خدا کر کے Dialysis ہو گئے اور ہم گھر واپس آ گئے ۔مگر میرا ذہن ابھی تک اپنے ملک کے سسٹم پہ ما تم کناں ہے کہ ایک مر یض ایمر جنسی میں ہے مگر اس کا بی پی تک چیک نہیں کیا گیا ، ہم مر یض کو ویل چئیر پہ ہر جگہ لے کر گئے ہر ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے مگر کو ئی شنوائی نہ ہو ئی مگر دوسرے ہی دن جب ہم سفارشی فون پہ گئے تو بغیر کسی حیل وحجت کے ہمارا کام ہو گیا ۔یہ کیسا انصاف ہے ؟وہ لو گ کہاں جا ئیں جن کے پاس کو ئی سفارش نہیں کو ئی کارڈ نہیں کو ئی سفارشی فون نہیں کیا ان کی کو ئی دنیا نہیں انہیں جینے کا کو ئی حق نہیں ؟کیا یہ انسا نیت ہے ؟کیا سفا رش کے بغیر ہم اپنا علا ج بھی نہیں کر وا سکتے؟اگر بغیر سفارش کے علا ج بھی ممکن نہیں تو بند کر دیں یہ سرکاری ہسپتال تا کہ عوام ذلیل و خوار ہو نے سے بچ سکیں ۔اس سے بہتر تو اسلام آ باد پمز ہسپتال تھا جہاں مر یض دیکھتے ہی انہوں نے علاج شروع کر دیا ۔آ خر اس سسٹم کو کون درست کر ے گا ؟جس ملک کے عوام علاج بھی سفارش سے کروائیں ،وہ ملک ترقی کرے گا یہ دیو انے کا خواب ہے ۔ہر طرف اند ھیر نگر ی ہے ہر طرف سفارش کا جال ہے آ پ کے پاس سب کچھ ہے مگر سفارش نہیں تو آ پ صفر ہیں اور کچھ بھی نہیں مگر سفارش ہے تو آ پ سب کچھ حاصل کر نے کے اہل ہیں ۔افسوس ہے مجھے کہ مر یضوں کے سا تھ یہ سلوک کیا جاتا ہے ۔ دل میں شکوہ ہے ان تما م ڈاکٹروں سے جو مسیحا کے روپ میں دراصل احساس کے جذ بے سے عاری صرف فون کو اہمیت دیتے ہیں ۔ یہ صرف ایک ہسپتال کی بات نہیں آ پ جس بھی سرکاری ہسپتال جا ئیں وہاں زیادہ تر اسی طرح کے حالا ت سے واسطہ پڑتا ہے جہاں خود کو مسیحا کہنے والے جلاد د کھا ئی دیتے ہیں شا ہد میرے الفاظ میں سختی کچھ لو گوں کو نا گوار گزرے مگر میں نے تکلیف دکھی اور عوام کو اس کر ب سے تڑ پتے دکھا زمین پہ تڑ پ تڑ پ کے جا ن دیتے ہو ئے د کھا ۔پنجا ب کے ینگ ڈاکٹرز پہلے تو آ ئے دن ہڑ تا لوں میں ہی مصروف ر ہتے تھے کینٹن میں جا کر چا ئے بسکٹ کھا تے خو ش گپیاں اڑاتے کہیں سے بھی مر یضوں کے ہمدرد نظر نہیں آ تے ،اب بھی سند ھ میں تما م سرکاری ہسپتا لوں میں ینگ ڈاکٹرز ہڑ تا ل پہ ہے اور مر یض درد و تکلیف کی اذ یت سہتے سہتے مر رہے ہیں مگر ان کو کو ئی غرض نہیں ،غر ض ہے تو صر ف اپنی مراعات سے ۔ ان سب مر یضوں کے بارے میں سو چ رہی ہوں کہ جن کے پاس سفارش نہیں تو وہ کیا کر تے ہوں گے ؟ان کے پل پل مر نے کا عمل کتنا تکلیف دہ ہو تا ہو گا ،کا ش میرے ملک کہ تمام مر یضو ں کو بلا امتیاز علاج میسر آ سکے ۔حا جی عمر حبیب صاحب کے شکر گزار ہیں جنہوں نے تعاون کیا ۔ رب کریم ہر بیمار کو شفا دے اور اپنی ذات کے سوا کسی کا محتا ج نہ کر ے ورنہ یہ د نیا تو ہمیں جینے کا حق نہیں دیتی ۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxggp9kb
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *