گلگت بلتستان میں مذہبی بنادوں پر سکیمیں بننا اور منظور ہونا کب بند ہونگی؟

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

جینا دوبھر ہونا محاورہ تو سنا ہوگا  آپ نے جی ہاں ایک وقت تھا کہ گلگت میں مذہبی منافرت کے باعث ایسا ہی ہوا تھا ۔ جینا دوبھر تھااور ہر وقت یہی کھٹکا کہ  نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے۔آپ بھی حیران ہونگے کہ میں کیا دکھڑا لے کے بیٹھ گیا ہوں  ۔کہاں تک سنوگے کہاں تک سنائیں ۔اسے ہماری بدقسمتی کہئیں یا کچھ اور گلگت بلتستان میں  ترقیاتی سکیمیں بھی مذہبی بنیادوں پہ ہی بنتی اور  منظور ہو جاتی ہیں جس باعث کم وقت میں ہی یہ سکیمں اپنی انفرادیت کھو دیتی ہیں ۔یہاں جو بھی کام ہوتے ہیں یا تو وہ ذاتی مفادات کی بنا پر یا  ضد عداوت کی بنیاد پہ یا مذہبی تعصب  پر مبنی ہوتے ہیں اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اول تو وہ سکیمیں مکمل ہی نہیں ہوتی ہیں اور اگر تکمیل تک پہنچ بھی جائیں تو یہ سکیمیں مسائل سے دو چار ہو جاتی ہیں ۔ کتنی  حیرنی  کی بات ہے  کہ  بارگو بالا اور بارگو پائین  جو صرف تین کلو میٹر  کے فاصلے پر محیط  اور دریائے گلگت کے دھانے پر واقع  ہیں اس  تھوڑے فاصلے میں چار پل  تعمیر ہوئے ہیں جبکہ پانچواں منظور ہو چکا ہے۔ایسا کیوں ہوا   داستان  بیاں ہو تو  سب کا ڈول کا پول کھل جائیگا    اور اندرونی کہانی کو اندر ہی رکھ کراسی پہ  اکتفا  کرنا بہتر ہے ۔ان سکیموں کی کہانی میں مذکورہ بالا درج عوامل شامل ہیں ۔کچھ ممبروں کی ضد کچھ عوامی ضد  اور پھر محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی نا اہلی کار فرما ہے۔حال ہی میں بارگو کا پل مکمل ہوا ہے ۔ اس کی افادیت کا ذکر کیا کرنا  بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ  یہ پل ایک پیسے کے کام کا نہیں  ۔اس پل کا اور چھ دہائی پہلے تعمیر ہونے والے برینو پل  میں کوئی فرق نہیں  ،برینو پل سے بھی گاڑی نہیں گزر سکتی تھی اور نئے تعمیر ہونے والے پل سے بھی گاڑی گزرنے کا کوئی امکان  نہیں ۔سوال یہاں یہ ہے کہ جب اس پل سے گاڑی  نہیں گزاری جا سکتی تھی تو  اس پل کو یہاں بنایا ہی کیوں ؟ اب اس کیوں کا جواب کون دیگا؟ اس سکیم کو آخر  کس نے منظور کیا  اور اس کے عزائم کیا تھے اور سکیم دینے والے اور اس کو فنڈنگ کرنے والے  کیا اس بات سے  بے خبر تھے  کہ جس جگہ پل بنایا جا رہا ہے وہاں سے سڑک  کا نکالنا محال ہے  اور سڑک بنا بھی دی جائے  تو پرانی سڑک جو گلگت گاہکوچ کی مصروف ترین سڑک ہے کسی کام کی نہیں رہتی اور  اب اس نا اہلی اور  نالائقی کو چھپانا مقصود  ہے یا پھر  وہی مذہبی  بنیاد  والی سکیم    حال ہی میں مکمل ہونے والے پُل  سے چند ہی قدم   دور ایک اور پل کی منظوری دی گئی ہے۔ ۔کیا یہ کرپشن نہیں کیا یہ گلگت بلتستان کے ترقیاتی فنڈ کو خرد برد کرنے کا گھناونا کاروبار نہیں کیا یہ ٹھکیدار کو فائدہ دینے کا حربہ نہیں۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو   کیا  عوام کا مطالبہ ان سکیموں کو منظور کرنے والے  اور اپنی مفادات کی خاطر  قوم و ملک کا فنڈ خرد برد   اور اپنی تجوریوں کو بھرنے والوں کو عدالت کے کہٹرے میں لا کر     ذمہ داروں سے پوچھ گچھ  کرنے کا نہیں ہونا چاہئے ۔لیکن افسوس  عوام    ان مذہبی ٹھکیداروں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے جو صرف اورصرف مذہب ہی کے نام پر  کرپٹ لوگوں کو بھی پارسا بنا کر  کرسیوں میں بیٹھا دیتی ہے ۔اور کرپشن صرف رشوت لینے کا نام نہیں   اس میں دیگر  برائیاں بھی آتی ہیں ۔مثلا شرابی، چرسی ،جواری، اور بہت سارے ۔مطلب  آپ  سمجھ گئے ہونگے ۔آخر مذہب اور ذاتی مفادات کی خاطر  ملک و قوم  کا پیسہ اس بے دردی سے لٹانے کا سلسلہ کب بند ہوگا۔ ہمارے اندر اجتماعی سوچ کا عنصر کب جاگے گا، ترقیاتی کاموں میں یہ غلیظ حرکت  ہماری کس سوچ کی نشاندہی کرتی ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yb8z3o5q
QR Code: