گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ثناء اللہ مزاری
شمائلہ نے دوپہر 12:00 بجے کی خبریں سننے کے لئے ٹی وی آن کیا، دیکھا کہ آرمی پبلک سکول میں قیامت بر پا ہو چکی تھی. ٹی وی اینکرز روتے ہوئے اپڈیٹس دے رہے تھے. ہر طرف گوشت کے لوتھڑے نظر آر ہے تھے.
  اتنے میں پڑوس کی عورت شمائلہ تیزی سے مریم کے گھر حامد کے بارے میں پوچھنے کیلئے آرہی تھی، کہ مریم نے تیز قدموں سے شمائلہ کو اپنی جانب آتے دیکھتے ہی کھڑی ہو گئی. شمائلہ نے مریم سے پوچھا “آپ کا لاڈلا بیٹا حامد کہاں ہے؟ سکول پہ دہشت گردوں کا حملہ ہو گیا.” یہ سنتے ہی مریم کو محسوس ہوا، پاؤں تلے سے زمین کھسک رہی ہے، اس کی آواز بند ہو گئی. گرتے گرتے بچی. کچھ ہوش آیا تو گرتی پڑتی  گاڑی کی طرف لپکی اور پڑوس والی عورت کو اشارے سے کہا کہ جلدی گاڑی چلائیں، سکول کی طرف جانا ہے. شمائلہ اور مریم اندھا دھند ڈرائیونگ کرتی سکول پہنچ گئیں. وہاں کا منظر قیامت کا نظارہ پیش کر رہا تھا. ہر جانب ایمبولینسوں کے سائرن بج رہے تھے. امدادی کارکن اپنے کام میں جتے ہوئے تھے. شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی.  مریم کی نظریں بار بار اپنے بیٹے حامد کو ڈھونڈ رہی تھیں، جو ابھی تک نگاہوں سے اوجھل تھا. ہزاروں وسوسے، زہریلی ناگن کی مانند ڈس رہے تھے. اندیشوں کے پہاڑ اس کی راہ میں سد سکندری بن کر کھڑے تھے. 
حامد کا کلاس روم بھی کسی قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا. ہر جانب بچوں کے بستے، کتابیں، پنسلیں، قلم ،کاپیاں اور ننھے منے جوتے بکھرے ہوئے تھے. مریم کی نگاہیں ہر دیوار سے ٹکراتیں، لیکن خالی واپس آ جاتیں.. الہی! کوئی تو میرے بچے کا پتا دے. لیکن یہاں نفسا نفسی کا عالم تھا. اس نے ایک امدادی کارکن اور ایک فوجی بھائی سے پوچھنے کی کوشش کی لیکن انہیں کیا معلوم تھا؟ مریم کی طرح انہیں کیا معلوم؟ کہ اس کا لعل اللہ کی جنتوں میں سیر کرنے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا بن چکا تھا.
صدیوں کا مسافر تھکا ہے ایسے کہ سو گیا ہے.. 
 اچانک مریم کی نگاہیں جوتوں کے ایک پر پڑیں جو خون سے تربتر تھا. انہیں وہ ہزاروں میں پہچان سکتی تھی. اپنے پھول کے جوتے اٹھائے ساتھ والی عورت سے کہا “جہاں زخمیوں اور شہداء کو منتقل کر رہے ہیں وہاں چلو.” پھر اپنی گاڑی پہ مریم وہاں پہنچی،  پہلے زخمیوں کے وارڈ میں گئ وہاں حامد نہیں ملا. پھر شہداء وارڈ میں اس کی نگاہوں نے اپنے معصوم لعل حامد کو تلاش کر لیا.
پھول دیکھے ہیں جنازوں پہ اکثر ناصر…  آج میری آنکھوں نے پھولوں کے جنازے دیکھے…… 
مریم اپنے بیٹے حامد سے مخاطب ہوئی. “حامد بیٹا! میں آگئی ہوں آپکو لینے کے لیے، اٹھ جا میرے لعل! میرے پھول! میرے گلاب! مجھ سے ایک بات تو کر” اور مریم کی آنکھوں سے اشکوں کے سیلابی ریلے نکل پڑے. 
ٹی وی اینکرز جو اس وقت روتے ہوئے لرزتے آواز میں اپڈیٹس دے رہے تھے….. مریم کی درد بھری صداؤں نے سارے جرنلسٹس کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا. سارے ٹی وی اینکر مریم کی طرف آئے ایک اینکر نے پوچھا کہ یہ بچہ جو مرا ہوا ہے یہ آ پکا بیٹا ہے؟ تو مریم بولی کس نے کہا کہ یہ مرا ہے؟ یہ مرا نہیں یہ شہید ہوا ہے…… اللہ پاک کا فرمان ہے کہ شہیدوں کو مردہ مت کہو یہ زندہ ہیں… 
کون کہتا ہے موت آئی تو میں مر جاؤں گامیں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤ گا

مریم کی عزت و عظمت کو سلام کہ اس وقت اپنے معصوم پھول سا بیٹے کے سرہانے کھڑے ہو کر میڈیا کے سامنے بزدل دشمن کو تاریخی الفاظ کہے تھے کہ میرا بیٹا مرا نہیں ہے میرا بیٹا شہید ہوا ہے… 

مرا وہ جہنم وہ گیا جس نے معصوم پھولوں پہ بم برسائے. یہ میرا ایک اکلوتا بیٹا تھا اگر میرے 10 بیٹے بھی ہوتے تو میں اپنے 10 بیٹوں کو پاکستان کی بقا کیلئے قربان کر دیتی….. 
مریم کے بیٹے حامد کو اللہ پاک نے اپنے پاس بلا لیا. بس حامد اپنے امی جان مریم کیلئے نشانی کے طور پر خون سے رنگین اپنے جوتے چھوڑ گیا اب بس حامد کی ماں مریم حامد شہید کی جوتوں میں انکی لہو کا خوشبو سونگھتی ہیں اور اپنے بیٹے کی زندگی کا تصور اپنے دل میں لاتی ہے.

Short URL: http://tinyurl.com/yb53z4z6
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *