گاجر۔۔۔۔ تحریر: علی حسنین تابشؔ

Ali Hasnain Tabish
Print Friendly, PDF & Email

جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے سانس لینا ضروری ہے ،اِسی طرح خوراک بھی انسانی زندگی میں طاقت لانے اور زندگی میں آگے بڑھنے ،اُ س کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازاہ ہے ۔ان نعمتوں میں سے ایک نعمت ’’گاجر‘‘بھی ہے۔
سبزیاں کچی کھائی جائیں یا پھر پکا کر،ہماری صحت اور تندرستی کے لئے اور ہمارے نظام انہضام سے ان کا براہِ راست گہرا تعلق ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے سبزیوں میں بے شمار فوائد رکھے ہیں۔کسی میں طلاء ہے تو کسی میں نقرہ پایا جاتا ہے۔کسی میں آئرن ہے تو کسی میں انتہائی طاقت بخشی ہے۔کچی سبزیاں انسانی صحت کے لئے زیادہ بہتر اور فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔ایسی ہی ایک سبزی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے لئے پیدا فرمائی۔اُس ذات کی نعمتوں کاجتنا شکر ادا کیا جائے کم ہو گا۔جب سے انسان شعور کی منازل طے کرتا گیا اورہر شئے پر اُ س نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور برسوں سے تجربات و مشاہدات کے بعد بہت سے قدرت کے رازوں کو اِس دُنیا پہ عیاں کیا۔جس سبزی کاتذکرہ یہاں مقصود ہے وہ ہے’’گاجر‘‘۔ٹھنڈے میٹھے موسم سے اس کا آغاز اورسردیوں میں اس کی افادیت سے خوب استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔اسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے غریب کے لئے انار سے بھی بڑھ کر خصوصیات دے کر پیدافرمایا ہے۔امیر انار کھاتا ہے تو اُسی کے برابر یہ گاجر ہے۔گاجر(ھ)اورجزر(ع)کے الفاظ ہیں ان ناموں سے اسے جانا جاتا ہے۔

carrotصفات وشناخت:۔

ایک مزروحہ روئیدگی کی گادوم جڑ ہے ۔اس کی تین قسمیں ہیں۔
۔1پتے سونف کے پتوں سے چھوٹے اور پھول بھی سونف کے پھولوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔اس میں دھنئے اور سونف کی طرح چھتہ لگتے ہیں۔ساق ایک بالشت کے قریب بلند ہوتی ہے۔پھول کا رنگ سفید ہوتا ہے اوراُس سے خوشبو آتی ہے۔
۔2پتے دھنئے کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں اور بیج غلاف میں بھرئے ہوتے ہیں۔جن کی صورت دھنئے کے دانے کی سی ہوتی ہے پھول وغیرہ پہلی قسم کی طرح ۔
۔3پتے شاہترے کے پتوں کی طرح اور کچھ ان سے چوڑے ہوتے ہیں اور مزے میں کسی قدر تلخی ہوتی ہے۔ساق پریشان ہوتی ہے اور اس پر چھتر ہوتے ہیں۔سوئے کے چھتر کی طرح اور پھول کا رنگ سفید ہوتا ہے جس کے اندر ایک چیز ہوتی ہے۔روئی کی طرح نیلے رنگ کی ۔اس کی جڑ ایک انگلی کے برابر سے لے کر بالشت بھر تک لمبی گاجر ہوتی ہے۔
شقارالاسقام میں عمدہ جاڑوں کی لال اور میٹھی کو بتایا ہے اور کہا ہے کہ بستانی میں سے لال قسم کا مزہ اچھا ہوتا ہے ۔اس میں رطوبت ہوتی ہے جو قسم اس میں سے زردی مائل ہو وہ افلظ واحد ہے۔

طبیعت!۔

گرم وترپہلے یا دوسرے درجے میں،یا گرم دوسرے اور تر پہلے درجے میں ۔اس میں رطوبت فضلیہ ہے ۔یہ گرمی اورسردی میں معتدل جانتے ہیں۔بضاعت الاطبا میں ہے کہ اس کی جڑ پہلے درجے میں گرم و تر ہے۔

خواص و فوائد:۔

لطافت پیدا کرتی ہے ۔جگر کا سدہ کھولتی ہے ۔معدے کو قوت دیتی ہے۔یہ قبض کشا بھی ہے ۔باہ کو قوت دیتی ہے۔ذکر کی استادگی بڑھاتی ہے ۔منی کو گاڑھا کرتی ہے ۔بلغم نکالتی ہے ۔مثال کے طور پر جب بلغم سینے اور پسلیوں میں جم چکی ہو اسے نکالنے میں مد د گار ثابت ہوتی ہے۔کھانسی اور درد سینہ کو مفید ہے۔اِس سے پیشاب کھل کر آتا ہے اور گردے مثانے کی پتھری ٹوٹ کر بہہ جاتی ہے ۔استسقاء کو نافع ہے۔(چنہ اطباء کرام استسقاء کو چار اور کچھ تین قسم کا مانتے ہیں اس لئے یہاں وضاحت ضروری نہیں)معدے اور جگر کو مفید ہے ۔بدن کو تیار کرتی ہے۔اس کے سنو گرمی میں پینے سے خشکی معلوم نہیں ہوتی اور پیاس دبی رہتی ہے۔اس کا پانی خفقان اور تقویت دل کے لئے نافع ہے۔گاجر کو بھون لیں ۔جب نرم پڑ جائے تو اوپر کا پوست(چھلکا)اور اندر کی گھٹلی دور کر کے رات کو آسمان کے نیچے رکھ دیں اور صبح کو تھوڑا سا عرِق گلاب اور قندملا کر کھا لیں۔گاجر کو پیس کر پانی کے ساتھ جو ش دے کر کپڑے پر بچھا کر ایسے زخم پر لگایا جائے کہ جس میں سے بدبو نکلتی ہے۔گاجر کا مربی السریع الہضم ہے۔استسقاء کے مریض کا فائدہ بخشتا ہے۔اگر شہد سے تیار کیا جائے تو باہ کونہایت تقویت دیتا ہے۔بہتر وقت اس مربے کے استعمال کا ریبع و خریف ہے۔اس کا حلوہ بھی نہایت لذیذ ہوتا ہے اور اس کے پتوں کا ضماد کر آقلہ کے لئے نافع ہے۔اس سے بدن کو غذایت اس قدر حاصل نہیں ہو سکتی کہ جتنی شلغم سے حاصل ہوتی ہے۔گاجر سریع الہضم ہے۔لیکن شیخ کہتا ہے کہ دیر ہٖضم ہے۔مگر اس کا مرباذود ہضم ہے۔اس کو کچا اور خاص کر زیادہ کھانے سے پیٹ پھول جاتا ہے۔اگر پیٹ نہ پھُلاتی تو اِس کو استسقاء کی ادویات میں استعمال کیا جاتا ۔گرم مزاج والوں کے لئے بغیر اصلاح کے مناسب نہیں۔البتہ سرد مزاج افراد کیلئے نفع بخش ہے۔مسرد مزاج لوگوں کے معدے میں اگر رطوبت ہو تو گاجر کو گرم مصالحے کے ساتھ لگا کر کھانے سے رطوبت کو نفع بخشتا ہے اور رطوبت زائل ہو کر معدہ قوت پاتا ہے۔
بوڑھوں کے لئے بھی نافع ہے اور اسے بکری کے گوشت کے ساتھ پکا کر کھانے سے ایک عمدہ خلط پیدا کرتی ہے۔جس معدے میں بلغم لزج یا رطوبت کی وجہ سے ضعیف ہو،اسے قوت بخشتی ہے۔جگر اور معدے اور تِلی کا سدہ کھولتی ہے۔اگر سرکہ اور نمک یا کانجی اور نمک کے ساتھ پکا کر کھائیں تو رفق کے ساتھ دست لائے اور گردے میں گرمی پیدا کرے۔سینے اور پھپھڑے کو مضر نہیں۔گاجر کا اچار سرکہ میں پڑا ہوا معدہ اور جگر سرد کو قوت دیتا ہے۔تلی کا ورم تحلیل کرتا ہے۔
ویدک کہتے ہیں کہ گاجر بھوک پیدا کرتی ہے اور قابض شکم ہے۔بواسیر ،سنگرینی اور فسادبادوبلغم کو مٹاتی ہے۔قوت پیدا کرتی ہے ۔کچی گاجر کے کھانے سے آنتوں کے کیڑے مر جاتے ہیں۔بگڑے ہوئے زخموں پر گاجر کا لیپ کرتے ہیں ۔گاجر کھانے سے بدن فربہ ہوتا ہے ۔گاجر کا حلوہ کھانے سے بھی بدن موٹا ہوتا ہے۔گاجر کے ضماد میں نمک ڈال کر لگانے سے وہ صفراوی ورم اترتا ہے جس میں پھنسیاں ہوتی ہیں۔کچی گاجر کو پیس کر اس کا لیپ تیار کریں ۔اب اس لیپ کو آگ سے جلے زخم پر لگائیں۔اس کے استعمال سے زخم پہ آنے والی سوزش ہٹتی ہے ۔گاجر کا اچار کھلانے سے تِلی کم ہوتی ہے۔گاجر کے پتوں کو گھی لگا کر گرم کر کے ان کا رس نکال کر دوتین بوندیں کان اور ناک میں ٹپکانے سے کچھ چھینکیں آنے سے آدھا سیسی کا درد ختم ہوتا ہے۔
گاجر ہمارے دستر خوان کو سجانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔رنگت کو نکھارتی ہے ۔خون پیداکرتی ہے۔گاجر اور کینو کا جوس نکال کر پیءں صحت کے لئے نافع ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/zndj6u8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *