کیا ڈیجیٹل ورلڈ کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟۔۔۔۔ ندیم رحمان ملک

Nadeem Rehman Malik
Print Friendly, PDF & Email

دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی سوشل میڈیا جسے آج کل ڈیجیٹل ورلڈ بھی کہا جاتا ہے، کی اہمیت ، اس کی اثر پذیری اور ضرورت کو تعلیم یافتہ طبقہ کب کا تقسیم کر چکا ہے۔ لفظ “پراپیگنڈہ”کا اگر نیا نام دیا جائے تو اسے آج کا سوشل میڈیا کہہ سکتے ہیں، پوری دنیا آج تبدیلی کے ہچکولے کھاتی نظر آ رہی ہے، کہیں انقلاب لایا جا رہا ہے، کہیں انقلاب آ چکا ہےاور کہیں لانے کی تیاریاں مکمل ہیں بس کسی غیبی اشارے کا انتظار ہے، دنیا کے اہم علوم فلسفہ، نظریہ، منطق، تھیوریاں اور سائنس و ٹیکنالوجی کی جدید ایجادات و پس منظر اور محرکات سوشل میڈیا کے اہم مقاصد میں شمار ہونے لگے ہیں، اسی طرح سیاسی اپروچ، ایجنڈا، منشور، سیاسی برتری، لیڈرشپ، اقتدار کاحصول، جمہوریت، سوشلزم، نیشنلازم، ماکس ازم اور اسلام ازم کا پرچار، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سیاست کے عروج وزوال سے وابستہ مالیتی ادارے، امدادی و فنڈنگ ایجنسیاں، سیاسی تازیانے، مختلف مکتبہ فکر کے آفکار سوشل میڈیا پر چھائے نظر آتے ہیں۔ یوں مختلف لوگ، طبقات اور اذہان سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہیں، اختلاف رائے کا حق بھی سب کو حاصل ہے، یوٹیوب، ٹویٹر، بلاگز، فیس بک پر اس کا شائع شدہ مواد ہی در اصل اس کا وہ حسن ہے جو لمحہ بہ لمحہ میک اپ کئے روپ بہروپ بدلتا رہتا ہے، یوں ایک چہرہ پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ!!والی بات یہاں صادق آتی ہے، ویکیپیڈیا کی طرح مواد کی درستگی کا کوئی اہتمام نہیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ لوگ مواد پر اندھا دھند اعتماد اور یقین کر لیتے ہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر علم، خبر اور اطلاعات بہت کم کسی تصدیق یا حوالے کے اپ لوڈ ہوتی ہیں، یوں بجائے وہ فائدہ کے الٹا نقصان کا باعث بنتی ہے، لوگ کنفیوز ہو جاتے ہیں، علم اور معلومات کی بجائے یوزر کو جہالت اور گمراہ کن تارعنکوبت میں الجھا دیا جاتا ہے، دنیا کی ہر اہم شخصیت کا سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی اکائونٹ یا پیج ہوتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں لوگوں نے اہم قومی ہیروز سمیت نامور سیاستدانوں، فنکاروں، پبلک فیگرز حتیٰ کہ وقات پا جانے والے لیجنڈز کو بھی نہیں بخشا، ہر ایک کے جعلی ایک دو پیج یا اکائونٹ لازمی نظر آتے ہیں۔ اب کوئی پتہ نہیں کہ مذکورہ پیج اصل ہے یا نقل، یوں مفاد پرست اور پراپیگنڈائسٹ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب رہتےہیں۔ خود سوشل میڈیا چلانے والوں کے پاس اصل اکائونٹ کی تصدیق یا فلٹریشن کا کوئی ٹول یا آپشن نہیں ، ہر سال لاکھوں کروڑوں نئے یوزر کی آمد ان کی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں وہ معیار اور کریڈبیلٹی سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی سوشل میڈیا پر ان کی ہر سروس مفت ہوتی ہے، اب کون ان مفتوں کی چھان پھٹک کرے، یوں سوشل میڈیا سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں، آنکھیں بند کرنے کا انجام ہے کہ آج پرویز مشرف جیسے جہاں دیدہ انسان آج فیس بک میں مقبولیت کے زوم میں آ کر عیش و عشرت تیاگ کے چک شہزاد میں مکافات عمل کاٹ رہا ہے، اسی سوشل میڈیا نے عمران خان کو ایک صوبے تک محدود کر کے رکھ دیا ہے، کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ سوشل میڈیا کوئی برائی ہے، منفی ٹول ہے، یہ تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ کسی کی سچائی اور حقیقت کو کس طرح اپنے علم و تجربے سے پرکھتے ہیں، جھوٹ اور ملاوٹ، دھوکہ اور فریب خود نفس مضمون چیخ چیخ کے بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ مواد، پیج اور پروفائل بوگس، جعلی اور فیک ہے، یہاں آپ چاہیں تو اسے قبول کریں یا مسترد کر دیں۔ یہ ہماری ایمانداری کی بات ہے سوشل میڈیا کو مورد الزام قرار نہیں دے سکتے، یہ تو ایک جہاں ہے، علم، ادب، معلومات، کرنٹ نیوز اور کرنٹ ایشوز کا، ایک انتہائی سستا ذریعہ، گھر بیٹھے آپ دنیا سے مخاطب ہو جاتے ہیں، اپنی ستاتے ہیں، اپنے اور دوسروں کے تجربات ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہیں، دوسروں کے نقطہ نظر سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں، کسی کے نظریات، فلسفہ، تھیوری اور پروپیگنڈہ کو چیلنج بھی کر سکتے ہیں، اپنی ذاتی تخلیقات خواہ وہ کسی بھی فارمیٹ میں ہوں اسے دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں، مختصر یہ کہ سوشل میڈیا پر علم دو علم لو کا فارمولا لاگو ہوتا ہے۔

آج سیاسی ترجیحات ، عوام کا ماینڈ سیٹ چینج کرنا، اپنی پارٹی کا منشور اور انقلابی نعرے عوام تک پہنچانا، ووٹ کا حصول، اپنے گناہ دوسروں کے سر تھوپنا، اپنی کارگزاری کو بڑھا چڑھا کے پیش کرنا، عوام کو سیاسی لیڈروں سے بات چیت کا موقعہ فراہم کرنا سے لے کر عالمی سطح پر اپنی سیاسی حکمت عملی، خارجہ پالیسی، ہمسائے ممالک سے تعلقات، امریکہ پولیسی، اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ، تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کا فروغ، انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی اور سیاسی بحرانوں سے چھٹکارہ یہ سب وہ ایشوز ہیں جو پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کو وراثت میں ملتے ہيں انہی مسائل کی بنیاد پر سیاسی منشور، نعرے  اور سیاسی شعبدے بازی کا مظاہرہ ہوتا ہے، یہ سب پولیٹیکل وار کا حصہ سمجھا جاتاہے، پولیٹیکل وار اب میدانوں، ڈرائینگ روموں اور ٹیبلوں پر نہیں لڑی جا رہی بلکہ یہ جنگ اب سوشل میڈیا پر لڑی جاتی ہے، پروپیگنڈہ جو ہمیشہ ایک سیاسی ہتھیار سمجھا جاتاتھا اب وہ بھی سوشل میڈیا پر آزادانہ استعمال ہو رہا ہے۔ سیاسی بورژواطبقہ اس میڈیم کے ذریعہ اپنی بات منوانے کا ہنر جان گیا ہے، چند سیکنڈوں میں ان کی ترجیحات، سرکلر، پراپیگنڈے، پینترے اور جھکائو لاکھوں کروڑوں ووٹروں، کارکنوں اور عوام تک پہنچ جاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے حق اور مخالفت ميں لکھے گئے کالمز، تجزیے اور انکشافات اب منٹوں سیکنڈوں ميں چھپ کے قارئیں اور ناظرین کا ریسپونس اور رد عمل سمیٹ چکے ہوتے ہيں۔ یو ٹیوب بھی سوشل میڈیا کا اہم ترین اور مقبول ترین ٹول اور سروس ہے لاکھوں پاکستانی اور کروڑوں غیر ملکی افراد اس سائیٹ سے علم اور تفریح کی غرض سے استفادہ کرتے ہیں، پاکستان کی بیشتر یونیورسٹیاں اپنے آن لائن کورسز یو ٹیوب پر ہی اپ لوڈ کرتی ہیں، فاصلاتی تعلیم کے بکس، نوٹس اور contentsبھی پڑھنے کے لئے یو ٹیوب پر ملتے ہیں لیکن یہ سائیٹ حکومت نے گزشتہ سالوں سے بند کی ہوئی ہے، اب کچھ قوانین مرتب کئے جا رہے ہیں جس سے یہ امید ہے کہ یہ سائیٹ جلد کھول دی جائے گی، ویسے بھی proxy web siteسے یو ٹیوب سمیت ہر بین سائیٹس ہمارے ہاں بھی باآسانی دیکھی جا رہی ہیں، حکومت پاکستان گوگل اور یو ٹیوب کی مینجمنٹ سے اس حوالے سے بھی بات چیت کرے تاکہ کل کلاں کو اس حوالے سے کوئی اور ایشو نہ سر اٹھا سکے۔

Short URL: http://tinyurl.com/jofzdvt
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *