کسانوں کی جمہوری مرمت

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: جاوید ملک
26مئی 2017کو جمعہ کا دن تھا ۔ اس روز مسلم لیگ (ن) کی حکومت تاریخ میں پہلی بار اپنا مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرنے جارہی تھی یہ لمحے اس لیئے بھی اہم تھے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا جب ایک وزیر اعظم اور ایک وزیر خزانہ اپنا پانچواں مسلسل بجٹ پیش کرنے جارہے تھے یہ ایک خوش آئند تسلسل تھا جو عیاں کررہا تھا کہ جمہوریت اب مضبوط ہوگئی ہے ۔
اس روز وفاقی دارالحکومت میں بلا کی گرمی تھی سورج سوا نیزے پر محسوس ہورہا تھا ۔ میں اپنے ایک صحافی دوست حفیظ عثمانی کے ہمراہ ایمبیسی روڈ پر سفر کررہا تھا اتفاقاً موضوع بحث بھی جمہوریت کا استحکام ہی تھا جب ہم ڈی چوک کے قریب پہنچے تو ایک بڑے ہجوم کو دیکھ کر رُک گئے گاڑی سٹرک کنارے روکی اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ہجوم تک پہنچ گئے ۔ درجہ حرارت ناقابل برداشت تھا چند قدم چلنے سے ہی جسم پسینے سے شرابور ہوگیا ۔
ڈی چوک میں لگتا تھا پورے پنجاب کی تہذیب اُتر آئی ہے ۔سفید سلیقے سے باندھی ہوئی پگڑیاں ، مخصوص سرائیکی دھوتیاں ، کندھے کے ایک طرف رومال نما کپڑا ڈالے یہ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے کسان تھے ۔ مختلف دیہاتی علاقائی لباس پہنے سرائیکی ،پنجابی ،پوٹھوہاری اور دیگر مادری زبانوں میں بات چیت کرتے بہت بھلے دکھائی دے رہے تھے ۔
وہاں پہلے سے موجود کچھ رپورٹر ساتھیوں نے بتایا کہ یہ کسان اتحادکے لوگ ہیں جو اپنے حقوق کیلئے مظاہرہ کررہے ہیں اور بہ ضد ہیں کہ اپنے وزیر اعظم سے ملے بغیر یہاں سے نہیں ہٹیں گے ۔ابھی ابھی اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ایک جوشیلا خطاب کرکے ہٹے تھے ۔
میری خواہش تھی کہ کسان اتحاد کے قائدین خالد محمود کھوکھر اور چوہدری رضوان اقبال سے مل کر ان کے مطالبات جان سکوں ۔ ایک آدھہ دفعہ کوشش بھی کی مگر ممکن دکھائی نہ دیا ۔اب میں نے مختلف دہقانوں سے جو قریب موجود تھے گپ شپ شروع کردی ۔
اوکاڑہ کے ایک بزرگ کسان نے کہا کہ بیٹاہم زمین کا سینہ چیر کر فصلیں اُگاتے ہیں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں لیکن افلاس ہمارے آنگنوں سے آسیب کی طرح چمٹ گئی ہے ۔زراعت کی پالیسیاں وہ ترتیب دیتے ہیں جنہیں کھیتی باڑی کی الف ، ب کا بھی پتہ نہیں نتیجہ صرف کسان اور اس کے اہل خانہ بھگت رہے ہیں ۔ غربت کیا ہوتی ہے ؟ کسی روز میرے گھر آؤ تو وہ تمہیں وہاں چیختی چنگھاڑتی ملے گی ۔دو جوڑے کپڑوں میں ٹاکیاں لگا لگا کر ایک ہی جوتے کو گانٹھ گانٹھ کر ہم پورا سال گزاردیتے ہیں ۔ پانی کی طرح بہتے پسینے میں اس بوڑھے کسان کے آنسو بھی کہیں گم ہوگئے تھے ۔جھنگ کے ایک پکی عمر کے کسان نے بتایا کہ ہم برسہا برس سے اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ۔2014ء کے بجٹ میں کھادوں پر 14ارب روپے اور چاول کے کاشتکار کیلئے 5ہزار فی ایکٹر سبسڈی کا اعلان ہوا خوشنما اشتہارات بھی چلے مگر سب لفظوں کا ہیر پھیر تھا کسان کا دامن خالی تھا خالی ہی رہا ۔
ایک نوجوان قدرے پُرجوش لہجے میں بتا رہا تھا کہ 2015ء میں 341ارب کے کسان پیکج کا اعلان ہوا مگر کسانوں تک صرف اعلان ہی پہنچا حکومت کے چہیتے بیورکریٹ سب ہڑپ کرگئے بددیانتی کی کئی داستانیں اخبارات میں چھپ چکی ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ پیداوار کی لاگت بڑھنے اور اجناس کی قیمتیں کم ہونے کی بناء پر تین سال سے کپاس ،آلو،چاول ،مکئی کاشت کرنے والے خسارے میں ہیں جبکہ پنجاب حکومت کوئی ریلیف تو کجا دیتی زبردستی زرعی انکم ٹیکس وصو ل کرنا چاہتی ہے ۔
ایک اور کسان بتارہا تھا کہ وہ 2014سے احتجاج پر ہیں ۔پنجاب اسمبلی کے سامنے کئی دفعہ احتجاج ہو چکے ہیں ۔ غربت ،تنگ دستی اور افلاس کے مارے یہ دہقان زراعت کے علامتی جنازے تک نکال چکے ہیں ۔متعدد بار گرفتاریاں ہوچکی ہیں حکومت وعدوں کا لولی پاپ دے دیتی ہے مگر ہمارے مسائل کا حل کوئی نہیں ڈھونڈتا ۔ ہر سال کسانوں کو باردانے کیلئے پٹواریوں کے سپر د کردیا جاتا ہے جوان کی کھال اُتار لیتے ہیں ۔
میں سوچ رہا تھا ابھی ایک ماہ قبل ہی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے ایک ٹویٹ نے جو ہیجانی کیفیت پیدا کردی تھی پاک فوج کے سپہ سالار نے دس روز قبل ہی اس کو خوبصورت اختتام دیا اور انا کے خول سے نکلنے والے اداروں نے یہ ثابت کردیا کہ اب ہم بالغ ہوچکے ہیں اور یہ خوش آئند تبدیلیاں ایک خوش فہمی کو جنم دے رہی تھیں کہ ابھی وزیر اعظم خود آئیں گے مظاہرین کے مطالبات سنیں گے ان کیلئے اسمبلی کی ایک گیلری خالی کرائیں گے اور یہ دیہاتی آج بجٹ اجلاس اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔
مگر ہائے رے خوش فہمی لمحوں میں منظر ہی بدل گیا ۔اسلام آباد پولیس نے احتجاج کرنے والے کسانوں پر دھاوا بول دیا مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کا بے دریغ استعمال کیا۔ ہر طرف ایک آہ و بکا مچی ہوئی تھی ۔ میں نے کئی عمر رسیدہ کسانوں کو زخمی حالت میں آگ کی طرح کھولتی زمین پر لوٹتے دیکھا ۔ پولیس کے جوان بڑی بے رحمی سے گھسیٹ گھسیٹ کر ان دہقانوں کو گاڑیوں میں ٹھونس رہے تھے ۔ اب ڈی چوک ایک میدان جنگ کا منظر پیش کررہا تھا بچے کھچے کسان مزاحمت پر اُتر آئے تھے اوران کی طرف سے شدید پتھراؤ کا سلسلہ جاری تھا ۔پولیس اور مظاہرین کی یہ آنکھ مچولی بہ مشکل پندرہ بیس منٹ جاری رہ سکی ایک سو اسی سے زائد مظاہرین گرفتار ہوگئے تھے اور باقی نے راہ فرار اختیار کرلی تھی ۔
میں خالی خالی نظروں سے اب ڈی چوک کو دیکھ رہاتھا ۔ چند لمحوں قبل تک جہاں زندگی مسکرارہی تھی ، پرجوش کسانوں کا احتجاج جاری تھا کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی وہاں اب ہولنا ک سناٹا تھا ،کچھ جوتے ادھر اُدھر بکھرے پڑے تھے دوچار پگڑیاں بھی تھیں جو پولیس کی پکڑ دھکڑ میں کسانوں کے سر سے گر گئیں تھیں چند رومال تھے ایک دو صافے بھی دکھائی دے رہے تھے جن پر خون کے دھبے واضح تھے ۔پانی کی خالی بوتلیں ،استعمال شدہ گیس شیلز کے خول اور دیگر کچھ سازو سامان بکھرا پڑا جمہوریت کا تمسخر اُڑارہاتھا۔ اس بکھرے پڑے سامان اور ہولناک خاموشی کے درمیان ایک چشمہ نمایاں تھا جسے نہ جانے کتنے بھاری قدموں نے روند کراُس کا کچومر نکال دیا تھا اوروہ عجیب ٹیرھا میڑھا سا ہوگیا تھا ۔جمہوریت آمریت کوئی نظام نہیں ،نظام صرف طاقت کا ہے یہ ٹوٹا پھوٹا چشمہ ساری کہانی سنارہا تھا ۔#

Short URL: http://tinyurl.com/yd7u5scs
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *