پاک فوج۔ہمارا وقار۔۔۔۔ گل عرش شاہد

Gul Arsh Shahid
Print Friendly, PDF & Email

کہتے ہیں  کہ کسی بھی ملک کی بقاء کی ضامن عوام کا اپنی فوج پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ حالت جنگ میں فوج نڈر ہوکر دشمن کے خلاف ایک آہنی دیوار بن جاتی ہے۔دوران جنگ فوج کا عزم و حوصلہ اسکے ملک کی عوام کی وجہ سے قائم رہتا ہے،جوج وہ ادارہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ بھروسے کرنے کے لائق ہے کیونکہ اسی کے سہارے ملک ترقی کرتا ہے اور عوام اپنے گھروں میں سکون کی نیند سوسکتے ہیں۔دنیا بھر میں فوج کا ایک اہم کردار ہوتا ہے،یہی وہ ادارہ ہے جو حالت امن میں ملک کی سالمیت کے لئے خود کو ناقابل تسخیر بناتا ہے اور حالت جنگ میں اپنے ملک کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتی ہے۔

پاکستان ان ممالک کی صف میں آتا ہے جن کی افواج نہایت ہی دلیر اور بہادر ہے۔پاکستان پر اﷲکا خاص فضل ہے تبھی یہاں کی مائیں ایسے بیٹے پیدا کرتی ہیں جو ملک کی سالمیت کی خاطر اپنے جسم کا ایک ایک حصہ کٹانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔اس ملک کے فوجی نہ تو سندھی ہیں،نہ پنجابی،نہ پٹھان،نہ مہاجر،نہ بلوچ،یہ صرف پاکستانی ہیں اور پاکستان کی بقاء کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
جب جب دشمن نے اپنے ناپاک قدم پاک سر زمین پر رکھنے کی کوشش کی ہے پاک فوج نے دلیری اور شجاعت کے ایسے جوہر دیکھائے ہیں کہ دنیا ہی دنگ رہ گئی ہے۔پاکستان دنیا کی دو عظیم سوپر طاقتوں سے چھین کر لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے،جب پاکستان بنا تو ہماری فوج کے پاس برطانوی سامراج کا استعمال شدہ اسلحہ تھا،وہ اسلحہ جو شاید اپنی میعاد بھی پوری کرچکا ہو، اس کے برخلاف ہمارے ابدی دشمن بھارت کو برطانیہ کا خاص آشیرباد حاصل رہا۔اس کی واضع مثال مسلم اکثریتی علاقوں کا بھارت میں ضم کیا جانا اور پھر کشمیر پر بھارتی جارحیت کے دوران جنرل گریسی کا وہ جملہ جب قائد اعظم نے جنرل گریسی کو کشمیری بھائیوں کی مدد کرنے کا حکم دیا تو اس نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ہمیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں ،آپ سب جانتے ہی ہونگے کہ جنرل گریسی کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔پاکستانی فوج نے اسکے بعد پھر اپنی مدد آپ کے تحت خود کو تیار کیا، ابھی پاکستان کو بنے انیس سال ہی ہوئے تھے کہ انڈیا نے رات کی تاریکی میں گیدڑوں کی مانند پاکستان پر حملہ کردیا،یہ ۶ستمبر 1965کی رات تھی ،رات کے اندھیرے میں پاکستانی عوام سکون کی نیند سو رہی تھی کہ اچانک بھارت نے حملہ کردیا ،کہتے ہیں لاہور کی فضا نعرۂ تکبیر اﷲاکبر کے نعروں سے معطر ہوگئی تھی۔پاکستان کی بہادرفوج نے اپنے سے پانچ گنا بڑی اور جدید اسلحے سے لیس بھاری جن کو قابو میں کیے رکھا، اگلی صبح پاکستان کے اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ریڈیو پاکستان پر باقاعدہ جنگ کا دبل ان الفاظ کے زریعے بجایا کہ بھارت نے اس لاالہ الاﷲ کہنے والی قوم کو للکارا ہے ۔دشمن کے فوجی جرنیل نے یہ بھڑک ماری تھی کہ صبح کا ناشتہ وہلاہور جیمخانہ میں کریں گے،مگر کلمۂ طیبہ پڑھنے والی اس قوم کی مدد اﷲفرمارہا تھا،دنیا دیکھ رہی تھی کہ آخر یہ کون ہیں جو دیوانہ وار اپنے سے کئی گنا بڑی فوج پر لپک رہے ہیں،شہادت کی آرزو لئے یہ فوجی مقتل کی طرف جارہے تھے ،یہی وہ عظیم جذبہ ہوتا ہے جو مسلمانوں کی میراث ہے اور اسی جذبے کی وجہ سے دنیا پر مسلمانوں کا ایک رعب آج بھی موجود ہے۔بقول ایک روسی جرنل،کہ مسلمان وہ قوم ہے جو جنگ کے میدان میں دشمن کو قتل کرنے کے ارادے سے نہیں بلکہ خود مرجانے کے ارادے سے جاتی ہے، اور فوج خود مرنے کے ارادے سے جنگ کرتی ہے اسے تو دنیا کی کوئی طاقت روک ہی نہیں سکتی۔انڈیا جو اپنی طاقت کے نشے میں دھت تھا سترہ دن تک اپنی موت کو خود دیکھتا رہا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ حملہ کرنے والی فوج نے اقوام متحدہ میں جاکرہاتھ پاؤں جوڑکر رونا شروع کردیا کہ کسی بھی طرح سے ہمیں بچاؤ،واہ رے بھارتیوں کیا بہادری تھی تمھاری۔
پاکستانی فوج کی اس شجاعت نے اس جنگ میں دنیا کو یہ پیغام دیدیا کہ بھلے پاکستان کے اندر کتنے ہی اختلافات ہوں ، آپس میں کتنی مرضی عداوتیں ہوں، لیکن اس پاک سر زمین کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ پھوڑدی جائے گی۔پھر پاکستانی فوج نے وہ وقت بھی دیکھا جب 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ۹۰ ہزار فوجیوں نے ایک غدار سیاستدان کے عمل کی وجہ سے کفر کے آگے ہتھیار ڈالدیئے،اور قید سلاسل اختیار کرلی اور پاکستان دولخت ہوگیااور مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ابھی یہ زخم پوری طرح سے بھرا نہیں تھا کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ڈرانا چاہا،اور ساتھ ہی 1984ء میں سیاچن گلیشئر پر حملہ کرکے پاکستانی چیک پوسٹ پر قبضہ جمالیا اس دوران ایک اور جنگ ہوئی۔پاکستانی فوج نے دنیا کے سرد ترین محاز پر بھی اپنی روایت کو برقرار رکھا اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔اور ساتھ ہی پاکستان نے قسم کھالی کہ بھلے گھاس کھا لیں گے مگر اپنے ملک کی سالمیت کی خاطر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔آخرکار 28مئی1998 کو میاں محمد نواز شریف نے نہایت دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے امریکی اور یورپی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو یہ پیغام دیدیا کہ ہاں آجاؤ،ہم اب تیار ہیں۔دنیا میں خوف کی ایک لہر ڈور گئی کہ جو ملک سوئی تک نہیں بنا سکتا تھا آج اس نے ایٹم بم بنا لیا ہے یہ بم اسلامی بم کے نام سے مشہور ہوگیا،دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی قوت پاکستان عالم کفر کے لئے موت کا سندیسہ لے آیا تھا جو سب کے لئے خوف کہ علامت بن گیا،بھارت کی نیندیں اڑگئی کہ پاکستان کی فوج ہی انہیں اپنی موت لگتی تھی اور اوپر سے یہ ایٹم بم آگیا اب تو کچھ کرنا ہوگا ورنہ پاکستان دنیا پر حکومت قائم کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔لہذا ایک گیم پلان کیا گیا کہ پاکستان پر معاشی پابندیاں لگادی جائیں ،مگر آفرین ہے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا کہ جس نے پاکستان کو اس وقت مدد کی جب دنیا نے بائیکاٹ کردیا تھا۔پاکستان فوج پر طرح طرح کے اوچھے الزامات لگائے گئے،کبھی پاکستانی فوج کو ہی دہشتگرد قرار دے دیا جاتا ہے تو کبھی دہشتگردوں کی مدد کرنے کا الزام دے دیا جاتا ہے، تو کبھی غیرپیشہ ورانہ کاروائیوں میں ملوث کردیا جاتا ہے۔پاکستان نے ایٹمی قوت تو حاصل کرلی مگر الزام یہ بھی دے دیا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کرنے کی اہل نہیں ہے۔اقوام متحدہ کے تحت بین الااقوامی امن فوج میں بھی پاک فوج کی کارکردگی نمایا ں رہی ہے۔افریقی ممالک میں جاری خلش کے دوران پاکستانی افواج نے وہاں امن کے قیام کے لئے بے پناہ خدمات سر انجام دی ہیں اور اس بات کا اعتراف خود اقوام متحدہ بھی کرچکی ہے۔مئی ۱۹۹۸ ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں پاکستان نے بھارت کو لگام دینے کے لئے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کیا،عین اس وقت جب چاغی میں ہمارے سائنسدان اپنی محنت کا نمونہ دیکھنے جمع تھے تو اطلاعات کے مطابق سرینگر ائیر پورٹ پر اسرائیلی F16طیارے حملہ کرنے کی طاق میں موجود تھے اس کے جواب میں پاکستان ائیر فورس کے میراج طیاروں کو پرواز کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا کہ فیول ختم ہوجائے لیکن آپ نے واپس زمین پر اس وقت تک نہیں آنا جب تک مشن مکمل نہ ہوجائے اور آفرین ہے ہماری فضائیہ پر کہ ملک سے محبت کا بے مثال ثبوت دیا اور پاکستان کے ایٹمی تجربات کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچ جانے تک چین کا سانس نہ لیا ۔اسی جذبۂ نے دنیا میں پاکستانی فوج کو ایک نہایت بہادر،نڈر اور ناقابل تسخیر فوج بنا دیا ہے، یہ اﷲ ہی کا خاص فضل ہے اس پاک دھرتی پر کہ یہاں مائیں ایسے بچے پیدا کرتی ہیں جو وطن عزیز کی خاطر سر کٹانے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔مگر پھر وہی بیٹے ناامیدی کی کیفیت میں آجاتے ہیں اور پریشان ہوجاتے ہیں جب ان ہی کے ملک کے لوگ ان پر طعنے کستے ہیں،ایک ڈکٹیٹر کے عمل کی وجہ سے پوری فوج کو غدار سمجھ لیا جاتا ہے تو ایسے میں ان فوجیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔وہی فوج جو دشمن کی موت کا فرمان لکھتی ہے اپنے ملک کے لوگوں کے الزاموں کو سن کر اداس بھی ہو جاتی ہے، ہمیں تو چاہئیے کہ ہم اپنی فوج کا حوصلہ بڑھائیں نہ کہ ان کے حوصلوں کو بے بنیاد الزاموں کی وجہ سے پست کریں۔پاکستان کو فوج دشمنان دین و ملک سے برسرپیکار ہے اور ہمیں ان کی ہمت بننا چاہئے نہ کہ پیٹھ پیچھے خنجر گھونپنا چائیے۔
یہ کیسا انصاف ہوا کہ دشمن ملک حملہ کردے تو پاک فوج لڑے،آٹھ اکتوبر کا زلزلہ آجائے تو پاک فوج کی یاد آجائے،کوئی اور قدرتی آفات آجائے تو پاک فوج کی مدد درکار ہوجاتی ہے، کراچی کے حالات خراب ہوجائیں تو پاک فوج سے مدد کی اپیل کی جاتی ہے، الیکشن ہوں تب بھی پاکستانی فوج حفاظتی امور سرانجام دیتی ہے،پاکستان ایک عجب ہی ملک ہے جہاں فوج ایک واحد ادارہ ہے جو کسی بھی مشکل وقت میں سب سے آگے نظر آتی ہے اور پھر جب وہ مشکل حل ہوجائے تو اسی فوج کو تنقید کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔اس کی واضع مثال کارگل وار میں ملتی ہے کہ جب پاکستان فوج دشمن کے پرخھچے اڑا رہی تھی تب تو وہ نہایت بہادر اور بہترین فوج تھی مگر جیسے ہی جنگ ختم ہوگئی تو اسی بہادر فوج کو نہ جانے کیا کیا سننا پڑا۔پھر امریکہ نے پاکستان پر حملے کی دھمکی دی تو پاکستانی فوج نے بھرپور انداز میں دشمن کو دیکھا مگر پاکستانی عوام بالخصوص ہمارا حکمراں ٹولہ اور صحافتی دنیا کے چند شاہاکاروں نے پاک فوج کا حوصلہ یہ کہہ کر توڑنا چاہا کہ ہم امریکہ کے آگے چند گھنٹے بھی ٹک نہ پائیں گے۔ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس وقت فوج کو سپورٹ کرنا چائیے تھا مگر ہم ایسا نہ کرسکے اور پھر ہم نے فوج پر اپنی تنقید کے تیر برسانے شروع کردیے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا نہیں کہ ہم نے اس ملک کے لئے کیا کیا بس منہ اٹھا کر اپنی فوج پر حملے شروع کردیتے ہیں،ہم سب جانتے ہیں کہ فوج اپنے اسلحے کی بنیاد پر آج تک جنگ نہیں جیتی ، فوج کی جیت اس کی عوام کی سپورٹ پر مبنی ہوتی ہے۔
میرے لیے پاکستان کی فوج میری بقاء کی ضامن ہے،آج میں اپنے گھر میں سکون کی نیند سوتا ہوں کیونکہ مجھے اﷲ کی ذات پر اور اپنے ملک کی فوج پر بھروسہ ہے۔ہم سکھ کی نیند سوتے ہیں کیونکہ وہاں سرحدوں پر ہماری فوج جاگ رہی ہے،آج دنیا پاکستانی فوج سے خوفذدہ ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ پاکستان کی فوج عالم کفر کے لئے اﷲ کا عذاب ہے۔آج دنیا جان گئی ہے کہ پاکستان کی فوج دنیا میں مسلمانوں کے خاتمے کے کفریہ مشن کی راہ میں سب سے اہم اور سخت رکاوٹ ہے تبھی تو افغانستان میں امریکہ اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو قرار دے رہا ہے ۔ایسے میں ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ پاک فوج کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ہمت بڑھائے اور ملکی مفاد کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کو ترک کردے،کیونکہ یہ فوج ہی ہے جسکی وجہ سے آج پاکستان سلامت ہے ورنہ ہمارے حکمرانوں نے تو کب کا یہ ملک ہی بیچ دیا ہوتا۔ہمیں اپنی فوج پر ناز ہونا چائیے، اﷲ کرے کہ رہتی دنیا تک پاکستان سلامت رہے اور ہماری فوج اس ملک کی حفاظت کرتی رہے،پاکستان کی فوج کا ہر ہر سپاہی دین کی خاطر اپنی جان دینے کو سستا سودا سمجھتا ہے ، وہ سودا جو اﷲ سے کیا جاتا ہے اپنی جان کے بدلے جنت کا سودا۔پاکستانی فوج شہادت کی آرزو لئے میدانوں میں اترتی ہے اور یہی آرزو ہر مشکل وقت میں حوصلہ دیتی ہے کہ ڈرو مت، منزل بس چند قدم اور ہے اور ہمارا فوجی اس آواز پر لبیک کہتا ہے۔
یہ وقت مصلحت پسندی کا شکار ہونے کا نہیں ہے، نہ ہی کسی ملک دشمن عناصر یا ادارے کے آگے سر جھکانے کا ہے، یہ وقت ہمیں اپنی فوج کو مضبوط کرنے کا ہے تاکہ دنیا کو ایک پیغام دیا جاسکے کہ بھلے اندرونی طور پر ہمارے درمیان لاکھوں اختلافات ہیں مگر جب بھی بات ملک اور دین کی آئے گی تو ہم سب ایک ہیں۔ہم پنجابی،پٹھان،مہاجر،سندھی،بلوچی بعد میں ہیں ،اورہم پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔اﷲ سے دعا ہے کہ پاکستانی فوج کو دشمن کے لئے موت کا فرمان بنا دے اور پاکستان کو دن دگنی رات چگنی ترقی دے ۔آمین
پاک فوج ذندہ باد۔۔۔پاکستان پائندآباد

Short URL: http://tinyurl.com/zqpgavn
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *