پاکستان اور ہم سب کی ذمہ داریاں
تحریر : راحت جبین ،کوئٹہ
پچھلے د نوں مجھے اپنی فیملی کے سا تھ آدھے سے زیادہ پاکستا ن کی سیا حت کا موقع ملا اور میرا پاکستا ن کیسا ہے؟ دیکھنے کو ملا۔ میری سیاحت کا آغاز بلوچستان میں اپنے ہی ایک انتہائی پسما دہ ترین ضلع آواران سے ہوا۔ جہاں آبادی کا ننانوے فیصد حصہ مٹی کے بنے ہوے یا پھر لکڑی کے بنے ہوے گھروں میں رہتا ہے۔ جہاں کے لوگ بجلی،گیس،صاف پا نی،اسکول اور پختہ سڑکیں دیکھنے کو ترستے ہیں۔ راستے میں مجھے کئی جگہ کیچڑ سے آلودہ اور گندے کپڑوں میں ملبوس بچے بکریاں چراتے دکھائی دیئے۔ اسکول کے وقت کہیں کہیں رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس بچے درختوں کے سائے تلے بیٹھے برائے نام اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے نظر آئے۔ کہیں کہیں بغیر چار دیواری کے گھروں کے نزدیک گندے اور پھٹے پرا نے روائتی کپڑوں میں ملبوس عورتیں لکڑیاں جمع کرتی نظر آئیں۔ ساتھ ہی کھلے گھر ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں لکڑیاں پھو نک پھو نک کر کھانا بنا تی عورتیں بھی نظر آئیں۔ گاؤں سے نسبتا دورایک ہینڈ پمپ نظر آیا جہاں عورتیں لمبی لائن میں لگی اپنی اپنی باری کا ا نتظار کر رہی تھیں۔ تاکہ تھوڑے بہت پا نی سے گھر کی ضروریات ز ندگی پوری کرسکیں۔ جبکہ کہیں بارش کی وجہ سے کھڑے پا نی میں بچے نہاتے نظر آئے اور کچھ خواتیں اسی پانی سے کپڑے بھی دھو رئی تھیں ۔ پا نی، بجلی،گیس، تعلیم، گھر اور باقی ضروریات ز ندگی سے بے نیازسب کی ایک الگ اپنی د نیا تھی۔ یہ منظر دیکھ کر دل اندر سے بہت زیادہ دکھی ہوا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب اکیسویں صدی کے لوگ نہیں ہیں بلکہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں ۔ اور انہیں سزا کے طور پر ان حالات میں رکھا گیا ہے۔ دکھی دل کے ساتھ ہم آگے بڑھے ۔ٹوٹی پھوٹی سڑک سے گزرتے ہوئے راستے میں سنگلاخ پہاڑ جو کہ اپنے ا ندر گیس، تیل، سو نا، کرومائیٹ اور دیگردوسری کئی بیش بہا خزا ے چپائے ہوئے نظر آئے ۔لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اپنے ارد گرد غریب اور لاچار لوگوں کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہوں ۔حب کے نزدیک ٹھاٹیں مارتا ہوا خوبصورت سمندر تا حد نگاہ دکھائی دیا۔سمندر کی وسعتوں کے ساتھ ساتھ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس اپنے مستقبل سے مایوس اور نا امیدی کے سائے تلے ماہی گیر مچھلیاں پکڑ ے میں مشغول نظر آئے۔ یہ منظر جہاں خوشگوار تاثر دے گیا مگر اپنے اندر مجبور اور لاچار لوگوں کا درد بھی سمیٹے ہوئے تھا ۔ ہم دکھ اور خوشی کے ملے جلے تاثر سمیت سندھ کی حد ود میں داخل ہوگئے۔ کراچی میں آمد کے ساتھ ہی پاکستان ترقی یافتہ اوربہتر لگا۔ اور دل کو جو ٹھیس بلوچستا ن کی سرزمیں بسی بے بسی کو دیکھ کر ہوئی اس میں کچھ حد تک کمی ہوئی کراچی کے بلند وبالا عمارات، پختہ سڑکیں بڑی بڑی فیکٹریاں،اسکول، ہاسپیٹل اور بڑے شاپنگ سینٹرز دکھائی دئے ۔ یہاں زندگی بہت تیزی سے آگے رواں دواں تھی۔ یہاں کی راتیں بھی روشن اور خوشگوار تھیں۔ اگلے دن دوبارہ سفر شروع کیا جب ا ندرو ن سندھ میں داخل ہوئے تو یہاں کے زیادہ تر باسیوں کی معاشی حالت بلوچستان کی طرح ہی تھی ۔ بجلی یہاں اگر ناپید نہیں تھی تو مسلسل بھی نہیں تھی یہ دیکھ کر دکھ ضرور ہوا۔ البتہ قدرتی حسن جو کہ بلوچستا ن کے بلند و بالا کوہساروں اور سمندر کی بھپرتی لہروں میں ملا وہ یہاں کہیں کہیں ہر سو چھائی ہوئی ہریالی، پھل دار درختوں ،نہروں اور دریا میں دکھائی دیا۔ پنجاب کی سر زمین میں داخل ہونے کے ساتھ ہی خوشگوار احساس ابھرا خو بصورت اور کشادہ سڑکیں اور اسکے دو نوں جا ب درختوں کی قطاروں نے سفر کو دلفریب کردیا۔ اوراس د لفریبی میں مذید اضافہ ہوتا گیا جب قدرتی حسن سے مالا مال اسلام آباد مری، کاغان ، ناراں،کالام، جھیل سیف الملوک،لالہ زار،آزاد کشمیر میں جھیل نیلم اور شاردرہ جیسے کئی دوسرے خوبصورت مقامات دیکھنے کو ملے ۔ یہ سب دیکھ کر دل خود بخود اللہ تعالی کی حمد وثنا کر ے لگا۔ کہیں درختوں کے بڑے بڑے جنڈ دل لبھاتے تو کہیں بادل اور بارشوں کی تیز بو ندھیں دل موہ لیتیں۔ کہیں آبشار اور سڑکوں اور پہاڑوں کے بیچ بہہنے والے دریا کی موجیں اپنے حسن میں ڈبوتیں، تو کہیں بادلوں کے بیچ اپنا چپتا ہوا وجود ہی بے خود کرتاہے۔
یہ قدرت کے وہ حسین شاہ کار ہیں جن کی تعریف نہ کرنا رب کائنات کی نعمتوں کی سراسر ناشکری ہوگی ۔ہم اپنے خوبصورت پاکستان کی خوبصورت اور دلفریب تصاویر دل میں بسا کر واپس آئے اور رب عالیشا ن کے شکر گزار ہوئے کہ اس نے ہمیں ہماری اوقات سے بڑھ کر دیا ہے ۔ابھی اس خوشی کا خمار بھی نہیں اترا تھا کہ لاہور میں بچوں کے مسلسل اغوااور کوئٹہ کے اسپتال میں خود کش حملہ کا ایک ا نتہائی دلخراش واقعہ رو نما ہوا۔ جس نے ہماری روحوں کو جھنجوڑ ڈالا۔اس میں سو کے قریب لوگوں کے گھر اجڑ گئے۔ پل بھر میں ا ن کے بچے یتیم اور عورتیں بیوا ہوگئیں۔ اور یہیں سے میرے ذہن میں بنا ہوا نقشہ بالکل بدل گیا۔اور مجھے پاکستا ن میں ہو نے والے کئی سفاک واقعات تسلسل سے یاد آ ے لگے ۔سو بچوں کی لاشوں کو تیزاب میں ڈالنے والا بے حس شخص، کراچی کے سفاک نامعلوم قاتل، کوئٹہ میں ہزارا قبیلے کا سو لاشوں کے ساتھ احتجاج،توتک میں سو سے زیادہ اجتمائی لاشوں کا ملنا ،مستو گ میں کھیل کے میدا ن میں بکھرا خون ،کوئٹہ میں طالبات کی دھماکے سے جلی ہوئی بس،آرمی پبلک اسکول کے احاطے میں دو سو کے قریب معصوم بچوں کا بہتا ہوا خون ، روزانہ بلوچستا ن سے ملنے والی مسخ شدہ لاشیں،معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور سفاکانہ قتل ،لوگوں کا غربت سے تنگ آکر گردے بیچنا ،نوجوانوں کا بے روز گاری سے تنگ آکر خودکشی کرنا ، بھکاریوں کی بھر مار ،اسپتالوں اور اسکولوں کو کاروبار بنانا ، ناانصافی کی بدولت ماوروئے عدالت قتل ،دن دھاڑے گھروں میں ڈاکہ ،سٹریٹ کرائمز کا بڑھ جانا ، سیاستدانوں کی لوٹ مار ۔ اور سب سے بڑی بات روزانہ گدھوں اور کتوں اور دوسرے مردار جا وروں کاعوام کو کھلایا جانے والا گوشت۔
اگر ایک طرف پاکستا ن کا قدرتی حسن ،اس کے چار موسم،،وسائل، پھل، پھول، دریا، سمندر، آبشاریں ،نہریں، جھیل،برف پوش پہاڑ ، گلیشیئرز ا ور ان سے بہنے والے چشمے، خوبصورت بادل اور بارش مجھے مغرور کر رہے تھے کہ یہ ہے میرا پاکستان ، اس میں وہ سب کچھ ہے جس کے لیے د نیا ترستی ہے، اور یہی میرا فخر ہے۔ تو دوسری جا ب بھوک، افلاس، پینے کے پا نی کی کمی، ناخوا ندگی،لاقا نو یت، کرپش ، بد امنی،،دہشت گردی،اسلام اور غیرت کے نام پر قتل و غارت گری،خون کی ہولی، لاشوں کے ا نبھار،دو طبقاتی نظام،بنیادی ضروریات ز ندگی کو ترستا ہوا ا نسان ،پاکستان کا قرض میں ڈوبا ہر بچہ،صحت کی سہولتوں کا فقدا ن۔ تعصبا نہ طرز نظام،وی آئی پی کلچر، لولی لنگڑی جمہوریت، بھکاری حکمرا ن، غربت سے نچلی سطح پہ ز ندگی گزار ے والی ز ندہ لاشیں اور سب سے بڑھ کر حکمران طبقے کی بے حسی ۔ یہ ہیں پاکستا ن کی چند چیدہ چیدہ تلخ حقیقتیں جن کو دیکھ کر رونا آتا ہے،کہ کیا یہ ہے میرا پاکستان ؟؟؟جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھااور جس کے لئے مسلما وں نے عظیم قربا یاں دیں۔ اور بڑی تگ و دو کے بعد قائد اعظم کی سر پرستی میں حاصل کیا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج ملک میں جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ قابل تذلیل ہے کیو نکہ کسی بھی ملک میں پاکستا ن کی شخصیت کے ساتھ کئی سوالیہ نشا ن بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ قائد اعظم نے پاکستا ن بننے کے بعد کہا میں اپنا کام پورا کر چکا ہوں قوم کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی ہے ۔ اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اسے تعمیر کرے۔ اگر سچے دل سے اور خلوص نیت سے کوشش کی جائے تو تبدیلی ممکن ہے اوریہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم پاکستان کو ویسا بنائیں جیسا ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں چند اصطلاحات اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوگی تاکہ ہم معاشرے میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت عزت اور اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں اور دوسری ترقی یافتہ قوموں کے شا نہ بشا نہ چل سکیں۔اس کے لئے چند قابل عمل نقاط درج ذیل ہیں۔
تعلیم۔ سب سے پہلے تعلیم کے شعبے میں اصطلاحات کی ضرورت ہے کیو نکہ تعلیم کے شعبے میں آگے بڑھ کر ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ تعلیم سب بچوں کے لئے لازمی قرار دی جائے۔ اور آج کل جودو طبقاتی اور وی آئی پی نظام تعلیم ہے اس نے تعلیم کوبھی براہ راست متاثر کیا ہے۔اس نظام کو مکمل طور پر ختم کرکے یکساں تعلیمی نظام رائج کرنا چاہہئے تا کہ لوگوں کے اندر جو احساس محرومی بڑھ رہی ہے اسے کم کیا جاسکے اور ا فرادی قوت کو اسی طرح یکجا کر کے ترقی کی سیڑھی چڑھی جا سکتی ہے تعلیم سے متعلق یہ بھی ضروری ہے کہ مدرسوں کوڈی گریڈ کر نے کے بجائے ا نہیں رجسٹر کرکے گور نمنٹ اپنی تحویل میں لے۔اور اگر ممکن ہوسکے تو مدرسوں کو بھی یکساں تعلیمی نظام کا ہی حصہ بنایا جائے۔تاکہ مستقبل میں کسی بھی ممکنہ مذہبی دہشت گردی سے بچا جا سکے۔ بلکہ قرآن پاک ، اسکا ترجمہ اور تشریح کو بارویں جماعت تک کورس کا حصہ بنانا چاہئے
انصاف۔ ناانصافی ،پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپش ، لاقا نونیت،بد امنی ، دہشت گردی، قتل وغارت گری کی روک تھام ک لئے ا نتہائی ضروری ہے کہ ناانصافی کا خاتمہ ہو۔ کیو نکہ نا انصافی اور طبقا تی نظام ہی پاکستا ن کی غیر مستحکم صورت حال کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ کیو نکہ پاکستان میں غریب کے لئے قانون الگ ہے اور امرا، جاگیر دار سرمایاکار اورحکام اعلیٰ کے لئے الگ۔ غریب روٹی چرا کر جیل میں زندگی بھر چکی پیستا ہے اور امیر بڑے سے بڑاجرم کرکے بھی آزاد گھومتا ہے۔حکومت کو اس مد میں خلوص دل سے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اورسب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہئے۔
وہ روٹی چرا کر چور ہوگیا
لوگ ملک کھا گئے قانون لکھتے لکھتے
اسلام کا نفاذ۔ پاکستا ن حاصل کر نے کی سب سے بڑی وجہ دو قومی نظریہ تھا۔ مگر پاکستا ن برائے نا م ہی اسلامی جمہوریہ پاکستا ن ہے۔ مگر اب وقت کی اہم تری ضرورت صحیح معنوں میں اسلام کا نفاذ۔ اور اسلامی اصولوں کی پاسداری ہے۔ کیو نکہ لاقانو نیت کی ایک بڑی وجہ اسلام سے دوری بھی ہے۔ بنیادی سہولیات زندگی۔ جیسے کی پینے کا صاف پا نی، بجلی، اسپتال، اسکول، سڑکیں وغیرہ ہر پاکستا نی کا حق ہیں اور ا ن تک عام آدمی کی رسائی ممکن بنانا حکومت کی اولیں ترجیح ہونی چاہئے۔بے روزگاری کا خاتمہ۔ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ بھی پاکستا ن کی ترقی اور استحکام کے لئے ا نتہائی ضروری ہے کیو نکہ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ملک میں پھیلی ہوئی دہشت گردی، بد امنی، قتل وغارت گری او ر انارکی کی جو صورت حال ہے وہ بے روزگاری کی ہی مرہو ن منت ہے۔ بھوک اور افلاس سے مجبور لوگ مجبورا غلط ہاتھوں کا آلہ کار بنتے ہیں۔ اور اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ اگر حکومت ہر علاقے میں وسائل اور ضروریات کو مد نظر رکھ کر مختلف قسم کی فیکٹریوں کا قیام عمل میں لائے تو ایک طرف مقامی لوگوں کو روزگار ملے گااور وہ غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ جائیں گے۔ تو دوسری جا ب پاکستان کی معشیت پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا۔ حقیقی جمہوریت کا نفاذ۔ جی ہاں جمہوریت تو پاکستا ن میں اب بھی ہے مگر لولی لنگڑی ہے اس لئے جمہوریت کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذالعمل کر نا چاہئے۔ تاکہ ملک کی ترقی کی راہ میں حائل مشکلات کا آسا نی سے مقابلہ کیا جا سکے اور ملک کی ترقی کے لئے صحیح ترمیمات لائی جاسکیں۔اس مد میں یہ بھی ضروری ہے کہ صوبوں کو اپنے وسائل پر مکمل اختیار ملے ،مگر چیک اینڈ بیلینس کے ساتھ۔
اور سب سے اہم بات جو ایک ملک کی ترقی کے لئے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے وہ ہے ا فرادی کاوشیں۔ہم ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود کو بری لذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ ہر فرد اگر اپنے ا ندر قومی جذ بہ خلوص اور احساس ذمداری پیدا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم وہ پاکستا ن حاصل نہ کر سکیں جس کا خواب علامہ اقبال ے دیکھا ۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
Leave a Reply