وقت کی آواز اور تاریخ کا سبق۔۔۔۔ محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

سلطان ملک شاہ اصفہان کے جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ دوران شکار کسی گاؤں میں قیام ہوا۔ گاؤں کے باسیوں میں ایک غریب بیوہ اپنے تین بچوں کے ہمراہ رہائش اختیار کئے ہوئے تھی ۔اس بیوہ کے پاس کل جمع پونجی ایک گائے تھی جس کے دودھ پر اس کے تینوں بچوں کی پرورش کا انحصار تھا۔ سلطان کے لشکریوں کے اندر نجانے کہاں سے پنجاب پولیس کی روح حلول کر گئی۔ انہوں نے گائے کو ذبح کیا اور خوب کباب اڑائے۔ غریب بڑھیا کو جب خبر ہوئی تو وہ بد حواس ہوگئی ۔ لشکریوں کے اس نا مناسب فعل پر کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ تھا۔ کسی نے لاوارث بیوہ کی فریاد نہ سنی ۔ بے چاری نے تمام رات پریشانی میں کاٹی ۔ صبح ہوئی دل میں خیال آیا کہ کوئی نہیں سنتا تو نہ سہی کیا بادشاہ بھی نہ سنے گا وہ بادشاہ جس کو اللہ نے غریبوں کو ظالموں سے نجات دینے کے لئے اتنی بڑی سلطنت دی ہے۔ بڑھیا نے بادشا ہ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ۔ معلوم ہوا کہ بادشاہ فلاں راستے سے شکار کو نکلے گا۔ چناچہ وہ اصفہان کی مشہور نہر کے پل پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ شائد اس زمانے میں وی آئی پیز کے لئے روٹس کو کلیئر کروانے کا رواج نہیں تھا۔ جب سلطان پل پر آیا تو بڑھیا نے ہمت اور جرات سے کام لے کرکہا \”اے الپ ارسلان کے بیٹے ! میرا انصاف اس اصفہان کی نہر کے پل پر کرے گا یا پل صراط پرجو جگہ پسند ہو انتخاب کرلے\” ۔بادشاہ کے درباری بڑھیا کی بے باکی دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ بادشاہ گھوڑے سے اتر پڑا اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوتا تھا کہ بڑھیا کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز سوال کا اس پر بڑا اثر ہواہے۔بڑھیا سے مخاطب ہوا \”پل صراط کی طاقت نہیں ہے میں اسی جگہ فیصلہ کرنا چاہتا ہوں کہو کیا کہتی ہو\”۔ بڑھیا کی ہمت بڑھی اور اس نے اپنا سارا قصہ بیان کردیا۔ بادشاہ نے اپنے لشکریوں کی ظالمانہ حرکت پر افسوس کا اظہار کیا اور نہ صرف ایک گائے کے عوض اسے ستر گائیں دلائیں بلکہ مالا مال بھی کردیا ۔ اس سلوک کے بعد جب بڑھیا نے کہا \”تمہارے عدل و انصاف سے میں خوش ہوں اور میرا اللہ بھی خوش ہے \”۔تب بادشاہ گھوڑے پر سوار ہوا ۔ ملک شاہ سلطان الپ ارسلان سلجوقی کا بیٹا تھا ۔ نیشا پور اس کا دارالحکومت تھا۔ وہ 15شوال 488ہجری کو 37سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ دولت سلجوقیہ کے عروج و اقبال اور عظمت وجلال کا سورج اس کے انتقال کے ساتھ ہی غروب ہوگیا ۔اس کے بعد دولت سلجوقیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔
کیا زمانہ تھا وہ کہنے والے تو آج کے دور میں بھی ویسے جرات مند ہیں لیکن سننے والے عالی حوصلہ نا پید ہوگئے ہیں ۔ اگر ہم ایک لمحے کے لئے تصور کریں کہ قادری صاحب بڑھیا کی جگہ لے لیں اور میاں صاحب تو ہمارے بادشاہ سلامت کی جگہ براجمان ہیں ہی تب بھی شائد موجودہ بحران کا کچھ حل نکل آئے۔ لیکن بہت سی مشکلات ہیں جن کی وجہ سے مسئلہ اب تک حل نہیں ہوا۔یہاں قادری صاحب اپنی جان کی امان نہ پاتے ہوئے پنجاب پولیس کی دہشت کے پیش نظر کنٹینر میں بند ہیں ورنہ تو ہمارے ملک میں نہریں بھی بہت ہیں اور سلطانی قافلے بھی روزانہ لشکریوں سمیت گزرتے رہتے ہیں اگر قادری صاحب کسی پل پر کھڑے ہو بھی جائیں تو اول تو اس سے پہلے ہی غائب کر دیئے جائیں گے۔اگر کسی طرح غائب نہ بھی کئے گئے تب بھی ان کا اپنی بات ہزاروں لشکریوں اور سیکڑوں گاڑیوں کی موجودگی میں بادشاہ حضور کو سناپانا محال ہے ۔ وہاں معاملہ محض ایک گائے اور غریب بڑھیا کا تھا اور یہاں معاملہ پاکستان عوامی تحریک کے درجنوں کارکنوں کے دن دیہاڑے قتل عام کا ہے اگر ملک شاہ چند دن میاں صاحب کی صحبت میں رہا ہوتا تو اسے یقیناًپل پہ بڑھیا کے سخت جملے نہ سننا پڑتے اول تو اس کے لشکری پل تک پہنچنے سے پہلے ہی بڑھیا کو لا تعداد پرچوں ،کار سرکار میں مداخلت کے جرم میں حوالات کی نظر کر دیتے ۔پھر بھی بفرض محال اگر بڑھیا پل پر دھرنا دینے میں کامیاب ہوجاتی تو بادشاہ سلامت کا قافلہ کبھی نہ رکتا قافلہ اگر رک بھی جاتا تو بڑھیا کی گستاخی اور سخت جملوں کے بعد تو یقیناًبادشاہ کے لشکری بڑھیا کو بھون ڈالتے جیسا کہ ماڈل ٹاؤن کے نہتے عوام کے ساتھ کیا گیا۔ ان کا جرم کیا تھا شائد کچھ بھی نہیں۔شکر ہے کہ اس بڑھیا نے ہمارے بادشاہ سلامت کے سامنے ایسی گستاخی نہیں کردی اور وہ بھی محض ایک گائے کے عوض۔ ہمارے بادشاہ سلامت کی پنجاب لشکری پولیس نے تو اس دن بندے مارنے زخمی کرنے کے علاوہ کئی دکانوں میں لوٹ مار بھی کی ۔ دکانوں کے ڈیپ فریزر اجاڑ دیئے اور فورس کے سپہ سالار دن دیہاڑے لوٹ مار پر نہ صرف فورس کو شاباش دے رہے تھے بلکہ نگرانی بھی کر رہے تھے پورا دن تماشہ لگا رہا۔ ہم اسے جمہوریت کا حسن قرار دیتے رہے۔ اور اصل مکروہ چہرہ تو جمہوریت کے بعد میں دیکھنے میںآیا کہ پچھلے چالیس دن سے لوگ اسلام آباد میں خیمہ زن ہیں اور بڑی بے شرمی کے ساتھ حکومت ان کی تعداد کی گنتی میں مصروف ہے ۔ ہر حکمران انا اور تکبر کے گھوڑے پر سوار ہے ۔ چہرے پر معصومیت کا ماسک اوڑھے ہوئے ہے ۔ ایسی بے ہودہ حکومت تو خود بخود ختم ہوجانی چاہیے تھی اور ہو کیا رہا ہے کہ سب چور اسے بچانے کے لئے دن رات تڑپ رہے ہیں۔ مذاکرات پر مذاکرات کرنے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے ۔ کیا ہی خوب کہا ہے کسی نے اس سے بے شرم حکومت دنیا میں شائد آج تک نہیں آئی ہوگی۔ پورے خاندان پر اپوزیشن سمیت پورا ملک تنقید کر رہا ہے مگر مجال ہے کہ کسی ایک خاندانی ممبر کو کسی عہدے سے ہٹایا گیا ہو۔ اس ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کے بعد اگر کوئی غیرجمہوری اقدام ہو بھی جائے تو میرا خیال ہے کہ کسی کو کچھ دکھ یا افسوس نہیں ہونا چاہیے۔ مسئلہ چھوٹے کی قربانی کاہے کیونکہ ماڈل ٹاؤن واقعہ کے بعد شائد اب بچنا کافی مشکل ہے اور بڑے میاں اصول اور انصاف کے لفظوں سے ناآشنا ہیں اسی لئے خود بھی قربان ہونے کے انتظار میں ہیں ۔ حکومت اس انتظار میں ہے کہ کوئی آئے اور ہمیں گھسیٹ کر اقتدار سے الگ کردے ۔ یہی ایک واحد طریقہ ہے ان کی فیس سیونگ کا اس کے علاوہ تو تمام راستے بند ہیں۔
حکومت بھلے ہی کوئی جمہوریہ کر رہا ہو یا کوئی بادشاہ ۔ انصاف کا نظام معاشرے کی اساس ہوتا ہے انصاف کے ٹھیکے دار پتا نہیں کہاں جاکر سوئے ہوئے ہیں جن کوپورے ملک نے لڑ جھگڑ کر آزادی دلائی تھی وہ نہ جانے کن مصلحتوں اور مجبوریوں کی چکی میں پسے ہوئے خاموش تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ مسئلے کا حل بہت ہی سادہ سا ہے۔ سانحہ لاہور میں ملوث افراد کا بھلے ہی وہ کوئی بھی ہو سپیڈی ٹرائل کیا جائے اور بلا تفریق سزا دی جائے اور دھاندلی کی بھی فوری تحقیقات کروا کر ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزادی جائے ۔ بات نیت کو ٹھیک کرنے کی ہے نہ کہ ضرورت مذاکرات کی ہے۔ نجانے اس ملک و ملت کا اور کتنا تماشا بناناہے ۔ چند جفادریوں کے سوا ہر پاکستانی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پاکستان بدل چکا ہے اور بدلتے وقت کا جو ساتھ دیتا ہے وہی وقت کے دھارے میں شامل رہتا ہے اور جو کوئی وقت کاضیاع کرتا ہے وقت کے دھارے کے مخالف سفر کرنے کی کوشش کرتا ہے وقت اسے چیر کر رکھ دیتاہے۔ ہمارے مسائل کوئی اتنے بھی گھمبیرنہیں ہیں جتنا کہ ہم نے ڈرامہ بازیاں کرکے بنالئے ہیں۔ امت مسلمہ حقیقی معنوں میں جتنی آج لیڈر شپ کے بحران کا شکار ہے اتنی کبھی نہیں رہی ۔ عمران خان کے تمام الزامات غلط لیکن اثاثوں کی تفصیل کا اعلان کردینے میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر عمران خان ٹی وی پر وزیراعظم صاحب کے اپ کمنگ چار روزہ دورہ کے اخراجات چار کروڑ بتاتے ہیں اور ساتھ ہی برطانیہ کے وزیر اعظم کے دورہ کی تفصیلات بتاتے ہیں کہ کیسے وہ جہاز کی لوئرکلاس میں بیٹھ کر برطانوی دفتر خارجہ کے کمرے میں رہائش اختیار کرکے واپس آجاتے ہیں تو میاں صاحب آپ خان صاحب کو منہ توڑ جواب دے دیں اپنے اندر کے بادشاہ کو کہیں دفن کردیں اور وہی عوامی سٹائل اپنا لیں جس کو خان صاحب نے گوروں کی تقلید میں اپنایا ہوا ہے۔ آپ کی شان میں اضافہ ہی ہوگا کمی ہوجانے کا کوئی چانس نہیں ۔لیکن اس کے لئے آپ کو اپنا تمام نظام اپنی پارٹی اپنی سوچ سب کچھ بدلنی ہوگی۔ لیکن معذرت کے ساتھ آپ آج بھی اپنے دوسرے دور حکومت میں اٹکے ہوئے ہیں۔ آپ کو چیزوں کو ایڈاپٹ کرنے کا عمل خود اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا۔ اپنے لشکریوں کو لوگوں کے مال کھانے سے روکنا ہوگا۔ جرم بھلے اپنے چھوٹے سے کیوں نہ سرزد ہوجائے اسے قانون کے کٹہرے میں لاناہوگا۔ اگر ایک دفعہ آپ نے اپنے اندر کے بادشاہ کو مارکر عوامی لیڈر کو زندہ کرلیا تو پھر آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہ رہے گی۔ حکومت آنے جانے والا کھیل ہے لیکن حکومت میں رہ کر عزت کمانے کا گر چند ہی لوگوں کو آتاہے اور بد قسمتی سے نہ آپ کے اندر یہ خوبی موجود ہے نہ ہی آپ کے کسی ٹیم ممبر کو یہ گر آتا ہے۔ آپ کا ہر ٹیم ممبر بدلتے حالات سے بہت دوراپنے انا کے شملے کو اونچا رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اب سیاست حکومت کرنے کا نام نہیں اب عوام سیاست کو عوامی خدمت سے تعبیر کرتے ہیں۔تسلی کے ساتھ بیٹھ کر اپنی ذات کا جائزہ لیں اگر آپ اپنی ذات کو ان تمام خواص سے بے گانہ پاتے ہیں تو پھر شائد بھرا میلہ عزت کے ساتھ چھوڑ دینے میں ہی بھلائی ہے ۔ زندگی کا کھیل بڑا ہی عارضی ہے آج وہ گیا تو کل اس کی باری ہے ۔ بالاآخر آپ نے بھی موت کا ذائقہ چکھ کر پل صراط پر سے گزرنا ہے ۔ آج پارلیمنٹ کے سامنے پچھلے چالیس دن سے بھوکے پیاسے لوگ آپ سے پوچھ رہے ہیں \”اے میاں شریف! کے بیٹے میاں نواز شریف ! ہمارا فیصلہ اس پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کروگے یا پھر ڈے آف Judgenmentپر خدائے بزرگ و برتر کی پارلیمنٹ میں \”۔وقت کی پکار ہے کہ آپ اپنی انا کے گھوڑے سے اتر کر ان سے مخاطب ہوں کہ\” مجھ میںْ اس پارلیمنٹ میں جواب دہ ہونے کی طاقت نہیں ہے ۔ میں اسی پارلیمنٹ کے سامنے فیصلہ کرنا چاہتا ہوں \”۔پیچھے مڑ کر پارلیمنٹ کی فرنٹ دیوار پر لکھے کلمہ طیبہ کو پڑھیں اور ان کو انصاف دے دیں۔ رہے عمران خان تو ان کامطالبہ بڑا صاف ستھرا ہے ۔ چالیس دن میں تو اب تک تحقیقات بھی ہوچکی ہوتیں۔ فرض کریں آپ پر لگائے الزامات ثابت ہوبھی جاتے ہیں تو واحد خسارہ جو آپ کو برداشت کرنا پڑے گا وہ حکومت سے ہاتھ دھونے کا ہے ۔ کوئی بھلے ہی جتنا بڑا حاکم ہو دو روٹی گندم صبح اور دو شام کو کھا کر پیٹ بھر سکتاہے۔ کوئی بھلے ہی کتنی بڑی سلطنت کا مالک ہو دوبائی دس فٹ کا گڑھا اس کی آخری آرام گاہ ہے۔ ذرا جرات کا مظاہرہ کریں اور بتا دیں کہ آپ بھی پاکستان کے سلطان ملک شاہ سلجوقی ہیں۔بھلے آپ کی حکومت چلی بھی گئی لیکن مورخ آپ کو کبھی مرنے نہیں دے گا ۔ قوم آپ کے انصاف کی منتظر ہے۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ تاریخ سے آج تک کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ دیکھتے ہیں کہ سبق نہ سیکھنے کا سلسلہ کہاں جاکر رکتا ہے کیا پتا میاں صاحب ہی اس فقرے کا فل سٹاپ ہوں۔

Short URL: http://tinyurl.com/zwdexcs
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *