وحشتوں کی گونج

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: صاحب کپور،منڈی بہاؤالدین
رات کی سیاہی پو پھٹنے کے انتظار میں تھی۔ وہ ساحلِ سمندر پر موجود ریت کے گھروندے کی طرح پل پل اپنا وجود کھو رہی تھی۔ سمندر سے اٹھتی چھوٹی چھوٹی لہریں، لمحہ بہ لمحہ اس کا وجود مٹانے کی تاک میں تھیں کہ اچانک لہروں کا ایک تھپیڑا آیا جو اس کی پلکوں سے شبنم اپنے سنگ بہا لے گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سورج کی سنہری روشنی میں اپنی گیلی زلفیں چہرے پر بکھیرتی نوری کی آواز نے اسے روک لیا۔ سورج ڈوبنے کو تھا۔ وہ کھڑکی سے واپس پلٹی اور سجنے، سنورنے آئینے کے سامنے جا بیٹھی۔سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے ہی بالکل سامنے برآمدہ، دونوں اطراف تین تین کمرے اور ان کے درمیان وسیع آنگن تھا، جس کے عین وسط میں خوبصورت قالین تھا۔ قالین کے دو اطراف تکیے رکھے گئے تھے اور تیسری جانب برامدے کے قریب گدہ پڑا تھا جس پہ نیلم بائی بیٹھی تھی۔ نیلم بائی کے بائیں جانب ڈھولک اور ہارمونیم رکھے تھے جنہیں استاد دینوُ اور موجُو بجا رہے تھے۔ ببلی ہاتھوں میں ستار پکڑے سُر بکھیر رہی تھی۔ نوری بیگم کی مدھُر آواز اور روبی کا رقص، دو ہی چیزیں تو نیلم بائی کے کوٹھے کی شان تھیں۔ ملکہِ حُسن جلوہ افروز ہوئی، طبلے کی تھاپ پر رقص شروع ہوا جیسے ہی مُکھ رخشندہ بے حجاب ہوا پیسوں کی برسات جاری ہو گئی
آج روبی کا حُسن پہلے سے زیادہ نکھرا تھا کیونکہ آج بالخصوص اس کے محبوب کیلیے محفلِ رقص منعقد کی گئی تھی جس سے وہ بے پناہ محبت کرتی تھی۔ وہ اک نواب زادہ تھا۔ نیلم بائی سے اچھے مراسم تھے اس لیے اکثر روبی کو اپنے ساتھ بھی لے جایا کرتا کیونکہ وہ بھی اسے پسند کرنے لگا تھا۔آج محفل میں موجود لوگوں کی نظریں روبی کو چبھنے لگیں، اسے ان بھیڑیا صفت انسانوں کے چہروں سے جھلکتی وحشت صاف دکھائی دیتی تھی۔ اس نے جب دیکھا کہ نیلم بائی جہاں بیٹھی تھی وہ جگہ خالی ہے تو وہ رقص چھوڑ کر اچانک اپنے کمرے میں چلی گئی جو کہ برامدے کے دائیں جانب موجود کمروں میں تھا۔ وہ ابھی مسہری پہ گِری ہی تھی کہ اسے ماضی کی یادوں نے اپنے حصار میں جکڑ لیا۔ ایک محبوب تعلق ماضی کے گوشوں سے اُبھرا، راجا نے اس سے پیار و وفا کی قسمے کھا رکھی تھیں۔ وہ بھی کئی سنہرے خواب سجائے محبت کے ساگر میں ڈوبتی چلی گئی۔ راجا اسے چاہتا تو تھا لیکن اسے روبی کا اچانک رقص چھوڑ کر کمرے میں چلے جانا ناگوار گزرا، وہ روبی کے پیچھے کمرے میں پہنچ گیا۔۔۔۔
جیسے ہی آہٹ نے یادوں کا سلسلہ توڑا آنکھوں سے جھرنے پھوٹ پڑے۔ راجا نے اس سے یوں اچانک چلے آنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا‘‘میں روز روز کی اس نمائش سے تنگ آ چکی ہوں آخر کب تک میں اس دلدل میں دھنسی رہوں گی، جو تم نے مجھ سے وعدہ کیے ہیں، خواب دکھائے ہیں ان کا کیا ہو گا’’۔ اس کے لہجے میں درد تھا لیکن راجا کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا وہ بھڑک اٹھا کیونکہ اسے اپنے دوستوں کے سامنے روبی کا یوں رقص ادھورا چھوڑ کر چلے آنا تذلیل محسوس ہوئی، وہ کوئی بھی بات سمجھنے سے عاری تھا۔ وہ اسے گالیاں بکنے لگا کیونکہ اس نے اپنے دوستوں کو بہت دور علاقوں سے خاص رقص دیکھنے کیلیے مدعو کیا تھا۔ اب وہ سب وہاں سے جا چُکے تھے۔
کافی جھڑپ کے بعد خود کو اعتدال پہ لاتے ہوئے راجا نے پیار سے اس کی کلائی پکڑی اور کہا‘‘چلو آج تمہارے سبھی خواب پورے کرتا ہوں’’۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا، وہ بہت خوش دکھائی دیتی تھی کیونکہ اسے لگا آج اس کے سبھی خواب حقیقت کا روپ لینے جا رہے تھے۔ وہ دونوں کوٹھے کی چلمن سے دور محبت کی چنگاری بھڑکانے دور چاہتوں کے جزیرے پہنچ چُکے تھے۔ چاند پورے جوبن پر تھا۔ تیز سرد ہوائیں ارمانوں کے دیپ بُجھانے لگی تھیں۔ ایک کے بعد ایک آتش فشاں اس کے وجود میں پھٹنے لگا تھا۔ لاوا اُگل اُگل کر سرد ریت پر منجمد ہو رہا تھا۔ اس کے وجود کی چھاپ ریت کی گہرائی تک پہنچ چُکی تھی۔رات کے ان خوفناک سناٹوں میں وحشتوں کی گونج بڑھ چُکی تھی۔ راجا اپنے روستوں کے ہمراہ واپس لوٹ چکا تھا۔

Short URL: http://tinyurl.com/yyu2uho9
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *