نوجوان جا گ گئے ہیں۔۔۔۔ محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

کھیل بڑا آسان اور سادہ سا ہے ۔سب لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے لیکن پھر بھی انجان اور بھولے بننے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے چھپ کر کبھی جمہوریت کی چادر اوڑھ کر فرسودہ نظام کو بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن آخر کب تک۔ یہ کھیل اس ملک میں اندر ہی اندر بہت پہلے سے جاری ہے ۔ہوا اب یہ ہے کہ اس معاملہ کو مڈل کلاس پڑھا لکھا طبقہ سڑکوں پر لے آیا ہے ۔چندسطور لکھنے کے بعد مجھے ابھی ایک میسج موصول ہوا ہے محترم پڑھے لکھے ہیں ماسٹر ڈگری ہولڈر ۔مگر پچھلے پندرہ سال سے پرائیویٹ سکول میں پندرہ ہزار کی تنخواہ تک پہنچ پائے ہیں ۔لوگوں کے بچوں کو تمیز اور تعلیم سکھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔میسج یوں ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اپنے ایجنڈوں پر باہر والوں کے اشاروں پر لگ کر ملک و ملت کو برباد کر رہے ہیں۔ کوئی ثبوت نہیں ہے ان کے پاس ۔یہ ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اس میسج کو پھیلائیں جتنا آپ پھیلا سکتے ہیں۔ میں نے جواب میں محض اتنا ہی لکھا کہ صاحب یہ حکومت کا ایجنڈا ہے اس طرح کے پیغامات پھیلانا ۔دو میسجز کے بعد وہ صاحب ایسے قائل ہوگئے کہ جیسے وہ اسی انتظار میں ہی تھے کہ کوئی ان کو سمجھانے کی کوشش کرے اور وہ ضدی بچے کی طرح ضد چھوڑ کر فورا مان جائیں۔ان مارچز اور تحریکوں کو بھلا کوئی نام دیں ۔ یہ حبس زدہ ماحول سے اکتائے ہوئے جوان پڑھے لکھے طبقے کی جدوجہد کا آغاز ہے ۔یہ نوجوان خالی ووٹ ڈال کر شام کو اس انتظار میں تھے کہ ان کا خواب پورا ہوجائے گا ۔لیکن یہ شائد بشمول پی ٹی آئی لیڈرز اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ الیکشن جیتنے کے لئے الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے کے علاوہ ایک تیسری بات بھی ضروری ہوتی ہے جو ہر دفعہ ہمارے الیکشن میں ہوتی ہے اور وہ ہے دھاندلی ۔ خود سوچئے کہ جس مائنڈسیٹ نے دن دیہاڑے ڈیڑھ درجن بندے سرکاری گولیوں سے بھون ڈالے اور سات درجن ہسپتالوں میں پڑے شائد آج تک اپنے زخموں کو دیکھ کر کراہ رہے ہیں ۔ان کے لئے دور دراز کے پولنگ اسٹیشنز پر دو نمبر ووٹ ڈالنے ڈبے بھرنا بھلا کیوں کر مشکل کام ہوسکتا تھا۔لوگ ہمیشہ بھولے بن کر ایک دوسرے سے جب پوچھتے نظر آتے ہیں کہ چار حلقے کھولنے میں بھلا حکومت کو کیا پرابلم ہو سکتی تھی تو میرا جواب ہوتا ہے کہ جیسے زرداری صاحب چیف جسٹس کو بحال نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کے یہ بحالی ان کو نگل جائے گی ۔ زرداری صاحب تو بچ گئے لیکن ایک بحالی ان کا وزیراعظم ضرور نگل گئی ۔ خیر اسی طرح موجودہ حکومت بھی روز اول سے جانتی ہے کہ چار حلقے کھلنے کے بعد جو جن برآمد ہوگا وہ پوری حکومت کو نگل جائے گا ۔بس اسی پریشانی میں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا نہ کی اور آج یہ مرض اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کو چھپانے کے لئے حکومت کو اس کے اوپر جمہوریت کے نام کی مرہم پٹی لگانی پڑ رہی ہے لیکن زخم مزید گلتا جارہاہے اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہر کوئی مشورہ دے رہا ہے کہ کوئی حصہ جلد از جلد کاٹ کر پھینک دیں۔ اس سے پہلے کہ جمہوری مریض کا انتقال ہوجائے ۔لیکن مجھے خطرہ ہے کہ کہیں عجلت میں حکومتی ڈاکٹرزکسی صحیح صالم حصے کو کاٹ کر نہ پھینک دیں ایسی صورت میں بھی نتیجہ وہی رہے گا مریض کی موت۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تک سرجری شروع ہوتی ہے ناسور بن جانے سے پہلے یا پھر ۔
واپس آتے ہیں دھرنوں کی طرف کیونکہ مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر ہوتا ہے۔ یہ جو نوجوان آپ کو نظر آتے ہیں یہ پڑھے لکھے بھی ہیں نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ۔ میرے کئی دوست جو یا تو ڈاکٹرز ہیں یا انجینئرز ہیں یا پھر اس کے مقابل کے ڈگری ہولڈرز ہیں ہر روز نہ صرف وہاں جاتے ہیں حاضری دیتے ہیں بلکہ فلی طور پر Motivatedبھی ہیں۔کئی ایسے ہیں جو کہ جانہیں سکتے اپنی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اپنے اپنے شہروں کے دھرنوں میں مکمل طور پر پارٹی سیپیٹ کرتے ہیں۔ یہی حال طاہرالقادری صاحب کے جلسوں کا ہے میرے دو دوست جو کہ یونیورسٹی کے زمانے سے ان کی جماعت سے وابستہ ہیں۔اعلی تعلیم اور بیرون ممالک سے اپنے تما م کام دھندے چھوڑ کر ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام آباد آن موجود ہوئے ہیں۔حکومت نے ان مارچز کے آغاز میں ہی ماڈل ٹاؤن کا کارنامہ انجام دے کر ان پڑھے لکھے جوانوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ۔لیکن ان جوانوں نے ان پرانے مڈل میٹرک پاس لیڈرز کو ان کے خیالات سمیت مسترد کردیا ۔ حکومت کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود پچھلے چودہ دن سے یہ نوجوان ہر روز جاتے ہیں اور خان صاحب و قادری صاحب کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔ دوسری طرف تمام چندی چور بوگس سڑے ہوئے سسٹم کو بچانے کے لئے ایک دوسرے کے پیچھے اکٹھے ہوگئے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ بس اس دفعہ تو ایک ہوکر متحد ہو کر اس کلنک کا ٹیکہ جمہوریت کو بچالو۔ پھر یہ جوانوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ بہت ہی زیادہ خوش خیالی کا شکار ہیں۔خان صاحب اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے تو بس اتنا کیا ہے کہ آگے لگ کر ان جوانوں کو راہ دکھائی ہے بلکہ مجھے تو یوں محسوس ہوتاہے کہ شائد یہ دونوں حضرات رات کے کسی کمزور لمحے بیٹھ کر واپسی کا سوچتے ہوں لیکن نوجوانوں کے جذبات ان کو اس خیال کو جھٹک دینے پر مجبور کردیتے ہوں گے اور شائد ان کے جوان اور پڑھے لکھے ہونے کے فیکٹر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر ادارہ حکمرانوں کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ڈنڈے سوٹے تھامے ہوئے ہے ۔کیونکہ ان پڑھے لکھے جوانوں کو مارپیٹ کرنے بعد ہمارے پاس شائد پیچھے چمکتے سر اور ان پر ٹنگی وگیں ہی بچ جائیں گی۔ اس مڈل کلاس باشعور طبقے کو یا تو باقی سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جگہ دینا پڑے گی یا پھر اسی طرح منظم ہوتے ہوتے یہ ایسی کئی پارٹیاں تشکیل دے لیں گے کہ جو پرانی پارٹیوں کو انگل جائیں گی ۔ان نوجوانوں کو آخر کب تک آپ روک پائیں گے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کا مستقبل ہیں تو آپ کا مستقبل اپنی راہ کا تعین کرچکا ہے۔ یہ لوگ ہر طرح کے پروٹوکول سے آزاد ہیں انصاف دو انصاف لو کے داعی ہیں ۔یہ لوگ اپنے مفادات کے برعکس امن سکون خوشحالی چاہتے ہیں ۔ خان صاحب نے قائد پاکستان کا نعرہ لگایا یہ ان کے گرد اکٹھے ہوگئے اگر خان صاحب نے بھی پارٹی چلے ہوئے کارتوسوں سے بھر لی تو یہ اپنا الگ پلیٹ فارم بنالیں گے۔ لہذا خان صاحب سے بھی درخواست ہے کہ اپنے کنٹینر پر ہارے پٹے ہوئے گھوڑوں کو چڑھنے کا موقع نہ دیں۔ کیونکہ ان کے گرد جو لوگ اکھٹے ہیں یہ پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ باغی اور سر پھرے بھی ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جو سوشل میڈیاپر ان کی کردارکشی میں دن رات مصروف ہیں وہ شائد یہ نہیں جانتے کہ دیوانوں کا رقص اسی طرح کا ہوا کرتا ہے ۔عقل مندی یہی ہوتی ہے کہ بڑھاپے میں پہنچ کر نوجوانوں کے ساتھ ضدبازی لڑانے کی بجائے ان کی مان کر سن کر سسٹم کو چلائے جائے۔ بصورت دیگر نوجوان ڈکٹیٹر نمابزرگوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/gu4z6et
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *