منشیات بھی کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔۔۔۔ تحریر :ماجد امجد ثمر

Majid Amjad Samar
Print Friendly, PDF & Email

ایٹم بم کے استعمال کے بعداس کے اثرات کا اندازہ لگانا ہو تو ذیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں صرف جاپان کے شہروں ہیرو شیما او ر ناگا ساکی کی تاریخ پر نظر ڈال لی جائے تو کافی حد تک انسان اس بم کے منفی اثرات سے بخوبی واقف ہو جائے گا۔اس کے استعمال کے بعد نسلِ انسانی کاکس طرح ضیاع ہو ا بلکہ آج بھی وہاں پیدا ہونے والوں میں اس کی نشانیا ں موجود ہیں انسان اس بارے سب جان جاتا ہے۔یہ تو تھا وہ بم جس میں ایٹم کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اب آج کل پاکستان میں ایک اور بم کا استعمال کیا جارہا ہے جس کا اثر واقعی کسی ایٹم بم سے کم نہیں اور وہ ہے منشیات کا بم۔جو نہ صرف معاشرے بلکہ نسل انسانی کو انتہائی برے طریقے سے تباہ وبرباد کرنے کا عنصر بن رہا ہے۔ویسے تو پاکستان ہر وقت ہی حالت جنگ میں ہے کبھی یہ جنگ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے لڑی جاتی ہے تو کبھی تما م ان مسائل کے جو پاکستان کو درپیش ہیں ۔لیکن ذرا غور کریں تو کیا کوئی ایک جنگ منشیات کے خاتمے کے لئے بھی لڑی جا رہی ہے؟؟کیا کوئی ایسا ضربِ عضب ان کے خلاف بھی کیا جائے گا جو خوب دھرلے سے اس کاروبار میں ملوث ہیں؟۔
’’International Day Against Drug Abuse and Illicit Trafficking ‘‘
منشیات کی روک تھام اور اس کی غیر قانونی اسمگلنگ کا عالمی دن ہر سال 26 جون کو بین الاقوامی سطح پر منایا جاتاہے ۔جس کا مقصد معاشرے میں منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت کا خاتمہ اور غیر قانونی طریقے سے اس کی اسمگلنگ کی روک تھام بارے حکومت کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کروانا اور عوام کو اس سے بچنے بارے آگاہی دلانا ہے۔ 7 دسمبر 1987کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد 42/112 کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ 1988 سے ہر سال 26 جون منشیات کی روک تھام کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔دنیا کے ہر ملک میں منشیات کا استعمال اور اس کا کاروبار ایک جرم ہے۔اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو 20 ء ویں صدی کے آغاز میں ہی بہت سے ممالک نے الکوحل کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔حتیٰ کہ ان میںیہ ترقی یافتہ ممالک جیسا کہ امریکہ ، کینڈا، فِن لینڈ،ناروے اور روس وغیرہ بھی شامل تھے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان منشیات کی لت کا شکار کس طرح ہو جاتا ہے۔؟ ماہرین نفسیات کے مطابق نشے کی لت ایک بیماری ہے یا حقیقی ذہنی خرابی۔کئی افراد میں یہ بیماری موروثی طور پر پائی جاتی ہے اور بعض حالات و واقعات کی وجہ سے خود اس بیماری کو اپنا لیتے ہیں۔ دراصل جب انسان منشیات کا استعمال شروع کرتا ہے تو وہ اس کا عادی بن جانے کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ ایک دو دن میں اس لعنت کا مستقل شکار ہو جاتا ہے بلکہ اس مقام تک پہنچنے میں بھی کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے۔شروع میں تو کچھ افراد فیشن کے طور پر اپنی خوشی سے اور کچھ پریشانیوں اور الجھاؤ کا شکار ہو کر نشہ شروع کر لیتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب وہ اس نشے کی لت کا پوری طرح شکار ہو جاتے ہیں تو پھر وہ خود کو نارمل حالت میں رکھنے لے لیے نشہ کرتے ہیںیعنی دوسروں کے وہ ایب نارمل حالت میں ہی ہوتے ہیں لیکن مطلوبہ نشہ کر کے وہ خود کو نارمل تصور کرتے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق نشہ آور اشیاء کا مستقل ااستعمال انسان کے دماغ میں موجود عصبی خلیات(نیورانز) کو دھیرے دھیرے تباہ کر دیتا ہے ۔ منشیات کا استعمال شائد کسی کو وقتی طور پر ذہنی سکون اور خوشی دے دیتاہو لیکن اس کا مسلسل استعمال انسا ن کے لیے انتہائی مہلک ذہر کی طرح ثابت ہوتا ہے جو اس کو جیتے جی مار رہا ہوتا ہے ۔وہ اس کے لئے ہرروز مرتا اورذندہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ نشہ کرنے والا اپنے نشے کی خاطر اپنا کاروبار، تعلقات اور صحت سب کچھ تباہ کر دیتا ہے ۔گذشتہ سال ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 6.4ملین افراد یعنی 64لاکھ افراد منشیات کے مستقل عادی بن چکے ہیں۔جن میں 78 فیصد مرد اور22فیصد خواتین ہیں اور اسطرح ہر 27 افراد میں سے ایک شخص منشیات کا عادی ہے۔اور خاص طور پر آج کے نو جوان نسل کا 25 فیصد حصہ نشے کی مختلف اقسام کا استعمال کر رہا ہے۔پاکستان میں بہت ذیادہ استعمال ہونے والا نشہ بھنگ اور چرس کا ہے تقریباً0 4 لاکھ بالغ افرااس نشے کی لت کا شکار پائے گئے ہیں۔اور باقی دیگر نشہ آور اشیاء جیسے افیون ،ہیروین اور ادویات جن میں نیند یا اینٹی الرجی کی گولیاں اورانجکشن وغیرہ کا نشہ کرتے نظر اتے ہیں۔2011ء میں لگائے گئے ایک تخمینے کے مطابق 37.8فیصد افراد نشے کے مستقل عادی تھے۔آج بھی پاکستان کا شمار ان 15ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایچ آئی وی یعنی ایڈز اور خون میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے خاصی تعداد میں متاثرین پائے جاتے ہیں۔اسلام کی رو سے نشے کے استعمال کی بات کی جائے تو آج سے 1400سال پہلے نشہ آور اشیاء کی اتنی اقسام دریافت نہیں ہوئیں تھی جتنی کہ آج ہیں اس زمانے میں ذیادہ تر لوگ الکوحل یعنی شراب کا استعمال کرتے تھے۔اور قرآن کریم میں نشہ والی چیزوں کے لئے ’خمر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے کہ ’’ تم سے جب شراب اور جوئے کا سوال کرتے ہیں تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور کچھ کے لئے دینوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے اور تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے ذیادہ ہو ۔اسطرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم سوچو۔‘‘(سورہ البقرہ ۔آیت نمبر 219)اور ایک حدیث کے مطابق ’’ حضورﷺ نے ہر نشہ آور اور سست کر دینے والی چیز سے منع فرمایا ہے۔‘‘(سنن ابوداؤد۔)۔
یوں اس بات سے واضح ہو گیا ہے کہ اسلام میں بھی نشہ آور چیزوں کی سختی سے ممانعت ہے۔
منشیات کی لت کوئی جرم نہیں بلکہ یہ ایک بیماری ہے۔مجرم وہ نہیں جو اس کا استعمال کرتا ہے اصل مجرم منشیات کی سمگلنگ اور اس کا کاروبار کرنے والے افراد ہیں جو ہمارے معاشرے پر منشیات کی بمباری کر کے اسے تباہ وپرباد کر رہے ہیں۔منشیات کی لت خصوصاً آج کے نوجوانوں کا معاشی ،معاشرتی ،اخلاقی ،نفسیاتی اور حتیٰ کہ جسمانی طور پر بھی قتل عام کر رہی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے اس کا دھندہ کرنے والے گروہوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔پوری دنیا میں ستر فیصد افیون کی پیداوار صرف افغانستان میں ہوتی ہے ۔اور وہ ہمارا ہمسایہ ملک ہے لہذا سرحدی نظام کو بہتر کر کے اس کی ہمارے ملک میں اسمگلنک کی روک تھام کی جائے۔اورسگریٹ نوشی پر سختی سے مکمل پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ یہی ایک راستہ ہے جہاں سادہ سگریٹ کے استعمال سے ہوتا ہو ا انسان چرس،بھنگ،الکوحل،کوکین ،افیون اورہیرؤین تک جا پہنچتا ہے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/zglayqp
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *