فرض

Print Friendly, PDF & Email

تحریر : صبا جرال ، منامہ (بحرین)
وہ روز بچوں کی طرح لڑتے اور میں اس لڑائی سے محظوظ ہوتی رہتی، کبھی ان کی لڑائی میں ان کا ساتھ بھی دینے لگتی تھی، کبھی ایک کا ساتھ دیتی تو کبھی دوسرے کی حمایت کرنے لگتی۔۔ ہنستا،مسکراتا،لڑتا،جھگڑتا وہ مجھے بہت پیارا لگتا۔ اس کی مسکراہٹ جب اس کے چہرے کو چھو جاتی تو اس کے چہرے پر قوس قزح کے رنگ بکھر جاتے۔ اور وہ سویٹ سی لڑکی اس کی تو بات ہی الگ تھی۔اس کی کھلتی مسکراہٹ اور شرارت بھری آنکھیں، جب میرے تصور میں ابھرتیں تو بے ساختہ ان آنکھوں کی شوخی قائم رہنے کی دعا کرنے لگتی ان کی شرارت بھری گفتگو سے میں بہت محظوظ ہوتی تھی۔۔۔۔ ان کی اس دوستی اور محبت پر میں سر شار ہو جاتی۔ کائنات کے سارے خوب صورت رنگ مجھے ان دونوں میں بغیر دیکھے نظر آتے تھے۔ فیس بک پر میرے ہزاروں فرینڈز میں وہ بہت خاص تھے میرے لئے۔اتنے خاص کہ مجھے لگتا ان دونوں کے بنا میں ادھوری ہوں کب وہ میرے اتنے قریب آگئے کچھ پتہ نہیں مگر یاد ہے تو بس اتنا کہ ان کے ہنسنے سے میں ہنستی تھی ان کی اداسی مجھے پریشان کر دیتی پھر ایک دن اچانک ان کی ہنسی تھم گئی ان کی شرارت بھری آنکھوں میں درد آبسا ان کے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں مرجھا گئیں میں بہت حیران تھی کہ ایسا کیوں ہوا؟ ان کی ہر پوسٹ رونے اور سسکنے لگی۔ ان کے لفظوں میں آنسووں کی نمی آبسی۔ میں حیران تھی چند دن میرے آن لائن نہ آنے سے ایسا کیا ہو گیا؟ میں نے جلدی سے اسے انباکس کیا اور مخصوص لہجے میں اپنائیت سے پوچھا ”کیا ہوا بچے اتنے اداس اور پریشان کیوں؟ میرے پوچھنے پر وہ سسک اٹھا ”آپی وہ مجھ سے دور چلی جائے گی ” مگر کیوں چندا؟ ایسا کیا ہوا؟ خفا ہوگئی ہے تو ہم مل کر منا لیتے ہیں پریشان مت ہو ”اس کی اداسی مجھ سے برداشت نہیں ہورہی تھی ”وہ خفا نہیں ہے میری قسمت خفا ہے مجھ سے ” وہ بولا ! میں نے جلدی سے اس پیاری لڑکی کو انباکس کیا پیاری لڑکی تم اس اچھے لڑکے سے کیوں خفا ہو؟؟؟ ”نہیں میں خفا نہیں بس اب جدائی کا وقت آ گیا ، میری جلد شادی ہونے والی ہے ، میں آن لائن کم کم آؤں گی ” اس کا لہجہ بھی ٹوٹا ہوا سا تھا میں یکدم خاموش سی ہو گئی میرے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا ہو ، میں نے فورا” اسے کال کر ڈالی وہ بے حد ملول لہجے میں بولی ”اسے سمجھائیے گا اور سنبھالئے گا آپی” وہ بہت اچھا ہے اس کے ساتھ پر کوئی بھی لڑکی فخر محسوس کرے گی ” ”کسی کو تنگ کرتے کرتے مذاق کرتے چھیڑ چھاڑ کرتے کب کوئی دل میں آ بستا ہے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور اچانک انکی جدائی کا سن کر دل بند نہ ہو تو کیا ہو ” یہ اس اچھے لڑکے کا سسکتا ہوا میسج مجھے اداس کر گیا۔”فیس بک پر ہم خلوص و محبت کے ایسے رشتے بنا لیتے ہیں جن سے جدا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے مگر ہم لڑکیاں اپنے دل میں اپنے درد چھپا لیتی ہیں مگر اپنے والدین کا سر نہیں جھکا سکتیں آپی” کچھ دن قبل ہی میرا رشتہ آیا منگنی کے ساتھ ہی شادی کی تاریخ طے کر دی گئی آپ ہی بتائیں میں بیٹی ہونے کا فرض ادا کروں یا دوست اور محبوبہ ہونے کا” اس پیاری لڑکی نے یہ کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور میں نے اسے جی بھر کر رونے دیا اسے رو کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے دیا۔ کیونکہ اس نے ابھی بہت سے فرائض نبھانے تھے۔ ایک فرمانبردار بیٹی ہونے کے، ایک پیاری اور ہمدرد بہن ہونے کے ، ایک مخلص وفا شعار بیوی ہونے کے ۔ اور پھر ایک ماں ہونے کے ، جب اتنے سارے فرائض کی ادائیگی کرنا پڑے تو اپنی ذات کی نفی خود بخود ہونے لگتی ہے پھر دل میں دبی خواہشات وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہونے لگتی ہے اور پیار کے جو رشتے بنتے ہیں وہ دل میں ہی دفن ہوجاتے ہیں۔ میں نے ایک لمبا سانس کھینچا سامنے اسکرین پر نظریں جمائیں اور پھر سے اچھے لڑکے کو مخاطب کیا کیونکہ اسے ابھی میں نے تسلی دینا تھی اس کو بتانا تھا ایک لڑکی ہونا کتنا مشکل ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxlcuv7c
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *