شہید اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی ؒ

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مولانامحمدجہان یعقوب
قارئین کرام!اب ہم کچھ تذکرہ کرتے ہیں صاحب نقد ونظر یعنی مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کا۔مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کا نام اور کام علمی حلقوں کے لیے محتاج تعارف نہیں۔ہند وپاک کے جن علمائے کرام سے عوام کو سب سے زیادہ دینی فائدہ ہوا،بلاشبہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کا نام ان میں سر فہرست ہے۔کسے معلوم تھا کہ ضلع لدھیانہ کے شمال مشرقی کونے میں دریائے ستلج کے درمیان ایک چھوٹی سی جزیرہ نما بستی عیسی پور میں پیدا ہونے والا یہ بچہ مستقبل میں دین اسلام کی اس قدر خدمت کرے گا،کہ اس کا فتویٰ حرف آخر،اس کا نقد قابل قبول،اس کی جرح قابل تسلیم،اس کی تائید وجہ شرف وامتیاز قرار پائے گی۔یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم اور اس کا انتخاب ہے،وہ جس سے چاہے اپنے دین کی خدمت کا کام لے۔مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس عالی محنت وخدمت کے لیے قبول فرمالیا تھا۔
ان کے سوانح نگاروں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال شیرخوارگی کے زمانے میں ہوگیا تھا۔ جس بچے کووالدہ کی شفقت نہ ملے،اس کے لیے کتنی مشکلات پید اہوتی ہیں،یہ محتاج بیان نہیں۔ایسے بچوں میں خوداعتمادی کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ جن ہستیوں سے کام لینے کا فیصلہ کرتے ہیں،والدہ کی شفقت سے محرومی ان کی راہ کی دیوار نہیں بننے دیتے،بلکہ ایسے بچے معاشرے کے لیے مثال بن جاتے ہیں،کہ اللہ کے حبیب پاک ﷺ کو بھی تو فقط چھے سال کی عمرمیں والدہ کی جدائی کا زخم سہنا پڑا تھا۔
ان کے والد الحاج چوہدری اللہ بخشؒ ،نے حتی الامکان اپنے لخت جگر کو والدہ کی جدائی کا احساس ہونے نہ دیا۔وہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سے بیعت تھے۔دین سے محبت رگ رگ میں رچی بسی تھی،سو اپنے نور نظر کو بھی دینی تعلیم کے لیے اپنے پیربھائی قاری ولی محمد ؒ کے سپر د کیا،مولانا شہیدؒ کی ابتدائی عصری و قرآنی تعلیم انھی کی نگرانی وسرپرستی میں ہوئی۔، پرائمری کے بعد لدھیانہ کے مدرسہ محمودیہ اللہ والا میں داخل کردیے گئے اوریہاں مولانا امداداللہ حصارویؒ سے ابتدائی فارسی پڑھی، اگلے سال مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے مدرسہ انوریہ میں داخلہ لیا، دو سال یہاں مولانا انیس الرحمن، مولانا لطف اللہ شہید و دیگر اساتذہ سے ابتدائی عربی کی کتابیں پڑھتے رہے۔اسی اثنامیں پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا، اور مشرقی پنجاب سے مسلم آبادی کے انخلا کا ہنگامۂ رستاخیز پیش آیا۔مولانا شہید ؒ کا خاندان ضلع ملتان میں آباد ہوا،یہاں قریب ہی منڈی جہانیاں میں مدرسہ رحمانیہ تھا، وہاں حضرت مولانا غلام محمد لدھیانویؒ اور دیگر اساتذہ سے تعلیم کا سلسلہ،جو تقسیم ہند کی وجہ سے جزوی طور پر منقطع ہواتھا، دوبارہ شروع کیا۔ایک سال مدرسہ قاسم العلوم فقیروالی ضلع بہاول نگر میں مولانا عبداللہ رائے پوریؒ ، مولانا لطف اللہ رائے پوریؒ اور مفتی عبداللطیف ؒ سے فیض یاب ہوتے رہے،متوسطہ کی تکمیل کے بعدبعد چار سال جامعہ خیرالمدارس ملتان میں تعلیم پائی اور سند فراغ وفضیلت حاصل کی۔آپ ؒ کے اساتذہ میں:مولانا خیر محمد جالندھری ؒ (بانی خیرالمدارس و خلیفہ مجاز حضرتِ اقدس حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ )، مولانا عبدالشکور کامل پوری، مفتی محمد عبداللہ ڈیروی، مولانا محمد نور، مولانا غلام حسین ، مولانا جمال الدین ،علامہ محمد شریف کشمیری رحمھم اللہ تعالیٰ شامل ہیں۔دورہ حدیث کے سال شیخ الجامعہ حضرتِ اقدس مولانا خیرمحمد جالندھریؒ سے سلسلۂ اشرفیہ، امدادیہ، صابریہ میں بیعت کی اور علومِ ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی فیوض وبرکات کا بھی معتد بہ حصہ حضرت جالندھریؒ سے حاصل کیا۔سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد اپنے شیخ و مرشد کے حکم سے روشن والا ضلع لائل پور کے مدرسے میں تدریس کے لیے تقرر ہوا، اور دو سال میں وہاں ابتدائی عربی سے لے کر مشکوٰ ٰۃشریف تک قریباً تمام کتابیں پڑھانے کا موقع ملا۔ دو سال یہاں خدمات انجام دیں،اس کے بعد حضرت مرشد ؒ نے ماموں کانجن، ضلع لائل پور (فیصل آباد)بھیج دیا، جہاں مولانا محمد شفیع ہوشیارپوریؒ کی معیت میں قریباً دس سال مقیم رہ کر تدریسی خدمات انجام دیں۔
ہر معاملے میں اپنے اساتذہ بالخصوص شیخ ومرشد مولانا خیر محمد جالندھری ؒ سے مشورہ ضرور کیا کرتے تھے ۔ مولانا خیرمحمد جالندھریؒ کی وفات کے بعد حضرت قطب العالم، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی مہاجرِ مدنی ؒ سے بیعت ہوئی اور خلافت و اجازت سے سرفراز ہوئے،اس کے ساتھ عارف باللہ ڈاکٹرمحمد عبدالحئ عارفی ؒ نے بھی سندِ اجازت و خلافت عطا فرمارکھی تھی۔
احقاق حق وابطال باطل کا جذبہ صادق شروع سے ہی خلاق عالم نے بدرجہ اتم وبمقدار وافر عطا فرمارکھا تھا۔دوران تدریس بھی اپنے شاگردوں کی ان خطوط پر تربیت فرماتے رہتے تھے۔ تعلیم و تدریس کے ساتھ لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا، مشکو ٰۃ شریف پڑھنے کے زمانے میں طبع زاد شرح مشکوٰۃ’’ التقریر النجیح ‘‘کے نام سے تالیف کی تھی۔سب سے پہلا مضمون مولانا عبدالماجد دریابادی کے رد میں لکھا، موصوف نے ’’صدقِ جدید‘‘ میں ایک شذرہ قادیانیوں کی حمایت میں لکھا تھا، اس کے جواب میں ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں ایک مضمون شائع بھی ہوا تھا، لیکن اس سے تشفی نہیں ہوئی، مستری ذکراللہ ؒ نے مولانا لدھیانوی ؒ کو اس طرف متوجہ کیا اوران کے ایما پر دو قسطوں میں مدیرصدق جدید مولانا دریابادی مرحوم کی تردید میں مضمون لکھا ،جوماہنامہ دارالعلوم دیوبندمیں شائع ہوا۔ پھرماہنامہ دارالعلوم کے ایڈیٹر مولانا ازہر شاہ قیصر کی فرمائش پر فتنہ انکارِ حدیث پر مضمون لکھا ،جو ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کے علاوہ ہفت روزہ ترجمانِ اسلام میں بھی شائع ہوا، بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام سرگودھا کی جانب سے اسے کتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا۔شرح مشکوٰۃ کے بعد اس کوآپ کی باقاعدہ تصانیف میں سب سے اولین کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ماموں کانجن میں تدریس کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی درجے میں قلمی جہاد کا سلسلہ تو جاری تھا،لیکن اس میں تیزی اس وقت آئی،جب آپ ؒ نے ایک تحریرتصحیح کی غرض سے محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کو بھجوائی۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ :فیلڈ مارشل ایوب خان جب ملک کے صدر بنے تو پاکستان کے اکبرِ اعظم بننے کے خواب دیکھنے لگے، ڈاکٹر فضل الرحمن اور اس کے رفقا کو ابوالفضل اور فیضی کا کردار ادا کرنے کے لیے بلایا گیا، ڈاکٹر صاحب نے آتے ہی اسلام پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیے، ان کے مضامین اخبارات کے علاوہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے ماہنامہ فکر و نظر میں شائع ہو تے تھے۔ حضرتِ اقدس شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ کی تمام تر توجہ فضل الرحمانی فتنے کے کچلنے میں لگی ہوئی تھی، اور ماہنامہ بینات کراچی میں اس فتنے کے خلاف جنگ کا بگل بجایا جاچکا تھا۔ ’’بینات‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کے جو اقتباسات شائع ہو رہے تھے ان کی روشنی میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ نے ایک مفصل مضمون لکھا ،جس کا عنوان تھا: ڈاکٹر فضل الرحمن کا تحقیقاتی فلسفہ اور اس کے بنیادی اصول۔۔۔یہ مضمون’’ بینات‘‘ کو تصحیح کے لیے بھیجا۔مضمون پڑھ کر حضرت بنوری ؒ نے صاحب مضمون کی تحریری صلاحیت اور احقاق حق کے جذب�ۂ صادق کو پپہچاننے میں دیر نہ کی اور مولانا لدھیانوی ؒ کو کراچی طلب فرمایا۔جب ملاقات ہوئی توحکم فرمایا کہ ماموں کانجن سے ایک سال کی رخصت لے کر کراچی آجاؤ۔ حضرت لدھیانوی ؒ نے تعلیمی مصروفیات کا عذرکیا،جو مسموع ہوا،لیکن جوں ہی تعلیم سال اختتام پذیرہوا،اسباق مکمل ہوئے اور امتحانات کا سلسلہ بھی پایہ تکمیل کوپہنچا،توحضرت بنوری ؒ نے حکم دیاکہ یہاں مستقل قیام کرو۔ بعض وجوہ کی بنا پر حضرت لدھیانوی ؒ نے جب معذرت پیش کی، تو معذرت قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ کم سے کم ہر مہینے دس دن’’ بینات‘‘ کے لیے دیا کرو۔ ہر مہینے دس دن کا ناغہ ماموں کانجن مدرسے کے ارباب اہتمام نے قبول نہ کیا،توحضرت لدھیانوی ؒ نے ماموں کانجن والے مدرسے سے استعفا دے دیا اور جامعہ رشیدیہ ساہیوال منتقل ہوگئے،کیوں کہ یہاں کے ناظم اعلی مولانا حبیب اللہ رشیدی ؒ نے اس شرط کو قبول فرمالیاتھا۔ جب حضرتِ اقدس بنوری ؒ نے مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت و صدارت کی ذمہ داری قبول فرمائی، تو جامعہ رشیدیہ کے اہل اہتمام سے فرمایا کہ ان کو جامعہ رشیدیہ سے مرکزی دفتر ختم نبوت ملتان آنے کی اجازت دی جائے۔ ان حضرات نے بادلِ نخواستہ اس کی اجازت دے دی، اس طرح جامعہ رشیدیہ سے تدریسی تعلق ختم ہو،اب حضرت لدھیانوی ؒ کے بیس دن مجلس کے مرکزی دفتر ملتان میں، اور دس دن کراچی میں گزرنے لگے۔ حضرت بنوریؒ کا ہمیشہ اصرار رہا کہ مستقل قیام کراچی میں رکھیں۔ان کی حیات میں تو اس کی صورت نہ بن سکی،البتہ ان کی وفات کے بعد مستقل کراچی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ؒ ٹاؤن منتقل ہوگئے،اور بطور استاد حدیث ومدیر ماہنام ہ بینات خدمات انجام دینے لگے۔بینات میں شائع ہونے والی ان کی تحریریں مختلف کتابی مجموعوں کی شکل میں یک جاکرکے شائع کی جاچکی ہیں۔نقد ونظر اس سلسلے کی آخری کتاب ہے،جس میں بینات میں تبصرے کے لیے بھیجی جانے والی کتابوں ،رسائل وجرائد اور دیگر مطبوعات پر ان کے قلم سے نکلے ہوئے تبصرے شامل کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ ان تبصروں کا ایک معتد بہ حصہ ماہنامہ بینات کی ویب سائٹ میں بھی موجود ہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کی سب سے معروف اور مفید عام وخاص خدمت ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ہے۔روزنامہ جنگ میں جب میر شکیل الرحمن نے اسلامی صفحہ ’’اقر اُُجاری کیا، تو ان کے اصرار اور مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اور مولانا مفتی احمدالرحمنؒ کی تاکید و فرمائش پر اس سے منسلک ہوئے اور دیگر مضامین کے علاوہ’’ آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘کے عنوان سے لوگوں کے شرعی ودینی سوالات کے جوابات دینے کاسلسلہ شروع کیا،جس کے ذریعے بلامبالغہ لاکھوں مسائل کے جوابات، کچھ اخبارات کے ذریعہ اور کچھ نجی طور پر لکھنے کی نوبت آئی، الحمدللہ!یہ مجموعہ کتابی شکل میں شائع ہوکر حضرت کے لیے صدقات جاریہ بن کران کی حسنات میں میں اضافہ کررہا ہے۔اب اس کا حوالہ جات کی تخریج والا ایڈیشن بھی شائع ہوچکا ہے۔
مولانا شہیدؒ کی ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ملک وبیرون ملک چلنے والے اقراروضۃ الاطفال کے نیٹ ورک کے محرک اور اس کے بانیوں میں سے تھے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ :آپ ؒ بیک وقت بہترین حافظ وقاری ، لائق وفائق ، عظیم محقق ومصنف ، بلند پایہ محدث ، اعلی ٰدرجے کے انشا پرداز ، طرح دار ادیب ، بے مثال اور کامیاب مدرس اور مسند اصلاح و ارشاد کے قطب الاقطاب تھے ۔ آپ ؒ تقریر و تحریر اور تصنیف وتالیف کے امام تھے ، دورِ حاضر کے ملاحدہ اور زنادقہ کے خلاف قلم اٹھاتے، تو معلوم ہوتا کہ آپؒ میں ابن تیمیہ ؒ اور ابن قیمؒ کی روح عود کر آئی ہے، اصلاح وارشاد کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے تو لگتا کہ غزالیؒ ورازی ؒ پھر سے زندہ ہوگئے ہیں ، فقہ وفتوی کے میدان میں لب کشا ہوتے توامام ابوحنیفہ ؒ کی فقاہت کے شارح نظر آتے ، تقویٰ وطہارت ، زہد واستغنا ، قناعت و توکل ، ایثار وقربانی اور عفوودرگزرجیسی ملکوتی صفات کے اعتبار سے آ پ اس دور کے نہیں خیر القرون کے آدمی معلوم ہوتے تھے ۔ آپؒ کے اخلاص وبے لوثی ، للہیت وخداخوفی ، بے نفسی و بے غرضی ، فروتنی اور خمول وگوشہ نشینی نے آپؒ کو مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا تھا ۔’’اپنی ذات میں انجمن‘‘کا استعارہ کسی اور پر صادق آئے یا نہ آئے،حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ پر حرف بحرف صادق آتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ حضرت شہیدؒ ہر دینی جماعت کے سرپرست وپشتی بان بھی تھے۔ان کے خلفاکی فہرست پر نظر ڈالیے ،تو عجیب جامعیت نظر آتی ہے۔اس میں تصوف وسلوک، جہاد ومعسکر، قلم وقرطاس،درس و تدریس اور سیاست ،غرض ہر میدان کے لوگ شامل ہیں۔یہ دین کے تمام شعبوں سے حضرت ؒ کی والہانہ محبت وعقیدت کا واضح اظہار اور ان کی وسعت ظرفی کی بین دلیل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی دین کے ہر شعبے میں ان کا فیض ان کے خلفاومتوسلین کے ذریعے جاری ہے،اور ان شاء اللہ!تادیر رہے گا۔ 
عام طور پر تحریری وتصنیفی اور تدریسی ذوق رکھنے والے لوگ ہجوم آلام ومصائب کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں ،اور صرف قلم وزبان کے دھنی ہوتے ہیں،لیکن حضرت لدھیانوی ؒ اس کے بالکل برعکس حد رجہ نڈر ،بے باک ، حق گو اور جراء ت وبہادری کاپیکر تھے۔اس سلسلے میں صرف ایک واقعے کے بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے:ایک مرتبہ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر نے اپنے مریدین کی ہم دردیاں حاصل کرنے کے لیے علمائے اہلِ سنت کو مباھلے کا چیلنج دے ڈالا،کہ چیلنج قبول تو کوئی کرے گا نہیں،الٹامفت میں شہرت ہوجائے گی۔جب یہ خبر حضرت لدھیانوی ؒ تک پہنچی ،توآپ ؒ نے تمام علماکی جانب سے اس چیلنج کوقبول کرتے ہوئے اسے ان الفاظ میں للکارا:’’ اگر آپ اس فقیر کو مباھلہ کی دعوت دینے میں سنجیدہ ہیں ، تو بسم اللہ !آئیے ، مرد میدان بن کر میدان مباھلہ میں قدم رکھیے ، تاریخ ، وقت اور جگہ کا اعلان کردیجیے، کہ فلاں وقت، فلاں جگہ مباھلہ ہوگا ، پھر اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو ساتھ لے کر مقررہ وقت پر میدان مباھلہ آئیے ،یہ فقیر بھی ان شاء اللہ اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو ساتھ لے کر وقت مقرر ہ پر پہنچ جائے گا اور بند ہ کے خیال میں مباھلہ کے لیے درج ذیل تاریخ ، وقت اور جگہ سب سے زیادہ موزوں ہوگی ۔تاریخ :۲۳مارچ (یوم پاکستان) دن:جمعرات، وقت: دو بجے بعد از نماز ظہر جگہ: مینار پاکستا ن لاہور ۔ آئیے!آں حضرت ﷺ کے ایک ادنیٰ امتی کے مقابلہ میں میدان مباھلہ میں نکل کرآں حضرت ﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ایک بار پھر دیکھ لیجیے ۔‘‘مرزا طاہر نے نہ میدان میں آناتھا،نہ آیا،کہ کسی جھوٹے ،کذاب ابن کذاب اور مفتری ابن مفتری کی کیا مجال کہ وہ ختم نبوتﷺکے اس شیر دلیر ، مرد مجاہداور عالم ربانی کامقابلہ کرسکے۔اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی!
یہی ایمانی غیرت ،دینی حمیت اور اسلام سے شیفتگی ان کی تحریر میں بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔شاید یہی وہ جراء ت ہے،جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے ہر باطل فرقے کی قلمی سرکوبی کا کام لیا۔ان کی کتابوں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے ہر فرعون کے لیے موسیٰ تھے۔ان کی تحریرکسی بھی فتنے کے درودیوار ہلانے اور اس کے تار وپود بکھیرنے کے لیے کافی ہوتی تھی ۔ان کی شہادت کی من جملہ وجوہات میں سے ایک ان کی مایہ ناز کتاب:شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم بھی بتائی جاتی ہے۔اس کی اشاعت کے بعد سے انھیں دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔اس کے علاوہ مرزا غلام قادیانی کی ناپاک ذریت کے نشانے پر تو وہ روز اول سے ہی تھے۔چناں چہ موقع پاتے ہی وقت کے اس عظیم مجددکو شہید کرکے اپنے نام�ۂ اعمال کی سیاہی میں مزید اضافہ کردیا۔(جاری ہے۔۔۔)

Short URL: http://tinyurl.com/y5ozupte
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *