سڑکیں نعمت یا اذیت

Jamshaid Ali
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: جمشید علی
سڑکیں کسی بھی مسافر کو اس کی منزل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اور اگر یہی سڑکیں اور روڈ خراب اور گڈوں سے بڑی پڑی ہوں تو مسافر کے لیے یہی سڑکیں کسی پریشانی سے کم نہیں ہیں۔ایک طرف تو یہ سڑکیں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں اور دوسری طرف یہ کسی اذیت سے بھی کم نہیں ہیں۔ نعمت اس صورت میں ہے کہ اگر آپ کسی سفر پر روانہ ہیں تو سفر میں موجود سڑک ہموار اور گڈوں سے پاک ہے تو یہ سفر آپ کے لیے انتہائی خوشگوار گزرے گا اوریوں آپ کا گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو گا اور مسافر کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اور اگر اذیت کی بات کی جائے تو یہی سڑکیں مسافر کے لیے بہت بڑی مشکل بھی پیدا کردیتی ہیں کیونکہ اگر سڑک ناہموار اور گڈوں سے بڑی پڑی ہو گی تو یہ مسافر کے لیے تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے کیونکہ جو سفر ایک گھنٹہ کا تھا وہ ہی سفراس ٹوٹی پھوٹی سڑک کی وجہ سے گھنٹوں میں طے ہوگا۔اور پھر یہی ٹوٹی پھوٹی سڑک ٹریفک جام اور حادثات کا باعث بھی بنتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ نعمت ہیں یہ پھر اذیت ۔ میر ے نزدیک تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے مگر ہم نے اور ہمارے حکمرانوں نے اس کو عوام کے لیے اذیت اور پریشانی کا سامان بنا رکھا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال حکومت اربوں روپے انہیں سڑکوں اور روڈکے لیے مختص کرتی ہے تا کہ لوگوں کے لیے آرام دہ سفر کو یقینی بنایا جا سکے اور لوگو ں کو آرام دہ سفری سہولیات میسر کی جا سکیں ۔ مگر اس کے باوجود سڑکیں اور روڈنہیں بنتے اور اگر بنتے ہیں تو ناقص مٹیریل کی وجہ سے صرف چند دن ہی لوگوں کو آرام میسر کرتی ہیں اور پھر وہی ٹوٹی پھوٹی سڑک لوگوں کا مقدر بن جاتی ہے ۔اور کیوں نہ بنے یہ عوام کے لیے تھوڑی ہی بنائی گئی تھی یہ تو صرف حکمرانوں کو دکھانے کے لیے بنائی گئی تھی کہ ان کا ایم پی اے یا ایم این اے بلکل ٹھیک کام کر رہاہے۔
پاکستان میں سڑکوں اور روڈکے متعلق شاید کوئی قانون نہیں ہے اور اگر ہے تو شاید لوگوں کو اس کی آگاہی نہیں ہے۔ اس لیے جب کوئی چاہے سڑکوں اور روڈ کی تھوڑ پوڑ کر دیتا ہے اور اس سے پوچھنے والہ کوئی نہیں ہے۔ یہی وہ سڑک ہوتی ہے جو کہ لاکھوں کے بجٹ سے بنائی جاتی ہے اور پھر اس سڑک کو کوئی بھی توڑ پھوڑ کر عوام کے لیے جینا دشوار کر دیتا ہے۔ 
ابھی میں ایک محلے میں تھا جہاں کی سڑکیں اور گلیاں ٹوٹی پھوٹی تھی اور جب کھبی بارش ہو جاتی توگلیاں اور سڑکیں تالاب کی شکل اختیار کر جاتی۔ پھر وہاں کے لوگوں کی قسمت جاگی اور حکومت نے لاکھوں روپوں کے بجٹ سے گلیاں اور سڑکیں بنانے کا کام شروع کردیااور چند مہینوں میں گلیاں اور سڑکیں بن گئی۔ابھی سڑکیں اور گلیاں بنے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ حکومت کو یاد آیا کہ یہاں تو گٹر پڑنے والے ہیں تو حکومت نے پھر وہاں کی سڑکیں اور گلیاں توڑی اور لاکھوں روپوں کے بجٹ سے دوبارہ گٹر کے پائپ اور گلیاں اور سڑکیں بنوائی ۔ یوں حکومت کی نااہلی کی وجہ سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ اب وہاں کی سڑکیں تقریبا آدھا سال ٹھیک رہی ہوں گیااور پھر وہی تالاب اور گڈوں کی شکل اختیار کر گئی ہوں گی کیو نکہ سڑک بنے کے بعد کوئی بھی اس کو تھوڑ پوڑ سکتا اور کوئی آپ کو اس کے بارے میں پوچھنے والا نہیں ہے۔کیونکہ سڑک اور روڈ بننے کے بعدہی ٹیلی کمیونیکیش کمپنی ،واٹر بورڈ اور سوئی گیس والوں کو یاد آتا ہے کہ ہم نے بھی یہاں ابھی پائپ اور تاریں بچھانی ہیں ۔ یوں وہ اپنی مرضی سے جب چاہیں اور جہاں چاہے نئی سڑک کو تھوڑ پوڑ کر اپنا کام کر سکتے ہیں یوں نئی بنائی گئی سڑک ایک ہی منٹ میں گڈوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف حکومت کے خزانے کونقصان پہنچتا ہے بلکہ عوام کے لیے بنائی گئی سہولت بھی کسی کام نہیں آتی۔
اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ جب وہ کوئی سڑک اور روڈ بنائے تو تمام اداروں کی مشاورت سے بنائے اور تمام متعلقہ اداروں کو نوٹس بھیجے تا کہ اگر کسی ادارے نے اس گلی یا محلے میں کوئی کام کرنا ہے تو سڑک بننے سے پہلے کرے بعد میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر بعد میں کوئی وہاں توڑ پھوڑ کرے تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے ۔اس سے نہ صرف سرکاری خزانے کو فائدہ پہنچے گا بلکہ جو سہولت عوام کی لیے بنائی گئی تھی وہ عوام حاصل کر سکے گی۔یوں ایک سڑک جسی کی حکومت کی طرف سے سالوں بعد نظر پڑتی ہے کم از کم وہ کچھ سالوں تک تو عوام کو سہولت میسر کرے۔ 
حکومت سڑکوں کی بحالی کے لیے اور اس کی بے جا توڑ پھوڑ کے کوئی خاص قانون عمل میں لائے اور اگر کوئی قانون پہلے سے موجود ہے تو اس پر عمل درآمدکی بہتر حکمت عملی تیار کرے تا کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے اور کوئی بھی ادراہ حکومت کی مرضی کے بغیر سڑکوں کی توڑ پھوڑنہ کرسکیں اور اگر کوئی کریں تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکے۔ یوں اس سے سرکاری خزانے کو بھی فائدہ ہو گا اور عوام کے پیسوں سے بنائی گئی سہولت بھی عوام حاصل کر سکے گی۔

Short URL: http://tinyurl.com/yaepmc8w
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *