رت جگے۔۔۔۔ تحریر: محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

“یہ میٹرو قطعی ضروری نہیں تھی۔ یہ اس غریب قوم ا س کے بچوں، طالب علموں ، والدین سب کے ساتھ ظلم عظیم ہے اس ظلم میں تم میں ہم سب شامل ہیں”۔ یہ اس دوست کے الفاظ تھے جسے میں نے ہمیشہ کو ل اینڈ کام دیکھا۔ اس کے جملے کاٹ دار اور ذومعنی تھے کوئی آپ کے پاس کئی ماہ سے ملنے آنا چاہ رہا ہو مصروفیت کی وجہ سے مل نہ پا رہا ہو پھر فون کال ملائے اور بغیر سلام دعا کے یک لخت اسٹارٹ ہوجائے تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ بندہ دل سے دکھی ہے ۔سلام دعا سے زیادہ اہم اس کے لئے اندر کے دکھ اور کرب کا اظہار ہے ۔ جو پہلے سے دکھ کی آگ میں تپ رہا ہو اس سے وجہ پوچھنا کریدنا بے کار ہوتا ہے بلکہ زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا ہوتا ہے ۔ سو میں خاموش رہا چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے” میاں تم نے آج بحث نہیں کی میرے قطعی فیصلے کو برضا و رغبت کیسے قبول کرلیا۔ میں نے فقرے کی کاٹ محسوس کی اور آواز میں مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے دوست کو غصہ تھوکنے کا مشورہ دیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے واقعی ہی اپناتمام غصہ مجھ پر تھوک دیا۔ میرے دوست ملتان کے رہائشی ہیں جہاں آجکل پاکستان کو امریکہ کے مدمقابل کھڑا کرنے اور صدیوں سے رکے ترقی کے سفر کو چند فلائی اوور تعمیر کرکے پورا کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ ان صاحب کی نومولود بیٹی کو رات کے آخری پہر سانس کی تکلیف ہوئی ۔بچی کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے موصوف نے گاڑی نکالی بیگم اور بچی کو ساتھ لیا ۔پہلے ایک ناکہ بھگتا ان سادہ لوح پولیس والوں کا جو آج تک یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ مجرم ہمیشہ سیدھی سڑکوں سے ان کے ناکو ں پر تلاشی دے کر جرم کی واردات سرانجام دینگے ۔ ناکہ عبور کرکے یہ صاحب میٹرو گردی کا شکا ر ہو گئے۔ ایک راستے پر گئے تو آگے سڑک بند دوسرے راستے پر گاڑی موڑی تو وہاں بھی ملک کی ترقی کو گئیر لگانے کے سلسلے میں راستہ بند ملا۔ خدا خدا کرکے راستہ ڈھونڈا اور ایک پرائیویٹ ہسپتال پہنچے ۔جہاں گیٹ کیپر سے لیکر نرس تک ہر کوئی خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ ان صاحب کے کھڑکا پھڑکا کرنے پر نرس جاگی اس نے آنکھیں ملتے مستانی چال چلتے ہوئے جا کر ڈاکٹر کو جگایا ۔ ڈاکٹر آیا اور اعلان کردیا کہ اسے فورا چائلڈ اسپیشلسٹ کو جاکر چیک کروائیں ۔ موصوف باہر آئے آوارہ کتوں نے ان کو دیکھ کر رونے کی آوازیں نکالیں ایک نشئی نے کچھ مانگے بغیر دعا دی۔ ان صاحب نے بیوی کو دلاسہ دیا اور چلڈرن ہا سپٹل کی طرف گاڑی دوڑا دی سڑکیں سنسان تھیں کہیں کہیں میٹرو گردی سے سامنا ہوجاتا تھا۔ چلڈرن ہاسپٹل جاکر شور مچایا۔ نرس جاگی اس نے بچی کا ٹمپریچر چیک کیا ڈاکٹر صاحب آنکھیں مسلتے ہوئے آئے ۔ بچی کی چسٹ چیک کی اور نیبولائز کروانے کا مشورہ دیا۔ ہسپتال میں ایک ہی نیبولائزر موجود تھا جس کے ذریعے پہلے ہی ایک عدد دکھیاری ماں اپنے بچے کو سانس کی تکلیف سے نجات دلانے کی کوشش کر رہی تھی سو یہ میاں بیوی خاموشی سے اپنی باری کا اتنظار کرنے لگ گئے ۔ ہسپتال گندگی سے بھر پور تھا اوزار و آلات سب مہیا تھے لیکن گندگی اتنی کہ ناقابل بیان۔ بیس بیڈ تھے جن پر بیس مائیں اپنے بچوں کو آکسیجن تھراپی کروارہی تھیں۔ اتنے میں ایک دیہاتی جوڑا وارڈ میں داخل ہوا۔ چہرے مہرے سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ دونوں پاس کے کسی گاؤں سے آرہے ہیں دونوں کی بوکھلاہٹ لباس تراش خراش بکھرے بال ٹوٹی ہوئی چپلیں چیخ کر اعلان کر رہے تھے کہ اس لمحے ان کی جھولی میں بیمار بچی اور دکھ کے سوا کچھ نہیں ۔ بچی کو جھٹکے لگ رہے تھے ڈاکٹر نے سرسری سا چیک اپ کیا اور مشورہ دیا کہ بچی کو فورا آکسیجن لگوانے کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی یہ نوید بھی دی کہ اس ہسپتال میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بچی کو آکسیجن نہیں لگائی جا سکتی دونوں میاں بیوی لگے ڈاکٹر صاحب کی منت سماجت کرنے جب منت سماجت طبع خاطر پر گراہ گزری تو ڈاکٹر نے کہا “بیڈ اور نہیں ہے اگر پھر بھی سمجھ نہیں آرہی تو جاکر جس مرضی بچے کی آکسیجن اتار کر اپنے بچے کو لگا لو میں کچھ نہیں کر سکتا”۔ میرے دوست نے اس جوڑ ے کو وہی روتے دھوتے چھوڑا اور خود دوائی اور بچی کو لیکر گھر آگیا کیونکہ اسے اچانک یاد آیا کہ نیبولائزر تو اس کے گھر موجود ہے جو اس نے سال پہلے خریدا تھا۔ سو انتظار کی سولی پر لٹکنا اسے بے فائدہ محسوس ہوا ۔ میں کسی چھوٹے موٹے شہر کی بات نہیں کر رہا ہوں یہ دکھ بھری رات کی میرے دوست کی زبانی کہانی پنجاب کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر کی ہے۔ جی ہاں یہ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر کے حالات ہیں کون جانے وہ غریب جوڑا کہاں سے دھکے کھاتا ہوا اس آ س پر ملتان آیا کہ وہاں تو” وڈی اسپتال” بھی ہے ۔ بڑے بڑے ڈاکٹرز بھی ہونگے ۔ میٹرو کے اونچے ستون دیکھ کر اس جوڑے نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ جو شہر اتنے بڑے منصوبے بنانے میں مست اور مگن ہے وہاں بھلا ہماری نومولود بچی کے لئے دوائی اور ذرا سی آکسیجن کیوں نہیں ہوگی ۔ یہ بچارے شائد نہیں یقیناًاس حقیقت سے نابلد ہیں کہ دوائی انجیکشن پیراسیٹامول آکسیجن نیبولائزر بڑے شہروں کے خادموں کی ترجیحاتی فہرست میں شامل ہی نہیں۔ ان کی ترجیحاتی فہرست میں وہ منصوبے شامل ہیں جو
Physical Existence
رکھتے ہیں ہوں تاکہ جن کو دکھا کر اگلے الیکشن میں کامیاب کارکردگی نامی خون آشام بلا کا پیٹ بھرا جاسکے ۔ غریب کے بچے کو آکیسجن کے چند پف مل جانے سے بھلا کیا نیک نامی ہو سکتی ہے ۔غریب بچے بھلے جےءں بھلے مریں نا ان کی زندگیاں اہم ہیں نہ انکی موت سے نقصان ہے ۔ اس لئے ان کے ریسکیو کے لئے کوشش کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ جس تن لاگے وہی جان سکتا ہے وہی پہچان سکتا ہے ۔ خدا کسی کو براوقت نہ دکھائے اور حکمرانوں کو ان کے ماضی اسلاف کی طرف نظر ڈالنے اور غریب ترسی کی توفیق عطا فرمائے ۔ مدینہ شہر میں اجنبی اور دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے کو کچھ معلوم نہ تھا کہ اس کا مدد گار کون ہے ۔ ام کلثوم نے آواز دی” امیرالمومنین اپنے دوست کو خوشخبری دیں اللہ نے اسے بیٹے سے نوازا ہے ” یہ آواز سن کر وہجان پایا کہ جس نے اس غریب کو آدھی رات کو سلام کیا خیر خیریت پوچھی اس کے غصے کے جواب میں صبر کیا اس کا مسئلہ پوچھا پھراپنے گھر کی طرف لوٹ کر گیا اپنی زوجہ کو ساتھ لا کر دایہ کی ڈیوٹی انجام دینے پر لگایا۔ خود اس اجنبی کے بچوں کے لئے کھانا پکایا وہی امیر المومنین حضرت عمرٌ ہیں ۔ اس رات آپ نے خود پھونکیں مار مار کر آگ جلائی۔ ادھر اس دیہاتی کی بیوی حیران و پریشان اور ہکا بکا ہے کہ جس عورت نے اس کے لئے دایہ کے فرائض سرانجام دیئے وہ خاتون اول ہیں ۔ خلیفہ وقت کی عادت تھی روزانہ رات کو مدینہ منورہ کا گشت کیا کرتے ۔ رعایا خواب خرگوش کے مزے لیا کرتی اور خلیفہ ان کی مشکلات جاننے ان کی مدد کرنے کے لئے جاگتے پھرا کرتے۔ سلطنت کا رقبہ 22لاکھ مربع میل تھا ۔ آج چیخ و پکار جاری ہے کہ ملک خطرات میں ہے۔ سازشیں عروج پر ہیں ہر مسئلہ پر بے ہودہ سا غور و خوض جاری ہے ۔اگر کوئی غور کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو وہ ہے ہمار ا حکمران طبقہ اپنے اطور و عادات پر عیاشانہ طرز عمل پر۔ جب عوام کے خادم راتوں کو سوئیں اور غریبوں کے بچوں کو رات کو بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں چند سانس آکسیجن ایک بیڈ اور گرم کمبل تک نہ ملے تو پھر ایسی دھرتیوں پر خدا کا انصاف نازل ہوا کرتا ہے اور یہ انصاف بلا تمیز و بلا تفریق ہوا کرتاہے ۔ پھر کشتیاں ہی مسافروں کو ڈبودیا کرتی ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/hn7gfjk
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *