حالیہ کنٹونمنٹ کے انتخابات اور سیاسی جماعتیں۔۔۔۔ تحریر: ملک محمد ممریز، اٹک

Malik Muhammad Mumraiz
Print Friendly, PDF & Email

ملک بھر میں بالآ خر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق الیکشن کمشن آف پاکستان نے 17سال کے بعد کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کرادیے ۔الیکشن کمیشن یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرا رہا تھا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرا ئے گئے۔
اس سے پیشتر پر انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوتے تھے اور یوں سیاسی جماعتوں کا بھرم رہ جا تا تھا اور اکثریت منتخب نمائندوں کی حکومت وقت کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے ۔چونکہ حالیہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہو ئے تو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دیا ۔جبکہ اس کے باوجود بہت بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں نے حصہ لیا اور کامیاب بھی ہو ئے۔
۔2013ء کے انتخابات کے بعد دھاندلی کا اتنا شعور تھا جس طرح پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگایا ۔پھر عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا ۔جب مطالبہ پورا نہ ہو ا تو احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا ۔جس کے سلسلہ میں حکومت اور اپوزیشن نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا۔جس کا فیصلہ ابھی آنا باقی ہے اسکے بعد انتخابات میں دھاندلی کرنا بہت مشکل ہے۔
حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی دھاندلی کے الزام نہیں لگائے گئے مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت ہے ۔جبکہ پنجاب میں بھی مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے ۔جبکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی ،سرحد میں پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان میں اتحادی حکومت ہے ۔
انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 67نشستیں لے کر پہلی پوزیشن حاصل کرلی ۔جبکہ 57آزاد امیدوار کامیاب ہو گئے ۔پاکستان تحریک انصاف نے 43نشستیں حاصل کیں ۔جبکہ 19نشستیں ایم کیو ایم  پاکستان پی پی پی نے7جماعت اسلامی 6 ،جبکہ اے ۔این۔۔پی نے 2نشستیں لیں۔
ان انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو پاکستان مسلم لیگ(ن) نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں لیکن اگر لاہور اور راولپنڈی کے نتائج جس میں بہت بڑی اکثریت مسلم لیگ(ن) کو ملی سے ہٹ کر سوچا جا ئے تو صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے ۔
کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں بڑی جماعتیں پورے ملک سے نمائندگی کرتی رہی ہیں۔جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اور دوسرے صوبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی پارٹی کو منظم کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنی پالیسیوں پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ پورے ملک میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن بہترھو۔
پاکستا ن پیپلز پارٹی جوکہ وفاق کی علامت کے طورپر ایک جماعت رہی جس کے ورکر اور ووٹر پورے ملک کے کونہ کونہ میں موجود ہیں ۔حالیہ کنٹونمنٹ کے انتخابات کے بعد اُن کو بہت ہی غورو غوض کی ضرورت ہے ۔تاکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں وہ اپنی کارکردگی بہتر بنا سکیں کیونکہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ ایک وفاق کی علامت اور بڑی جماعت محدود ہو تی جارہی ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر ے اور پارٹی کو منظم کریں کیو نکہ حالیہ انتخابات میں بہت کمزور ہو گئی ہے۔
ان انتخابات کے نتائج میں پاکستان تحریک انصا ف نے بظاہر 43سیٹیں لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی ۔اگر لاہور اور راولپنڈی
میںپی ٹی آئی کچھ سیٹیں لے لیتی تو صورتحال کیا بنتی ۔جہاں پی ٹی آئی کو بھی غور وفکر کی ضرورت ہے وہاں اُس کے لیے یہ نتائج حوصلہ افزاء بھی ہیں کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اور سب سے بڑی بات کہ پور ے پاکستان سے سیٹ حاصل کرنا اور بڑی تعداد میں ووٹ لینا یقیناًآئندہ کے لیے اُن کے لیے نیک شگون بھی ہے ۔
تاہم ایم کیو ایم نے حیدر آباد اور کراچی سے 19سیٹ لے کر اپنی پوزیشن مستحکم رکھی ۔جماعت اسلامی اور اے این پی کو بھی غور و غوض کرنے کی ضرورت ہے ۔حالیہ انتخابات میں بہت بڑی تعداد میں آزاد امیدوارو بھی کامیاب ہو ئے۔اٹک میں بھی تین کنٹونمنٹ بورڈ کے دفاتر ہیں ۔اٹک کینٹ ، پی او ایف سنجوال،اور کامرہ کینٹ ۔ان تینوں میں دودو جنرل نشستیں تھیں ۔جوکہ کل 6بنتی ہیں ۔اٹک کینٹ جو بہت پرانا ہے ۔اُس میں دو امیدوار آزاد حیثیت میں حصہ لے رہے تھے دونوں پرانے امیدوار جو پہلے بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔جن میں غلام خان بنگش اور ملک شاہ نواز خان تھے ۔اس دفعہ بھی انھوں نے آزاد حیثیت سے حصہ اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہو ئے ۔دو امید واروں کو مسلم لیگ (ن) کے شیخ آفتاب احمد وزیر مملکت پارلیمانی امور اور سابق ضلع ناظم میجر(ر) طاہر صادق اور دیگر گروپوں کے حمایت حاصل تھی۔جبکہ ان کے مقابلہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار تیمور اسلم او رشیخ ظہور تھے جن کو سابق وزیر مملکت ملک امین اسلم اور واجد بخاری کی حمایت حاصل تھی۔
جبکہ پی او ایف سنجوال سے ایک سیٹ مسلم لیگ(ن) کے امیدوا ر عاشق حسین ملک ایک سیٹ پر  پی ٹی آئی کے امیدوار رحمت اللہ نیازی کامیاب ہو ئے ۔اس نشست پر  پی ٹی آئی کے امیدوار کو میجر طاہر صادق کی بھی حمایت حاصل تھی۔
کامرہ کینٹ سے بھی ایک سیٹ مسلم لیگ(ن) نے اور ایک  پی ٹی آئی نے حاصل کی ۔اس طرح اگر اٹک میں موازنہ کیا جا ئے تو 6سیٹوں پر دو آزاد امیدوار کامیاب ہو ئے ۔دو مسلم لیگ(ن) اور دو  پی ٹی آئی نے حاصل کی ۔جبکہ پاکستان پی پی کہیں نظر نہیں آتی ۔ان انتخابات کے نتائج کے بعد تما م جماعتوں کو اپنی کارکردگی پر غور کرنے کی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔اور سمجھنے والوں کے لیے واضح اشارے ہیں کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات جو ستمبر میں منعقد ہو نے ہیں ان کے کیا نتائج آسکتے ہیں ۔اس کے لیے اب بھی وقت ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ عوام کی خدمت کی جا ئے اور اُن کے مسائل حل کر نے کی کوشش کی جا ئے اور اچھے امیدوار تلاش کیے جائیں جن میں اپنے علاقہ کے لوگوں کی خدمت کا جذبہ موجود ہو ۔

Short URL: http://tinyurl.com/jsq9c9e
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *