اوراب مذاکرات کی کوشش؟

Mir Afsar Aman
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: میر افسر امان
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے پا ینچ معز زججوں میں دو ججوں کی طرف سے نا اہل قررار دیے جانے اور تین ججوں کی طرف سے، مذید تحقیق کر لینے کے فیصلے پر نواز لیگ نے مٹھایاں تقسیم کی تھیں۔دیکھو، تین جج صاحبان فیصلہ لکھا ہے کہ مذید تحقیق کر لی جائے۔ہم نے اپنے کالم میں اس پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نواز لیگ کی طرف سے، سوچے سمجھی اسکیم کے تحت ایسا گیا گیا تھا۔ اُس فیصلہ میں کسی بھی جج نے نواز شریف کو صادق و امین تو قرار نہیں دیا تھا۔ صرف اتنا کہا تھا کہ مزید تحقیق کر لی جائے۔ دوسرے لفظوں میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے نواز شریف کو ایک موقعہ فراہم کیاتھا کہ وہ اپنی بریت کے لیے ثبوت فراہم کر سکے۔ مگر نواز شریف منی ٹرائل پیش نہ کر سکے ۔صرف قطری شہزادے کا ایک مہمل سا خط پیش کیا تھا۔قطری شہزادہ گواہی دینے کے لیے تیار نہ ہوا تھا۔ اور بلا آخر پورے بینچ نے متفقہ طور پر نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا۔ اگر نواز شریف ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ پر من وعن رضا مندی سے عمل کرتے تو ان کے ہی حق میں بہتر ہوتا۔ مگر نواز شریف اور اس کی ٹیم نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، کرپشن میں جاری مقدمات کے دوران فوج اور عدلیہ کے خلاف بھرپور طریقے سے مہم جاری رکھی۔ کچھ کو آئین پاکستان کے مطابق عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف ہرزاسرائی پر سزا بھی ہو چکی ہے اور کچھ کے مقدمے زیر سماعت ہیں۔ نوازشریف کی سوچ تھی کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ نے ان کے خلاف پہلے سے طے شدہ فیصلہ دیا ہے۔ فوج کے خلاف بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب کٹ پتلیوں کا ڈرامہ نہیں چلنے دیا جائے گا۔ فوج مارشل لا لگانے والی ہے۔ جمہوریت کو ختم کرنے والی ہے۔ ۷۰ سال سے ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو نہیں مانا گیا تو ملک ٹوٹ گیا۔ عدلیہ نے دورا معیار اپنا رکھا ہے۔ عدلیہ کسی کو لاڈلا سمجھتی ہے اور میرے خلاف جانبدارنہ فیصلے دیتی ہے ۔ہم نے نوازشریف کے سارے الزامات پر تجزیہ کرتے رہے
اور عوام کو بتاتے رہے ہیں کہ مسئلہ نہ فوج نے نہ ہی عدلیہ نے پیدا کیا ہے۔ دنیا کی آزاد صحافیوں کی تنظیم نے پانا پیپر کا کھوج لگایا۔جس میں حسن اتفاق کہ نواز شریف کی فیملی کا نام بھی آف شور کمپنیاں رکھنے والے لوگوں میں نکل آیا۔ جدیدجمہوری حکومتوں میں حزب اختلاف حکمرانوں کی کرپشن پر سوال اُٹھاتی رہتی ہیں اور حکمران اس کا جواب دیتے رہتے ہیں۔ اس ہی حق کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی اپوزیشن نے نواز شریف کے خلاف پارلیمنٹ میں سوال اُٹھایا گیا۔دنیا کے دوسرے ملکوں نے اپنے اپنے آئین کے مطابق کیس نپٹا دیے۔ کسی ملک کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا تو کسی نے عدالتی کاروائی کا سامنا کیا۔ مگر نواز حکومت نے عدلیہ کے حکم کے مطابق ٹی او آر بنانے میں پس و پیش کیا۔ اس دوران تنگ آکر اپوزیش کی تین جماعتوں نے سپریم کورٹ میں مقدمہ درج کروایا۔ اس سے قبل نوازشریف نے حق صفائی استعمال کرتے ہوئے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک د فعہ پارلیمنٹ میں اپنی صفائی پیش کی۔ نواز شریف نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو خط لکھا کہ وہ کیس سن کر فیصلہ دیں۔ نواز شریف کے کہنے پر عدلیہ نے مقدمہ سنا۔ نواز شریف نے عدالت میں جعلی ڈاکومنٹ جمع کروانے،مہمل سا قطری خط پیش کرنے،پاکستان کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے غیر ملک کاآ قامہ حاصل کرنے اور اپنے بیٹے کی باہر ملک کمپنی کا عہدیدار ہوتے ہوئے تنخواہ نہ لینے اور اپنے انکم ٹکیس گوشوارے میں ظاہر نہ کرنے اورغیر ملک میں اسٹیل مل لگانے کی منی ٹرائیل کے ثبوت نہ پیش کر سکنے پر آئین پاکستان کی دفعہ ۶۲۔۶۳ کے تحت نواز شریف کو صادق و امین نہ ہونے پر نا اہل قرار دے دیا۔ کیا یہ نواز کے ساتھ انہونی ہوئی تھی۔ کیا اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظموں کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ نا اہل قرار نہیں دے چکی۔لہٰذا نوازشریف کی عدلیہ خلاف مہم ہر حالت میں ناجائز ہے۔نواز شریف ہمیشہ اپنے ملک کی فوج کے خلاف حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ ایک دفعہ فوج کے خلاف الزامات پر اپنے ایک سینیٹر ، بعد میں ڈان لیکس پر اپنے وزیراطلاعات اور کچھ بیروکریٹ کے خلاف کاروائی کرتے ہوے برطرف کیا۔ نا اہل ہونے پر فوج پر شک کیا اور فوج کے خلاف اب خود بولنے لگے ۔فوج نے واضع بیان دیا کہ ملک کے حالات خراب ہیں۔ ملک حالت جنگ میں ہے۔ ملک میں کہیں بھی مارشل لا نہیں لگے گا۔فوج ملک میں جمہوریت کے حق میں ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق سول حکومت کے ہر حکم پر عمل کیا جائے گا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے سپہ سالار ایوان بالا میں گئے اور اپنی پوزیشن واضع کی۔ ملک میں آئین کے مطابق نواز شریف کے بعد نون لیگ کے جناب شاہد خاقان عباسی صاحب کو ملک کی پارلیمنٹ نے نیا وزیر اعظم جن لیا۔ وقت پر ایوان بالا کے خالی ہونے والی نشستوں پر الیکشن ہوئے۔ ایوان بالا میں پاکستان کے آئین کے مطابق نیا چیئرمین بھی منتخب کر لیا گیا۔ وقت پر عام انتخابات بھی ہو جائیں گے ۔جو جیتے گا حکومت کرے گا۔ نوازشریف کے جانے سے نہ آسمان گرا ،نہ زمین پھٹی ملک میں جمہوری کا نظام چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ہاں کرپشن نہیں چلے گی۔ نواز شریف کی فوج کے خلاف مہم بھی ناکام ہو گئی۔ نواز شریف نے کہا کہ شیخ مجیب کے عوامی مینڈیٹ کو فوج نے تسلیم نہیں کیا تو پاکستان ٹوٹا۔دبے لفظوں میں میرے مینڈیٹ کو بھی تسلیم نہیں کیا جارہا تو خدانا خاستہ پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 
جناب!شیخ مجیب کے پاس اصلی مینڈیٹ نہیں تھا۔ وہ انتخابات بنگالی قومیت، بدمعاشی، جبر، ظلم اور بھارت کی مدد سے انتخابات جیتے تھے۔ غدار پاکستان کے اپنے بیان کے مطابق کہ وہ ۱۹۴۸ء سے ہی بنگلہ دیش بنانے کے پرگروام پر عمل کرتا رہا ہے۔(حوالے کے لیے دیکھیں مضمون جناب ڈاکٹر صفدر صاحب، مانامہ ترجمان القران فروری۲۰۱۸ء)۔
صاحبو!اصل میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق نیب عدالت میں نوازشریف کی کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں جن کا فیصلہ آنے والا ہے۔کرپشن سے دباؤ ہٹانے کے لیے نواز شریف ملک کی سالمیت کوبھی دباؤ پر لگانے کی عظیم غلطی کرتے رہے ہیں۔نواز شریف اپنی کرپشن چھپانے کے لیے ملک کے محب وطن حلقوں اور عوام سے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ سب کرتے رہے ہیں۔پہلے مرحلے میں وہ دباؤڈال کر ہمدردی حاصل کر چکے۔اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعداب مقتدر حلقوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈال رہے ہیں۔ان کے حامیوں کے نزدیک پہلا مرحلہ کامیا بی سے سر کرلیا گیا ہے۔ اب اگلے مرحلے کی تیاری ہے۔ یہ بھی لکھا جارہا کہ ڈیل کر کے نواز شریف ملک سے باہر جانے کی اسکیم پر بھی سوچ رہے ہیں۔ملک کے سینئر کالم نگار وں کے مطابق شہباز شریف نون لیگ کی صدارت سنبھالنے کے بعد فوج کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات میں مذاکرات کی بات کی ہے۔ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ ملک کی فوج کو سیاست سے کچھ واسطہ نہیں۔ آپ اپنے معاملات پاکستان کے آئین کے مطابق حل کریں۔اب مذاکرات کی کوشش بھی نواز شریف کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔عوام کا مطالبہ ہے کہ کرپشن جس بھی نے بھی کی ہے اس سے پیسے واپس لیکر خزانے میں داخل کیے جائیں۔ اب اگر نواز شریف کے ساتھ ریایت کی گئی تو پاکستان میں کرپشن کرنے والے مذید کرپشن کریں گے۔ جس سے خدا ناخاستہ پاکستان تباہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔کسی سے کوئی بھی ڈیل نہ کرے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxfbb822
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *