لاپتہ افراد کا عالمی دن
تحریر: حفیظ خٹک
قومی یا عالمی سطح پر دن منانے کا مقصد اس موضوع یا معاملے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، جس طرح ہر انسان کا یوم پیدائش اس کیلئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح ملکی سطح پر کسی بھی ملک کا یوم آزادی اس کیلئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے او ر اس روز کو منایا جاتا ہے۔ ماضی کو یاد کرتے ہوئے حال اور پھر مستقبل کی باتیں اور وعدے کرنے کے ساتھ عزائم رکھے جاتے ہیں اور پھر ان کی تکمیل کیلئے آگے بڑھا جاتا ہے۔ماہ اگست وطن عزیز کیلئے اہم ماہ ہے اور اسی ماہ میں اک دن ایسا آیاتھا جب برصغیر کے مسلمانوں نے قرار داد پاکستان کیلئے سات برس تک جہد مسلسل کی اور پھر چودہ اگست کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ یوم آزادی کے روزکو قومی سطح پر منایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہیگا۔ماہ اگست میں تیس اگست کا دن عالمی سطح پر لاپتہ افراد کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کا عالمی دن برسوں سے منایا جارہا ہے اور ہر سال اس روز وطن عزیز سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب، اپنے پیارے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اپنے گھروں سے قدم نکالتے ہوئے کہیں مظاہرہ، کہیں احتجاج، کہیں سیمینار کرتے ہیں ان کی غرض و غایت اس کے پیچھے یہی ہوتی ہے کہ ان کے پیارے جو کہ لاپتہ ہیں انہیں بازیاب کیا جائے اور ان کو اپنوں سے ملوایا جائے۔پاکستان میں بھی لاپتہ افراد کے معاملات ہوتے ہیں، شہری لاپتہ ہوتے ہیں اور ان کے اپنے ان کی تلاش میں نکلتے ہیں، تھانوں میں رپوٹیں درج کرانے کے ساتھ پرامن مظاہرے بھی کرتے ہیں اور بسا اوقات طویل پیدل مارچ بھی کرتے ہیں۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں وہ لاپتہ افراد بازیاب ہوتے ہیں اوربعض نہیں ہوتے ہیں، لواحقین اپنوں کی بازیابی کیلئے طویل جدوجہد بلکہ جہد مسلسل کرتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، کیا جاری رہے گا بھی یا ختم ہو جائیگا؟ یہ اک طویل اور صبر آزما مسئلہ ہے جس کا حل بہرحال ضروری ہے۔ کیونکہ چند لمحوں کیلئے ہی سہی ذرا تصور کریں، آپ کا اپنا کوئی بھی آپ سے بچھڑتا ہے اور آپ کو معلوم بھی نہیں ہوتا ہے کہ و ہ کہاں ہیں؟ زندہ بھی ہے یا نہیں، اگر زندہ ہے تو کس حال میں ہے؟ تو ایسے موقع پر کیا کیفیات ہونگی؟ یقینا بہت تکلیف دہ، بہت زیادہ کٹھن وہ وقت ہوتا ہے کہ جب کوئی اپنا بچھڑتا ہے۔پاکستان میں لاپتہ افراد کا جونہی ذکر ہوتا ہے یا ان کی بات ہوتی ہے تو اک خاتون محترمہ امنہ مسعود جنجوعہ سامنے آتی ہیں، جی ہاں وہ امنہ مسعود جنجوعہ کو کہ اپنے لاپتہ ہونے والے شریک حیات کی تلاش میں گھر کی دہلیز سے قدم نکالتی ہیں اور اب تلک ان کی تلاش میں، ان کی بازیابی کیلئے جہد مسلسل کر رہی ہیں، اب تک ان کی کاوشیں اپنے شوہر کی بازیابی کے حوالے سے کامیاب نہیں ہوپائیں ہیں تاہم ان کی جدوجہد کے باعث ساڑھے سات سو سے زائد لاپتہ افراد بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں اور اپنی زندگیوں کو اچھے انداز میں گذار رہے ہیں۔لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے امنہ مسعود جنجوعہ کی جدوجہد اب اک طویل داستان کی مانند ہے، انہوں نے رنگ و نسل سے بالاتر رہتے ہوئے ہر لاپتہ ہونے والے کیلئے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی صوبے و علاقے سے ہو، اس کیلئے آواز اٹھائی ہے۔ قانونی کاروائی بھی مسلسل کرتی رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی لاپتہ ہونے والے افراد کے خاندانوں کی معاشی معاونت بھی کرتی رہی ہیں، اپنے انٹرویوز میں وہ یہ بتاتی ہیں کہ لاپتہ افراد کا درد بہت شدید ہوتا ہے، زندگی کا خاتمہ تو ہر انسان کا ہونا ہے اور جو بھی انسان اس دنیا میں آتا ہے، اپنی زندگی کا وقت گذار کر وہ چلا جاتا ہے،تاہم وہ لوگ جو کہ لاپتہ ہوتے ہیں ان درد بہت تکلیف ہوتا ہے کیونکہ ان لاپتہ افراد کے پیاروں کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ان کا اپنا زندہ بھی ہے یا نہیں۔ مسعود جنجوعہ کی بازیابی کے حوالے سے جب بھی ان پوچھا جاتا ہے تو وہ یہ کہتی ہیں کہ انہیں امید ہے اور امید اللہ تعالی سے ہی ہے کہ وہ ایک روز ضرور آئیں گے، اسی امید پر وہ ان کی بازیابی کیلئے جہد مسلسل کر رہی ہیں اور فلاح انسانیت کے اس سلسلے کو وہ جاری رکھیں گی۔اسلام آباد کے پریس کلب پر چند روز جب آزاد کشمیر کے علاقے باغ سے لاپتہ ہونے والے زرنوش نسیم کی بازیابی کیلئے مظاہرہ کیا جارہا تھا تو اس مظاہرے میں سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شریک تھے اور ان کے ساتھ ہی ممتاز کشمیری شاعراحمد فرہاد بھی وہاں موجود تھے، امنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے دیگر لوگ بھی موجود تھے، ان ہی مظاہرین میں لاپتہ ہونے والے فرد زرنوش کی شریک حیات اپنی بیٹی کے ساتھ تھیں اور زرنوش کی والدہ اور دیگر عزیز و اقارب بھی وہاں موجود تھے، سب ہی نے لاپتہ فرد کی بازیابی کیلئے نعرے لگائے اور تقاریر کیں جس میں حکومت قوت سے یہ تقاضا کیا گیا کہ جب کشمیر کے عوام بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف یکجا ہوکر احتجاج کرسکتے ہیں اور اپنے مطالبات منواسکتے ہیں تو باغ سے لاپتہ ہونے والے کشمیر کے بیٹے کیلئے بھی کشمیر کی عوام اٹھے گی اور زرنوش کی بازیابی تک پرامن مظاہرے کریں گے۔ گوکہ اس روز ہونے والے مظاہرے کے چند روز بعد ہی زرنوش نسیم اپنے گھر پہنچ گئے تھے تاہم اس مظاہرے میں ان کی والدہ کی گفتگو نے سب ہی کو متاثر کیا تھا۔ماں، تو ماں ہوتی ہے اور ماں اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے ستائیس سال کے بیٹے کیلئے روز جیتی ہوں اور روز مرتی ہیں، مجھے میرا بیٹا چاہئے، جگر کے سرطان کی میں مریضہ ہوں لیکن اپنے بیٹے کیلئے میں جب طویل سفر کرکے یہاں تک آئی ہوں تو اس کی بازیابی کیلئے میں صدر و وزیراعظم کے ساتھ سپریم کورٹ تک بھی جاؤں گی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے میرے بیٹے کو سامنے لائیں، اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزا دیں لیکن اس کو لاپتہ نہ کریں۔ ماشاء اللہ اس ماں کا لاپتہ بیٹا اب ان کے سامنے آگیا ہے اور یقینا وہ ماں اور اس کی بہو و پوتی سمیت تمام گھر کے افراد اب مطمئن و مسرور ہوں گے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی ازحد ضروری ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بلوچستان میں مظاہرے ہوتے ہیں، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں اسی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب طویل دہرنا دے کر بیٹھے رہے اور پھر امیدیں لے کر وہ واپس چلے گئے۔ تاہم ان کی امیدیں آج بھی اسی طرح سے قائم ہیں اور وہ اب بھی اپنوں کی بازیابی کیلئے امنہ مسعود جنجوعہ کی طرح جہد مسلسل کر رہے ہیں۔افراد کا لاپتہ کیا جانا اک غلط اقدام ہے اور پھر لاپتہ افراد کا طویل مدت غائب رہنا بھی اک بڑا سخت مرحلہ ہے۔ لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر حکومت وقت کو لاپتہ افراد کے حوالے سے ٹھوس قدم اٹھانا چاہئے، ان کی بازیابی کیلئے آگے بڑھنا چاہئے۔ وہ ایسا کریں گے تو اس کے مفید اثرات مرتب ہونگے اور اگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا تو اس کے منفی اثرات سامنے آئیں گے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کا یہ دن اس نقطے کا عکاس ہے کہ لاپتہ افراد کو سامنے لائیں، قانونی کاروائی کے مطابق جنہوں نے بھی جرائم کا ارتکاب کیا انہیں قانون کے مطابق ہی سزا دیں اور جو کسی بھی طرح سے کسی جرم کے مرتکب نہیں انہیں باعزت بری کریں تاکہ وہ اپنی زندگی کو اپنوں میں گذاریں اور اپنی ذات سمیت اپنوں کیلئے اپنے ملک کیلئے اچھا کریں۔
Leave a Reply