صحافت کا قتل

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: سدرہ ثاقب

پاکستان دنیا کے ان پانچ مملک میں شامل ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ صحافت سے وابستہ لوگوں کو بھی جان اور عزت کا خطرہ انتہا سے زیادہ درپیش ہے پچھلے چھ سالوں میں ستر سے زیادہ صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے اسکے ساتھ ساتھ شوبز اور اینکر ز کو بھی دھمکیاں گھر والوں کو بھی جان سے مار دینے کی دھمکیا اور ڈرانے کا سلسلہ جاری ہے جو بہت تشویشناک بات ہے گزشتہ سال ارشد شریف کا قتل کینیا پولیس کے ہاتھوں ایک ایسا المناک واقعہ ہے جس نے پوری دنیا کی جرنلزم اور اس سے وابستہ لوگوں کو دکھی اور افسردہ کر دیا وہ اپنی جان بچاتے ہوئے پہلے دوبئی میں رکا مگر اسکے لئے وہاں بھی زمین تنگ کر دی گئی اور اسے کینیا جانا پڑا جہاں اسے ویران جنگل میں گولیاں مار کر ابدی نیند سلا تے ہوئے یہ پیغام دیا گیا کہ جو شخص ہمارے خلاف آواز اٹھائے گا اسکو ہمیشہ کے لیے سلا دیا جائے گا ارشد شریف کی موت سب کے لیے کھلی دھمکی تھی کہ ہماری ریڈ لائن کو عبور کرنے کی سزا صرف موت ہے سلیم شہزاد کو 30 مئی کو گولیا مار کر قتل کر دیا گیا پھر اپریل 2014 میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ اسد طور کو مئی 2021 میں نامعلوم جگہ پر لیجا کر تشدد کیا گیا اور بھی بے شمار صحافیوں کو دھمکیاں اور فیملیوں کو اٹھانے کی باتیں کی جاتی ہیں وجہ صرف سچ کی آواز کو دبانا اور اپنے جھوٹ کا پرچار طاقتور حلقوں کی پہلی ترجیح ہے 2021 میں پاکستان حکومت نے باقاعدہ صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے قومی اسمبلی سے قرارداد بھی منظور کروائی مگر حقیقی طور پہ یہ بھی صرف فائلز تک ہی محدود رہ گئی اور آج بھی صحافت سے منسلک خواتین و حضرات کی زندگیاں محفوظ نہیں ایک سروے مطابق پچھلے چار سالوں میں پرنٹ میڈیا سے منسلک اکتیس الیکٹرونک میڈیا کے 23 ڈیجیٹل میڈیا کے 4 لوگوں کو دھمکیوں سے ڈرایا گیا نامعلوم جگہوں کے جانا اور تین تین مہینوں تک پتا نہ چلنا کہ آپ کدھر ہو زندہ بھی یا مر گئے یہ بات معمولی سمجھی جاتی ہے سچ بولنے کی قیمت ہمیشہ چکانی پڑتی ہے کیونکہ سچ کڑوا اور خطرناک ہوتا ہے کئی صحافی چند ٹکوں کے لئے اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں مگر کچھ دلیر اور بہادر صحافی سچ کے علم کو ہمیشہ بلند رکھتے ہیں اور پھر انکی قیمت پیسہ نہیں خون چلاتا ہے صحافت کو اگر دیکھا جائے تو یہی شعبہ زندگی کا وہ پہلو ہے جو کہ جہاد کے زمرہ میں آتا ہے بیشک قلم کا جہاد میدان کے جہاد کے بعد آتا ہے پاکستان جیسے ملک میں جدھر انسانی حقوق کی کھلم۔کھلا خلاف ورزی ہے ادھر بطور صحافی کام کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ تالاب میں گر جائیں اور آپ کے ارد گرد مگر مچھ ہوں انسے بچ کر زندہ نکلنا ہی بہادری ہے ارشد شریف کو دنیا سے گزرے تقریبا 6 ماہ ہو چکے مگر اسکے قتل کی ایف آئی آر ابھی تک درج نہ ہو سکی جو ثبوت ہے اس بات کا کہ اس ملک میں ریاست سے بڑھ کر بھی کوئی طاقتور ہے اور وہ نامعلوم ہے صحافیوں کو اٹھانا تشدد زہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کرنا حتیٰ کہ جان سے مروا دینا پاکستان جیسے ملک میں کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ قانون کا جال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے جسے طاقتور چیر کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا مشہور صحافیوں پر حملہ ہو تو سب میڈیا جمع ہو جاتا مگر دور دراز کے مقامی صحافی کو خاموش کروا دیا جاتا ہے اور گھر والوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ۔ اگر تم نے آواز اٹھائی تو تمہیں بھی خاموش کر دیا جائے گا موت اور خوف کے سائے میں یہ لوگ صلح صفائی یا دیت لے لیتے ہیں اور یہی بات مین سٹریم میڈیا پر کبھی نہیں آتی مردوں کے لئے تو صحافت مشکل تھی مگر جب سے خواتین نے بھی اس میں شرکت کی ہے انکو بھی دھمکانے کا سلسلہ شروع ہو گیا عروج اقبال کو اس کے شوہر نے ہی لاہور میں قتل کر دیا کیونکہ وہ اپنا خود کا چینل بنانا چاہتی تھی جسمیں وہ سچ کو پروموٹ کر سکے دوسرا شاہینہ شاہین بلوچستان سے کو اس کے خآوند نے شادی کے محض تین ماہ بعد اس لئے قتل کردیا کے وہ اس پیشے کے خلاف تھا ان دونوں کیسز میں سپنوں نے ہی انکو مار دیا کیونکہ وہ اس معاشرے کو آئینہ دکھانے چلی تھیں جہاں مرد کو اپنا ہی گھناؤنا چہرہ نظر آتا ہے آج سے پچیس تیس سال پہلے شاعر ادیب اور صحافی جب کبھی طاقتور کے خلاف کچھ لکھتے تو یا تو جلا وطن کر دئے جاتے یا کوڑے کھاتے لیکن آج 2023 میں سوشل میڈیا نے سب کو ایکسپوز کر کے رکھ دیا ہے اور لوگ بھی جلدی کسی بات کا اعتبار اور یقین کرتے ہیں اپنی بات کا اختتام حبیب جالب کے شعر سے کروں گی

اب گناہ و ثواب بکتے ہیں
مان لیجیئے جناب بکتے ہیں
پہلے پہلے غریب بکتے تھے
اب تو عزت مآب بکتے ہیں

Short URL: https://tinyurl.com/2qp5e3xp
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *