انصاف کا 129واں نمبر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: سدرہ ثاقب

پاکستان ایک ایسا ملک جدھر غریب امیر کو پالتا ہے عام انسان اشرافیہ کے ٹیکس ادا کرتا بیوروکریٹس کو عامعواماپنا خون اور دودھ نچوڑ کر پلاتے ہیں اور ہمارا عدالتی نظام دنیا میں 129 ویں نمبر پر آتا ہے انصاف کے لحاظ سے اور دنیا کا دوسرا ملک جدھر ججز کی مراعات اور تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں ایک پچھتر سالہ بزرگ اپنے مکان کا قبضہ چھڑانے کے لئے پچیس سال تک انصاف کا دروازے کھٹکھٹاتا رہا اور جب اسے انصاف ملا تو اسے مرے ہوئے بھی دو سال گزر چکے تھے پانچ سالہ بچے پر چوری اور ڈکیتی کا مقدمہ بنا دیا جاتا ہے جسمیں ہماری پولیس بھی پیش پیش ہوتی ہے بچیوں سے زیادتی کے ملزم ناکافی ثبوتوں کی بنا پر آزاد گھومتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ کفر کا نظام چل سکتا مگر ظلم کانہیں کیوں ہمارا عدالتی نظام آج پاتال کی گہرائیوں میں گر چکا کیونکہ طاقتور لوگ وکیل کی بجائے جج کر لیتے ہیں یورپ اور امریکہ کہنے کو کافی دیس ہیں مگر انصاف ایسا کہ مجرم کا بچ جانا جرم کے بعد ایسا ہی ہے کہ جیسے شیر نے شکار ہضم کر لیا ہو اور اس کے حلق سے وہ نوالہ کھینچ لیا جائے آج بھی دنیا میں کسی بھی جگہ دو لوگ لڑ پڑیں تو کمزور کہتا ہے “آئی ول سی یو ان دی کورٹ” کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ مجھے کہیں اور نہیں تو ادھر سے انصاف ضرور ملے گا مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کمزور کہتا ہے میں تمہیں پوچھ لوں گا روز قیامت۔ پاکستان میں عدالتی نظام ایسا کھوکھلا ہو چکا ہے جسکی مثال نہیں ملتی لوگوں کا بھروسہ اٹھ چکا ہے وہ عدالت میں جانے کی بجائے اپنیمسائل جرگہ اور پنچائت میں طے کر لینا بہتر سمجھتے کچھ عرصہ پہلے عورتوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر زیادتی کی جاتی تھی پولیس نے ملزم پکڑے مگر عدالت نے ناکافی ثبوت کا کہہ کر بری نکر دئے شاہ زیب قتل ایک کھلا کیس مگر ملزم ایک وڈیرے کا بیٹا ہونے کے ناطے معاف کر دیا جاتا ہے بچیوں سے زیادتی ہو قتل کیسز ہوں سب میں تاخیر ہے کچھ بے گناہ پکڑے جاتے ہیں تو انکو بھی رگڑ دیا جاتا ہے اور جو اصل طاقتور مجرم ہوتے انکو آزاد کردیا جاتا یا وہ جیل میں بھی پورے پروٹوکول اور جاہ و کے ساتھ رہتے۔ قانون کی کتابیں یہ پڑھ تو لیتے ہیں مگر اس کے بعد یہ الماریو میں پڑی رہ جاتی ہیں اور انصاف منہ دیکھتا رہ جاتا تاکہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جرائم کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی اور مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور جو گرفتار ہوتے وہ ناکافی ثبوت کی بنا پر آزاد ہو جاتے اس وجہ سے انکے دل سے قانون کا احترام اور خوف ختم ہو جاتا ہے بچپن میں ہم جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا مقولہ سنا کرتے تھے مگر سمجھ نہیں آتا تھا مگر آج اپنے ملک کے حالات کو دیکھ کر اس مقولے کی سچائی پر یقین آگیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ میں فرمایا تھا کہ تم سے پہلی قومیں اسلئے تباہ ہو گئیں کہ وہ طاقتور کو آزاد اور کمزور کو قید کر لیتی تھیں تم ایسا نہ کرنا آج لوگ پولیس اور عدالت میں جانے سے گھبراتے ہیں کیونکہ انکا اعتماد ختم ہو چکا ہے پکڑنے پہ آئیں تو یہ بکری چور کو تین سال کی سزا دے دیں اور چھوڑنے پر آئیں تو پشاور سکول پر حملہ کرنے والے سہولت کاروں کو ناکافی ثبوت کی بنا پر آزاد کر دیں شائد بحثیت قوم ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ صحیح ہے ہم اسی قابل ہیں کیونکہ ہمارے خود کے اندر اتحاد نہیں ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں دن کے اجالے میں کوئی کسی کو کھلے عام گولیاں مار کر چلا جاتا اور پکڑا بھی جاتا مگر افسوس عدالت میں کوئی گواہی نہیں دیتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسکی جان کو کوئی جج وکیل یا پولیس تحفظ نہیں دے پائیں گے اگلے سال ترقی کی بجائے 130 نمبر پر تنزلی کی بھرپور امید رکھتے ہوے یہ مضمون ختم کرتی ہوں۔

Short URL: https://tinyurl.com/2mkmu8za
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *