انا کے خول

Riffat Shoukat
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: رفعت شوکت

ہر انسان ہی اپنی انا کے خول میں  قید ہے ہمارے ارد گرد ہر نوعیت کے انا پرست انسان دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں جس کو طاقت اور اختیار کیا حاصل ہو جائے وہ  اپنی ذات کو خدا تصور کر لیتا ہے۔معاشرہ ایسے کئی سنگین نوعیت کے مسائل سے بھرا پڑا ہے ۔۔ہر کوئی اپنی زندگی کا مصنف ہے ۔سمجھ بوجھ ہونے کے باوجود انسان مصنوعی خول کا لبادہ اوڑھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انسان یہ سمجھ بھی رکھتا ہے کہ اگر اسے پیدا کیا گیا ہے تو وہ ایک دن نا پید بھی ہو گا۔کیونکہ یہ فطری قانون ہے کہ ہر جاندار نے فنا ہونا ہے ۔یہاں سب دنیا کے مہمان ہیں۔نفسا نفسی کا  عالم ہے ۔سب ہی دنیاوی بھاگ دوڑ کے لیے ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاشرے کے طاقتور لوگ اپنا مقام بلند کرتے جارہے ہیں اور غریب طبقے کے حالات سے واقف ہونے کے باوجود انکو غربت کی چکی میں پیسا جا رہا ہے ۔بات اگر خاندان کی ہو تو امیر طبقے کو غریب سے نفرت ہوتی ہے اس سے رشتے داری نبھانے کی بجائے ان کو انکے حالاتِ زندگی ہر چھوڑ دیا جاتا ہے امیر سے امیر ہوتا جارہا ہے اور غریب کو غریب تر کیا جارہا ہے۔ایسے میں یہی پیسے کی طاقت کے نشہ آ ور لوگ اپنی انا میں رہتے ہوئے غرور ،تکبر جیسے مواد کو اپنی رگوں میں بہا دیتے ہیں۔انا کے معنی حالات زندگی کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں۔جیسے کہ اگر کوئی مالی لحاظ سے کمزور ہو تو وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرم محسوس کرتا ہے ۔وہ پھر بھی حالات کے مطابق طرزِ زندگی کو سدھارنے کی کوشش کرتا ہے مگر ایک طرف سے اسکی انا اسکو کسی کی نظر میں کم تر محسوس ہونے کی اجازت نہیں دیتی ۔اسکے برعکس دوسرے نظریات میں اگر کوئی طاقت ور ہے تو وہ اپنی انا میں رہتے ہوئے کسی کمزور کی مدد کرتا ہوا کتراتا ہے۔ایسے لوگ کمزوروں کی محفل بھی پسند نہیں کرتے۔انکی شان و جاہت میں کمی نہ آئے وہ اس گھمنڈ میں رہتے ہوئے کمزوروں سے رویہ سخت رکتھے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسے کئ خاندان ہیں جو انا،غرور تکبر جیسے عناصر پالے ہوئے ہیں اور انکے نزدیک رشتوں کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔جہاں پر انسانی حقوق و اقدار کی پاسداری نہ کی جائے صرف انا جیسے مادے کو دلوں میں گاڑھ لیا جائے وہاں کئ معاشی ،سیاسی مسائل جنم لیتے ہیں۔   انا کے معنی انسانی فطرت کے مطابق وسیع تر ہوتے جاتے ہیں۔مگر حقیقت تو یہی ہے کہ اس زہریلے مادے کے اثرات انسان کے نفس کو مجروح کر دیتے ہیں۔پھر انسان پچھتاوے کے لیے رہ جاتا ہے۔ ایک زندہ مثال  محبت کرنے والے انسان کی لیں تو وہ بھی انا جیسے جذبات کو تھامے ہوئے ہے ۔محبت کرنے والے کو اگر اسکے محبوب سے توجہ ،مان ،عزت نہ ملے تو وہ بھی انا میں آکر اپنے محبوب کو نظر انداز کرنے لگتا ہے۔ ایسی بےشمار محبتیں انا کے خول  میں وقتی بہکاوے میں آ کر برباد ہو جاتی ہیں ۔انسان ایک دوسرے کے منتظر ہوتے ہیں پہلے وہ انا کی چادر اتارے مگر اسی خول میں بند رشتے دم توڑ جاتے ہیں۔اور انا کی جیت ہو جاتی ہے۔  ایک دن اآپ کو آپ کی اصل حقیقت سمجھ آ جائے گی۔ جو یہاں کتنے ہی حسین چہرے، کتنی ہی مشہور اور نامور شخصیات اور اپنے وقت کے طاقت کے نشے میں لت لگائے بیٹھے ہیں وہ ایک دن فنا ہو جائیں گے ۔ انسان کی بھلائی اس کی عاجزی میں ہی پوشیدہ ہے اور تکبر اس پہ کسی طور پہ نہیں جچتا۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو بے سروسامانی کے عالم میں خالی ہاتھ آتا ہے حسب نسب یہاں تک کہ نام مقام عہدہ سب اسے دنیا میں ہی آ کر ملتا ہے اور جب یہاں سے واپس جاتا ہے تو تب بھی خالی ہاتھ ہی واپس جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو انسان کی اپنی حیثیت مٹی کی ڈھیری کے سوا کچھ نہیں ہے ۔جان لو کہ ہر پیدا ہونے والی چیز وقتی ہے ۔انسان جب صحیح معنوں میں زندگی اور موت کی حقیقت کو تسلیم کر لیں تو ہو ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ گمراہ ہو۔

Short URL: https://tinyurl.com/2ywxewr8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *