میثاق جمہوریت یا کرپشن چھپانے کا میثاق

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: شفقت اللہ


ماضی اور حال میں اگر ہم پاکستان کے سیاسی پس منظر کا جائزہ لیں تو یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کے فیصلوں میں لندن کا اہم کردار رہا ہے ۔حال ہی میں جب میاں صاحب پر صحت کے حوالے سے مشکل گھڑی آئی تو وہ لندن گئے وہاں نہ صرف صحت کیلئے مؤثر سرگرمیاں کیں بلکہ اپنے سیاسی مستقبل بچانے کیلئے بھی سرگرم نظر آئے ۔پاکستان میں اس وقت تک تین بار مارشل لاء نافذ ہو چکاہے آخری مرتبہ جب جنرل پرویز کی طرف سے مارشل لاء نافذ کر کے میاں صاحب کی حکومت کو ہٹایا تو پوے ملک میں میڈیا اور سیاسی حلقوں نے عوام میں ایک نئی ہوا چلا دی او ر وہ یہ کہ اب پاکستان میں جمہوریت کبھی نہیں آ سکتی اور جب تک جمہوریت مستحکم نہیں ہو گی تب تک ملک ترقی نہیں کر سکتا !حالانکہ اگر دیکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں جتنا جمہوری تقاضوں کو مشرف دور میں بلندی و استحکام ملا اتنا کبھی سیاسی دور میں نہیں ملا تھا ۔اسی جمہوریت کے تاثر میں سال 2006 لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو مرحوم اور میاں محمد نواز شریف کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جسے میثا ق جمہوریت کا نام دیا گیا !اس میثاق جمہوریت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا جاتا اور سب کو اس میں شامل کیا جاتا جبکہ ایسا نہیں ہوا!مشرف نے 1973 کے آئین میں جو ترامیم کیں تھیں انہیں بھی ان دو جماعتوں نے مل کر ختم کیا جس میں سب بڑا نقصان یہ تھا کہ ملک کے تمام حساس ادارے وزیر داخلہ کے زیر سایہ کام کریں گے جس کی وجہ سے ملک کے دفاعی رازوں کے لیک ہونے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے !اگر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے موجودہ اور سابقہ دور حکومت اور اس معاہدے میں جو شرائط طے کی گئیں کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ معاہدہ صرف باری بنانے کیلئے مفاہمت کے سوا کچھ نہیں تھا ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جس طرح ملکی خزانے کو لوٹا گیا اور بیرونی قرضے لے کر ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا گیا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہر طرف مہنگائی میں پستی عوام ،تھر میں بھوک و پیاس سے سسکتے ،مرتے بچے ،بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ہر طبقے کو نقصان پہنچا۔ جمہوریت کا یہ حال تھا کہ بلدیاتی انتخابات سے پوری قوم کو محروم رکھا گیا اور گورنر راج نافذ کر دیا گیا تمام سرکاری اداروں میں رشوت اور چور بازاری نے مہنگائی کی وجہ سے جنم لیا رشوت خوری کچن تک جا پہنچی لوگ ایک وقت کی روٹی پوری کرنے کیلئے بھی رشوت کا سہارا لینے لگے روزگار نہ ہونے کے باعث او ر انصاف نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان نسل باغی ہو گئی جرائم میں اضافہ ہوا بھتہ خورو قبضہ مافیا اس قدر سرگرم ہو گئی کہ لوگوں کیلئے اپنی چھت بچانا مشکل ہو گیا ۔کراچی کی ایک فیکٹری میں اڑھائی سو مزدور کام کرتے ہوئے صرف بھتہ نہ ملنے کی وجہ سے زندہ جلا دیئے گئے گرمی کی شدت بڑھی تو کراچی میں پٹواریوں نے قبریں بھی بیچ کھائیں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترسنے لگے تھے خودسوزیوں اور بازاری عورتوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا لیکن مجال ہے کہ کبھی اس وقت کی اپوزیشن پارٹی نواز لیگ نے کبھی ان کے خلاف کوئی عملی اقدام کیا ہو سوائے لفظی تیروں کے ۔مشرف کی حکومت کو گرانے کیلئے تو انہوں نے لانگ مارچ بھی کر دیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا لیکن یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔ن لیگ کے حالیہ دو ر حکومت میں انکی طرف سے کئے گئے کئی بلنڈر سامنے آئے سب سے پہلے پینتیس پنکچر کے معاملے نے سر اٹھایا اور دھاندلی کی بات کی گئی تو اس وقت تک پیپلز پارٹی جو بڑی اپوزیشن جماعت تھی نے آنکھیں بند کر کے دوسرے ملک چلے گئے اور تماشا دیکھتے رہے بیان بازیوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن اسلام آباد میں 2014 کے دھرنوں میں جب ن لیگ پر کڑا وقت آیا تو پیپلز پارٹی نے ڈوبتے کیلئے تنکہ کا سہارا بن کر دکھایا اور جمہوریت کو خطرہ ہے کی ایک ہوا میڈیا اور اپنے عوام میں چلا دی ۔میٹرو بسوں کی کرپشن ہو،پاناما لیکس یا قائداعظم سولر پارک کا سکینڈل ہر طرح سے پیپلز پارٹی نے فرینڈلی اپوزیشن کا مظاہرہ کیا اور سب سے بڑی بات ہمیں 2013 کے انتخابات میں ایک اور بات بھی دیکھنے میں آئی اور وہ یہ کہ دیہی علاقوں میں جہاں نظریاتی نہیں بلکہ شخصی ووٹ تھا وہاں پیپلز پارٹی کے لوگ ن لیگ میں شامل ہو گئے یعنی جو پکی سیٹیں تھیں وہ ن لیگ کو تحفہ میں دے دیں گئیں اور جہا ں ن لیگ کا بس نہیں چلا وہاں انہوں نے دھاندلی کا سہارا لیا ۔بعد ازاں یہ دھاندلی واضح طور پر ثابت ہو گئی کہ جب تحریک انصاف اور ن لیگ کے مابین چار حلقے کھولنے کی بات کی گئی اور جب ان حلقوں کی تحقیقات کی گئیں تو منتخب شدہ نمائندے نااہل ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن ہوئے لیکن اس بار دھاندلی کی صورتحال الگ قسم کی تھی اور وہ یہ کہ اپوزیشن جماعتوں کے ورکنگ کارکنوں کی گرفتاریاں کروائی گئیں اور پھر لوگوں کے پولنگ سٹیشن تبدیل کر دئیے گئے جسکی وجہ سے لوگ ووٹ کاسٹ ہی نہ کر پائے۔ اتنا سب ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعت نے سوائے بیان بازیوں اور جمہوریت کا مذاق اڑانے کے کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔حال ہی میں زرداری صاحب وطن واپس لوٹ آئے ہیں اور باپ بیٹا دونوں نے پارلیمنٹ میں آنے کا فیصلہ بھی لیا ہے جبکہ زرداری نے پیپلز پارٹی کی چئیر مین والی نشست بھی سنبھال لی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب پھر سے سندھ کے علاوہ پنجاب میں بھی سرگرم نظر آتی ہے اور اس کی واضح مثال سابقہ وفاقی وزیر فیصل صالح حیات اور خالد کھر ل کا پیپلز میں شمولیت کرنا اور پیپلز پارٹی سے ناراض کارکنوں کا پھر سے واپس جماعت میں شامل ہونا اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ پھر سے باری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلوانا اب ن لیگ کا بھی مقصد بن جائے گا چونکہ زرداری صاحب فوجی عدالتوں کے خلاف ہیں اسی لئے اب ان عدالتوں کو ختم کرنے کیلئے بھی تیاریاں مکمل ہو چکیں ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ فوجی عدالتیں کسی بھی کیس کو طول نہیں دیتیں جس میں سیاسی مداخلت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور پاناما کو لیکر وزیر اعظم کو ہٹانے کی بات کی گئی تو جمہوریت کو خطرہ ہے والا نعرہ بلند کر کے عوام میں یہ تاثر دیا گیا کہ جمہوریت کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا وہ تو واقعی بات ٹھیک ہے کہ جمہوریت کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا لیکن یہاں جمہوریت نظر کہاں آتی ہے ؟پہلے تو نواز لیگ نے بلدیاتی انتخابات کو بلا وجہ طول دیا اور پھر جب ہوگئے تو پورے ایک سال تک بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھا اور جب اب انہیں اختیارات دیئے بھی گئے تو اوپر ڈپٹی کمشنر ز والا بھوت سوار کر دیا ہے جس سے دوبارہ ان کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔اس میثاق جمہوریت کی وجہ سے دونوں سیاسی جماعتوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور سب سے بڑا فائدہ کرپشن کر کے سب ہضم کر جانے کا ہے لیکن اس سے ملک و قوم جو فوائد ہوئے ان میں معیشت کا بیڑہ غرق ہونا ،چائلڈ لیبر میں اضافہ ،مہنگائی کی شرح میں اضافہ ،بھتہ مافیا ،ٹارگٹ کلنگ ،اغواء برائے تاوان ،منی لانڈرنگ ،سمگلنگ ،خارجی اور داخلی سطح پر نااہل لوگو ں کی وجہ سے پاکستان کی درآمدات کی شرح میں غیر معمولی حد تک مسلسل کمی ،دہشتگردی اور دیگر ایسے بڑے بڑے فوائد حاصل ہوئے ۔یہ میثاق حقیقت میں جمہوریت بچانے کیلئے ہے یا کرپشن بچانے کیلئے اب دونوں جماعتوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ویسے تو اپنی اور ملک کی بربادی میں عوام کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے کیونکہ ملک کے اہم فیصلے تو لندن والے کرتے ہیں ایوانوں میں بیٹھے منتخب کردہ عوامی نمائندوں کی رہا ئش و کاروبار لندن میں ہیں اور ہم انہیں اپنا حکمران بنا لیتے ہیں اور انہیں بھی پتہ ہے کہ ہم صرف پاکستان کو لوٹنے کیلئے آئے ہیں ہماری اولاد اور کاروبار تو لندن میں ہیں پاکستان ترقی کرے یا تنزلی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Short URL: http://tinyurl.com/zfyzhuk
QR Code: