ماہ نور بنام کینسر زدہ نظام

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:چوہدری غلام غوث


دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے تین اشیاء انتہائی ضروری ہوتی ہیں ۔ مناسب آمدنی ، عزت اور سماجی رتبہ مگر بدقسمتی سے ہمارے ادنیٰ سرکاری ملازمین کے پاس یہ تینوں چیزیں ناپید ہیں ۔ محمود بٹ کا تعلق بھی ادنیٰ درجے کے سرکاری ملازمین سے ہے جو دن رات محنت کر کے اپنے گھر کا چولہا جلانے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں کولہو کے بیل کی طرح نظر آتے ہیں اس دوران اگر ان پر کوئی ناگہانی آفت یا مصیبت آ جائے تو ان کے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ بٹ صاحب کا اکلوتا بیٹا محسن محمود بٹ ہے جو کہ خود سرکاری محکمہ میں بطور کلرک اپنے فرائض انجام دے رہا ہے ۔ بٹ صاحب نے روایتی خوشی اور دھوم دھام سے 9 سال قبل اپنے بیٹے کی شادی کی اور ایک بہوبیاہ کر لے آئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ڈیڑھ سال بعد ان کے گھر کے آنگن میں ایک کلی کھلا دی۔ انہوں نے اس کا نام ماہ نور رکھا بچی بڑی پیاری اور خوبصورت تھی بچپن سے ہی اسے نظر لگ جاتی تھی تو والدین اکثر متفکر رہتے اور اپنی بچی کی ذہانت کا تذکرہ کرنے سے گریز کرتے کہ کہیں اس کو نظر نہ لگ جائے بچی قابل رشک ذہین تھی والدین نے بچی کو مقامی سکول میں داخل کروا دیا بچی اپنی کلاس میں غیر معمولی طور پر پرفارمنس دیتی اور اس کی ذہانت کا ذکر اس کی ٹیچرز اکثر والدین سے کرتیں ۔ والدین ٹیسٹ کے دوران جان بوجھ کر ایک آدھ پیپر نہ دلواتے تاکہ بچی کو نظر نہ لگ جائے بچی پہلی جماعت میں ٹاپ کر کے دوسری جماعت میں پہنچ گئی پڑھائی کا سلسلہ آب و تاب سے جاری تھا کہ بچی بیمار ہونا شروع ہو گئی ابتداء میں تو والدین نے مقامی ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا جنہوں نے معمول کی بیماری سمجھ کر ادویات دیں مگر بچی آہستہ آہستہ زیادہ بیمار رہنے لگی والدین کو فکر لاحق ہوئی تو کنسلٹنٹ لیول کے ڈاکٹرز سے بچی کا طبی معائنہ کروایا گیا بچی کے لئے نسخہ جات تجویز ہوئے مگر دوائی کھانے سے کوئی افاقہ نہ ہوتا بچی بیماری کی وجہ سے متواتر سکول سے غیر حاضر رہنے لگی دادا نے دفتر سے چھٹیاں لے لیں بچی کاعلاج شروع کر دیا لاہو رکے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں سمیت پرائیویٹ اداروں،ڈاکٹرز ہسپتال ، اتفاق ہسپتال اور شوکت خانم سے بچی کے علاج کے لئے رجوع کیا گیا۔ اس 6 ماہ کے عرصہ کے دوران بچی کے مرض کی تشخیص کے لئے 5 ۔ لاکھ روپے کے مختلف میڈیکل ٹیسٹ کئے گئے جن میں دو مرتبہ ملک کی مایہ ناز اور مستند لیبارٹریز سے ریڑھ کی ہڈی سے مواد لے کر بیک بون بائیوپسی کے ٹیسٹ بھی کروائے گئے مگر تشخیص نہ ہو سکی ۔مرض روز بروز بڑھتا گیا اس صورتحال کے پیش نظر اور بڑھتے ہوئے اخراجات دیکھ کر محمود بٹ نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے محکمہ کو درخواست دے دی تاکہ یکمشت ملنے والے واجبات سے اپنی لاڈلی پوتی کا علاج کروا سکے جبکہ اپنا مکان فروخت کر نے کے لئے بھی سودا طے کر لیا ۔محکمہ نے صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے بٹ صاحب کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا اور بٹ صاحب واجبات جلد لینے کی تگ و دو میں لگ گئے تاکہ غیر تشخیص شدہ مہلک مرض کا علاج اندرون یا بیرون ملک کروا سکیں اور ماہ نور جیسی ذہین اور خوبصورت بچی جو نہ صرف گھرانے کی آنکھ کا تارا تھی بلکہ اپنے سکول کی بھی رونق اور ہونہار طالبہ تھی کی زندگی کو بچایا جا سکے ۔ بٹ صاحب کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی تمام مراعات کا اعداد و شمار لگایا گیا تو وہ 10 لاکھ روپے کے قریب بنا ۔ماہ نور کے علاج کے لئے دادا کمر بستہ ہوا دوبارہ سے ماہر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا ڈاکٹروں کے پینل نے باہمی سوچ بچار اور معائنے کے بعد فیصلہ کیا کہ بچی کے دوبارہ ٹیسٹ کروائے جائیں اور جو مواد بچی کے منہ اور گالوں میں بھرا تھا جس نے اس کے خوبصورت چہرے کا حلیہ تبدیل کرد یا تھا وہ حاصل کر کے لیبارٹریز میں معائنہ کے لئے بھجوا دیا گیا اور جب کچھ دنوں کے بعد رپورٹ آئی تو اس میں دنیا کا موذی ترین مرض کینسر پایا گیا اور اس رپورٹ کے موصول ہونے کے دو گھنٹے کے بعد ماہ نور نے اس کینسر زدہ نظام کو خیرآباد کہہ دیا کیونکہ ماہ نور کسی جرنیل ، وزیر ، مشیر ، سیاستدان ، صنعتکار ، جاگیر دار یا بیوروکریٹ کی بیٹی نہیں تھی وہ ایک ایسے دادے کی پوتی تھی جس نے اس کے علاج کے لئے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی اپنے مکان کو فروخت کرنے کا سودا کر لیا مگر وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود چاند سی پوتی ماہ نور کو نہ بچا سکا اور ماہ نور اس کینسر زدہ نظام کا مُنہ چڑاتے ہوئے اسکی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ ایک ادنیٰ سرکاری ملازم کی پوتی اور ایک کلرک باپ کی لخت جگر کی موذی مرض کے ہاتھوں موت کے بعد حکومت کو اسے ٹیسٹ کیس قرار دیتے ہوئے سرکاری ملازمین کے بارے میں پالیسی بنا دینی چاہیے کہ اگر وہ خود یا ان کا کوئی پیارا اس طرح کے موذی مرض میں مبتلا ہو جائے جس کا علاج انتہائی مہنگا ہو اس ملازم کے اکاؤنٹ میں حکومت فی الفور 10 ۔ لاکھ روپے منتقل کر دے جو صرف علاج کی غرض سے استعمال ہو سکیں اور اس طرح کا نظام وضع کیا جائے کہ ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز اور ادویات مہیا کرنے والی فارما سوٹیکل کمپنیاں اپنے اپنے واجبات اس اکاؤنٹ سے وصول کریں جبکہ ہسپتالوں کو بھی اس نظام سے ہم آہنگ کر دیا جائے دوران علاج اگر یہ رقم ختم ہو جائے تو مزید 5 ۔ لاکھ روپے اس کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دئیے جائیں اور اس قرضِ حسنہ کی وصولی سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے 1000 یا 2000 ہزار روپے ماہانہ کی آسان اقساط میں کی جائے تاکہ حکومت کو بھی رقم کی واپسی ہوتی رہے اور سرکاری خدمت گاروں اور ان کے پیاروں کا علاج بھی جاری رہے ۔
قارئین کرام ! ماہ نور جیسی بچی کا جنازہ اس ملک میں قانون اور انصاف کا جنازہ تھا جنازے کی چارپائی پر لیٹی ماہ نور جیسے سوالیہ نظروں سے کہہ رہی ہو بابا اس ملک میں سب کچھ ہے اس ملک میں حکومت بھی ہے حکومت کے پاس 30وزراء ایک ہزار چار سو بیس ادارے ، ایک کروڑ 9 لاکھ 8 ہزار 20 سرکاری ملازمین 5 لاکھ 20 ہزار 80 دفاتر اور 11 لاکھ سرکاری گاڑیاں بھی ہیں ۔ اس ملک کا تعزیرات سے مزین آئین ، تقریباً ساڑھے چار سو اراکین پارلیمنٹ اور اس پارلیمنٹ پر ایک منٹ کے 55 ہزار روپے اخراجات بھی آتے ہیں۔ اس ملک میں 10 ہزار سے زائد ارب پتی لوگ بھی ہیں اس ملک میں ملیں ، فیکٹریاں ، کارخانے بھی ہیں اس ملک میں میٹرو بس اور موٹر ویز بھی ہیں اس ملک میں شاپنگ مالز اور بازار بھی ہیں اس ملک میں عدالتیں اور جج بھی ہیں اس ملک میں قابل ترین ڈاکٹرز اور بڑے بڑے ہسپتال بھی ہیں اس ملک کا ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اورایک مذہب بھی ہے ۔اس ملک میں 20 کروڑ عوام اور خزانے بھی ہیں لیکن با با اس ملک میں جس چیز کی کمی ہے تو وہ انصاف ہے اس ملک میں انصاف نہیں اس ملک میں خوفِ خُدا نہیں اس ملک میں کوئی ایسا عہدیدار ، کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو حکمرانوں سے یہ پوچھ سکے کہ جس ملک کے سیاستدان گزشتہ سالوں میں سرکاری خزانے سے اڑھائی ارب روپے کی دوائیں کھا جائیں اور حکمران اپنی جا ن کی حفاظت کی خاطر اپنی سیکورٹی کے لئے اربوں روپے کے آلات اور ٹرانسپورٹ خرید لیں اس ملک کے پاس ماہ نور جیسی بچی کے مرض کی تشخیص اور بعد ازاں علاج کے پیسے کیوں نہیں ہوتے ؟ ماہ نور یہ سوال اس کینسر زدہ معاشرے کے لئے چھوڑ کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو چکی ہے ۔
میں نے برسوں پہلے یہ سوال اپنے ’’ روحانی با با جی ‘‘ سے پوچھا تھا لوگ غریب ، مسکین ، نادار اور بیمار کیوں ہوتے ہیں میرے بابے نے حیرت سے میری طرف دیکھا تھا میں نے عرض کیا تھا ہم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے خلیے میں جنم لینے والی تکلیف تک سے واقف ہوتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کس شخص میں تکلیف برداشت کرنے کی کتنی ہمت اور سکت ہے جبکہ زمانے بھر کے نادار ، مسکین ، غریب، بے بس ، بیمار بھی اللہ تعالیٰ کے دَر پر فریاد کرتے رہتے ہیں تو اللہ ان لوگوں کے مسائل حل کیوں نہیں کر دیتا وہ انہیں شفا کیوں نہیں دیتا وہ ان کی غربت اور ناداری ختم کیوں نہیں کرتا اللہ تعالیٰ ان بے بس لوگوں کو امتحان میں کیوں ڈالتا ہے ؟ میرے با با جی نے روایتی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا تھا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا امتحان نہیں لیتا وہ ان لوگوں کے ذریعہ سے معاشرے کے صاحب ثروت ، صحت مند ، با اختیار ، صاحب اقتدار اور سہولتوں سے مالا مال لوگوں کا امتحان لیتا ہے اگر کسی محلے میں کوئی بیمار دوائی کے لئے ترستا ہوا مر جاتا ہے تو اس کی موت اس محلے کے تمام صاحب ثروت ، صاحب اختیار ، صاحب اقتدار ور مالدار لوگوں کا امتحان ثابت ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس موت کا ذمہ دار ان لوگوں کو گردانتا ہے اور حشر کے دن ان تمام لوگوں کو اس غفلت ، اس کنجوسی اور بے حسی کا جواب دینا پڑے گا ۔ میرے با با جی بولے ’’ یہ وہ حقیقت ہے جس سے حضرت عمرؓ اچھی طرح واقف تھے چنانچہ انہوں نے فرمایا تھا اگر دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو قیامت کے دن میں اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاؤں گا ۔ حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ ان کی سلطنت کے تمام نادار ، مساکین ، غریب بے بس اور بیمار حتیٰ کہ جانور تک ان کی ذمہ داری میں آتے ہیں۔ آج کے حکمران خود کو حضرت عمرؓ کے پیرو کار اور قائد اعظم کا جانشین تو کہتے ہیں مگر ان کے سنہری اصولوں کی عملی پیروی سے ہمیشہ گریزاں نظر آتے ہیں میرے سامنے 7 سالہ ماہ نور کی ہنستی مسکراتی خوبصورت تصویر پڑی ہے جو مجھ سے بار بار سوال کر رہی ہے ’’ انکل آپ نے میرے لئے کیا کیا ؟ ماہ نور میری بچی میں صرف تمہارے لئے اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ میں بے حسی کے سمندر میں غوطے لگاتے ہوئے معاشرے کا ایک محتاط لکھاری ہوں میں تو طاقتور حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرآت نہیں رکھتا میرے لب سلے ہوئے ہیں میرا قلم قید ہے میرا ضمیر بوجھل ہے میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا جو حکمران انصاف نہ کر سکے اس کو اللہ کے بندوں پر حکومت کا کوئی حق نہیں ہوتا میری بیٹی میں ایک بے بس لکھاری ہوں میں اس کینسر زدہ نظام سے نہیں لڑ سکتا چنانچہ میں صرف تمہارے لئے اتنا کر سکتا ہوں میں صرف تم سے معافی ہی مانگ سکتا ہوں میری بیٹی مجھے معاف کر دو ۔

Short URL: http://tinyurl.com/hp5stno
QR Code: