غم کی بولتی تصویر

ch-ghulam-ghous
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:چوہدری غلام غوث


میں چونکہ صحافت کا باقاعدہ طالب علم رہا ہوں تو زمانہ طالب علمی میں نصاب کی ایک کتاب میں تصویر کے بارے میں چینی کہاوت پڑھی تھی جو کہ صحافت کے تمام طالب علموں کی طرح میرے ذہن کی سکرین پر بھی نقش ہو گئی چینی کہاوت کے مطابق چین کے قدیم باشندوں کا خیال تھا کہ ’’ ایک تصویر دس ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے ‘‘ جہاں انسانی زبان گنگ ہو جائے، الفاظ بانجھ بن جائیں اور تحریریں بنجر ہو جائیں وہاں تصویریں بولتی ہیں اور جہاں الفاظ مصلحت کے ڈھیر پر پراگندہ ہو جائیں وہاں کیمرے کا لینز اور ٹی وی سکرین خود بخود آواز بن جاتی ہے اور یہ تصویریں کالموں اور خبروں کی جگہ لے لیتی ہیں میں نے صحافت کے میدان میں ایسی بے شمار تصویریں دیکھی ہیں جو دس دس کالموں اور پچاس پچاس شہہ سُرخیوں پر بھاری تھیں اور جن میں ایسا خوفناک سچ چھُپا ہوتا تھا کہ جس کے لیے لاکھوں الفاظ بھی خرچ کر دیئے جاتے تب بھی شائد لکھنے والا اس سچ کے کسی ایک پہلو کا بھی احاطہ نہ کر پاتا بعض اوقات ساری خبریں ایک طرف اور صرف تصویر ایک طرف پڑی بھی بھاری دکھائی دیتی ہے۔
ایسی ہی ایک تصویر 15 فروری کے اخبارات کے پہلے صفحے پر چھپی تھی جس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتہائی افسردہ چہرے کے ساتھ سانحہ چیئرنگ کراس لاہور میں شہید ہونے والے ڈی آئی جی کیپٹن(ر) سید احمد مبین کی کمسن بیٹی کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور وہ اپنے بچھڑنے والے بابا کے غم میں نِڈھال سوچوں کے سمندر میں ڈوبی گُم سُم دکھائی دیتی ہے اور یہ تصویر دیکھنے والے کے ضبط کے تمام بندھن توڑ دیتی ہے پتھر دل انسان بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا اور آنکھوں کی برسات چھم چھم برسنے لگتی ہے جس کا اختتام آہوں اور سسکیوں پر جا کر ہوتا ہے۔میں نے اخبار سے یہ تصویر کاٹی گوند کے ساتھ سفید کاغذ پر لگائی اور میز پر رکھ دی میری آنکھوں کے سمندر میں نمکین گرم پانی کے قطرے تھے یہ قطرے لکیر بننا چاہتے تھے لیکن میں نے انہیں پلکوں کے کناروں پر سنبھال لیا میں فاطمہ کے دُکھ کو بہنے نہیں دینا چاہتا تھا ہمارے آنسو جذبات کی دُنیا کی اینٹی بائیوٹک ہوتے ہیں یہ جب آنکھوں کے سمندر سے چھلک کر کناروں سے باہر آ جائیں تو اندر کا دُکھ کم ہو جاتا ہے انسان کو ریلیف مل جاتا ہے چنانچہ اگر آپ کسی کے دُکھ کو زیادہ وقت دینا چاہیں تو اپنے قیمتی آنسوؤں کو سنبھال لیں وہ دُکھ آپ کے خون کے ایک ایک قطرے کا حصہ بن جائے گاچنانچہ میں نے اس معصوم بیٹی کے لیے اپنے آنسو سنبھال لیے اور اُس کی تصویر کے بارے میں سوچنے لگا کہ باپ اور بیٹی کا رشتہ بھی کتنا پیارا، کتنا حسین، کتنا مخلص، کتنا دیرپا اور محبت سے لبریز ہوتا ہے یہ صرف ایک باپ اور اس کی بیٹی ہی جانتی ہے۔ جب اُس کے بابا ڈیوٹی سے تھکے ماندے گھر آتے ہوں گے تو بیٹی کو پہلی فرصت میں اُٹھا کر اُس کا ماتھا چومتے ہوں گے اور بیٹی بھی بابا کا بوسہ لیتی ہو گی بابا کی ٹوپی اُتار کر بابا کے گھنے بالوں میں اپنی نرم نرم اُنگلیوں کی کنگھی بنا کر انتہائی پیار سے زلفیں سنوارتی ہو گی اور اسی دوران اٹھکیلیاں کر کے کبھی کبھی دانستہ طور پر گُدگُدی بھی کرتی ہو گی۔ جس سے لازمی طور پر بابا بھی محظوظ ہوتے ہوں گے اور اُن کی ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی ہو گی۔ بیٹی کی کلکاریاں بابا کے کانوں میں جو رس گھولتی ہوں گی اُس سے سارے دن کی ٹریفک کا شور بھی دماغ کے کسی کونے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہو گا کیونکہ بابا کو ٹریفک کے شور سے زیادہ دلکش بیٹی کے قہقہے لگتے ہوں گے جب بیٹی کی بابا سے خامہ مستی طوالت اختیار کرتی ہوگی وقت کی تمام سوئیاں رُک جاتی ہوں گی بابا بھی سارے دن کی تھکان اُتارنے کی ٹھان لیتے ہوں گے ان خوبصورت لمحوں میں باپ اور بیٹی کے درمیان دلچسپ اور محبت سے بھرپور مکالموں کا تبادلہ بھی ہوتا ہو گا۔ بیٹی کی طرف سے کبھی سنجیدگی اور کبھی شرارتی لہجے میں بابا کے کانوں میں فرمائیشوں کی سرگوشیاں ہوتی ہوں گی اور بابا جانی بھی اُن کو انتہائی انہماک اور توجہ سے سنتے ہوں گے۔اس دوران ماما بھی درمیان میں حائل ہو جاتی ہوں گی اسی سوچ کے دوران میں نے دوبارہ میز پر پڑی تصویر پر نگاہ ڈالی تو مجھے اس بیٹی کی معصوم تصویر میں بلا کی سنجیدگی اور کرب نظر آیا تو میں نے حوصلہ کرکے تصویر سے پوچھ لیا بیٹی تم کس شخص کو اپنا مجرم سمجھتی ہو اُس نے فوراً جواب دیا انکل میں خود کش حملہ آور کو اپنا مجرم نہیں سمجھتی میں نہیں جانتی اس بیچارے پر کیا ظلم ہوا تھا جس سے مجبور ہو کر اس نے یہ راستہ منتخب کیا میرے مجرم وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے ملک میں ایسے حالات پیدا کیے میں ان تمام سیاستدانوں کو بھی اپنا مجرم سمجھتی ہوں جو ان حالات میں بھی اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں اور ان کی سیاسی مصلحت قومی مفادات کے آڑے آ رہی ہے اور قیامت کے دن میرے یہ معصوم ہاتھ ان تمام مجرموں کے گریبانوں تک پہنچیں گے جن کو میں اپنا مجرم سمجھتی ہوں۔ میں ایک شہید سپاہی کی بہادر بیٹی بن کر اس ملک کے لیے جینا چاہتی ہوں میں اس ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ چاہتی ہوں ۔ میں ایک مضبوط اور پُرامن پاکستان دیکھنا چاہتی ہوں جہاں میرے خوابوں کو عملی تعبیر ملے۔ میں نے سوچا زندگی کے دُکھ انسان کو کس طرح دس سال کی عمر میں میچور کر دیتے ہیں۔یہ خود کُش دھماکے کون کر رہے ہیں یہ لوگ اس سے کیا فائدہ لیناچاہتے ہیں اور وہ کون سے نادیدہ ہاتھ ہیں جنہوں نے حالات کو اس سنگینی تک پہنچا دیا ہے یہ بحث اب بعد از وقت ہو گی انگریزی کا ایک مشہور محاورہ ہے ’’ ماضی وہ چیز ہے جسے قدرت بھی نہیں بدل سکتی ‘‘ اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہم نے ماضی میں بے شمار غلطیاں کی ہیں آج ان تمام غلطیوں کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے ہم چاہیں یا نہ چاہیں لیکن اب ہمیں غلطیوں کی یہ فصل کاٹنا پڑے گی۔ ہمارے لیے بہتر ہو گا ہم اپنی غلطیوں کا یہ بوجھ اپنے ہی کندھوں پر ڈھو لیں ورنہ یہ بوجھ ہماری آنے والی نسلوں کو اپنے نازک کندھوں پر اُٹھانا پڑے گا اور ہم یہ سبق اچھی طرح سیکھ لیں اور جان لیں کہ ایک نسل کی غلطیوں کی فصل ہمیشہ دوسری نسل کو کاٹنا پڑتی ہے اور انسان کے لیے اگلی نسل کی تکلیف ناقابلِ برداشت ہوتی ہے یہ بم دھماکے ہمارے ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں لیکن ہم جو غلطیاں آج کر رہے ہیں ان کا نتیجہ کیا نکلے گا پاکستان میں آج بھی اس تلخ حقیقت پر کوئی شخص غور نہیں کر رہا؟آخر میں وہ قطعہ جو میں نے کیپٹن(ر) سید احمد مبین کی والدہ کی طرف سے قوم کے نام لکھا ہے۔
دُنیا والو تم کیا جانو ماں کے سہانے خواب
اک بیٹے کو جوان کرتے کتنا عرصہ لگتا ہے
ماں کے جگر کا ٹکڑا تم لیتے ہو لمحوں میں چھین
ماں کے خون کا کتنا حصہ اس ٹکڑے کو لگتا ہے

Short URL: http://tinyurl.com/znespkn
QR Code: