عید الفصح (الیہودی)۔

Dr. Sajid Khakwani
Print Friendly, PDF & Email

(Jewish Eid Day )
(۔20تا27اپریل یہودیوں کے مذہبی تہوارعید کے حوالے سے خصوصی تحریر)

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
بنی اسرائیل کے ہاں یہ تہوار اس واقعہ کی یادمیں منایاجاتاہے جب انہیں فرعون کے مظالم سے نجات ملی تھی۔عیدفصح یہودیوں کا اولین بڑاتہوار ہے جو صدیوں کے تسلسل سے منایاجاتارہاہے اور صرف تہوار ہی نہیں بلکہ ان کا یوم آزادی ہے جسے وہ پورے اہتمام سے مناتے ہیں۔یہ تہوار باالاجماع پورے دنیاکے یہودیوں میں منایاجاتاہے خواہ وہ کرہ ارض کے کسی بھی خطے میں ہوں اوراس دوران یہودی اپنے کام کاج سے چھٹی پرہوتے ہیں۔اسے ’’عیدفطیر‘‘اور بے خمیری روٹی کی عید بھی کہاجاتاہے۔یہ ظلم و ستم اور جبرواستبداد کے ایک انتہائی تکلیف دہ،صبرآزما اور طویل ترین دورکا خاتمہ تھاجب اﷲ تعالی کے برگزیدہ نبی حضرت موسی علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے اور انہیں نسلوں اور صدیوں کے بعد(1300ق م) آزادی کا سانس میسرآیا۔توریت کے باب خروج میں اس واقعہ کابڑی تفصیل سے ذکر کیاگیاہے۔یہ تہوار یہودی تقویم میں سال کے پہلے مہینے’’نیسان‘‘کی چودہ تاریخ سے منانا شروع کیاجاتا ہے اور سات دنوں تک اس کی تقریبات جاری رہتی ہیں جب کہ بعض سکہ بند قسم کے یہودی آٹھ دنوں تک بھی اس عید کے تہوارمناتے رہتے ہیں،انہیں تاریخوں میں موسم بہار کی بھی آمد آمد ہوتی ہے اورسرزمین اسرائیل میں جوکی فصل بھی انہیں دنوں میں کاٹی جانی شروع ہوجاتی ہے۔عبرانی روایات کے مطابق سرزمین مصر سے نکل کردریاسے پاراترنے تک بنی اسرائیل کو سات دن لگے تھے۔تقریبات کے باقائدہ آغاز کے طورپرپہلی رات دیرگئے بھیڑیابکری گھرکی چوکھٹ پرذبح کیے جاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں کسی بھی آفت و مصیبت سے محفوظ رہیں۔صبح تک اس ذبیحے کا سب کھالیاجاتاہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ روٹی غیرخمیری ہوتی ہے اور ساتھ میں کڑوی سبزیاں بھی کھائی جاتی ہیں جو دراصل فرعون کے دوران غلامی کی ایک تکلیف دہ یادگار ہے۔روایتاََیہ ضیافت صومعوں کے اندر ہونی چاہیے لیکن فی زمانہ یہ عبادت گاہیں چونکہ پوری دنیامیں نہیں ہیں اس لیے کہیں بھی اس کااجتماعی اہتمام کرلیاجاتاہے ،اگرذبیحے کاانتظام نہ بھی ہوسکے تو کڑوی سلادتو دنیامیں ہر جگہ میسرہوتی ہے۔اس سب کی وجہ یہ ہے کہ تورات کے مطابق بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو اﷲ تعالی نے سات روز تک ان پر خمیری روٹی کے تناول پر پابندی لگادی تھی۔تاریخی روایات میں لکھاہے کہ بنی اسرائیل کو نصف شب اچانک حکم ملا کہ مصر کو چھوڑ کر نکل جائیں،اس جلد بازی میں وہ گوندھے ہوئے آٹے میں خمیر نہ لگاسکے اور انہیں بغیر خمیر کے سوکھی اور پتلی روٹی کھانی پڑی،ایسی روٹی کو ’’ماتزہ‘‘کہاجاتاہے۔ساتھ ہی توریت نے یہ حکم بھی دیاکہ اب تمام زندگی وہ دن یاد رکھو جب تم ارض مصر سے نکلے تھے۔چنانچہ اسی کی یاد میں یہ تہوار یہودیوں کے ہاں منایاجاتارہاہے اور آج بھی منایاجاتاہے۔صبح تک ذبیحے کاگوشت ختم کرلیاجاتاہے،اگر خاندان کے افراد تھوڑے ہوں تو دیگرخاندانوں کو بھی ساتھ ملالیاجاتاہے۔اس تناول میں ذبیحے کی ہڈیاں بھی نہیں توڑی جاتیں۔ذبیحہ صرف صاحب ثروت افرادپر فرض ہوتاہے،غلام غریب اور مفلوک الحال لوگ اس فرض سے مستظنی ہیں۔دنیاکے جن علاقوں میں قربانی کرناممکن نہیں ہوسکتاوہاں کے یہودی ایک پلیٹ میں پکے ہوئے گوشت کے کچھ حصے علامتی طورپر رکھ دیتے ہیں اور پھرتھلیل کی رسم تازہ کرلی جاتی ہے۔
اس تہوار کو مہینے کی وسطی تاریخوں میں شروع کرنے کی ایک وجہ مکمل چاندکے باعث راتوں کاروشن ہونا بھی ہے۔شایداسی وجہ سے اولین طالمودی حساب دانوں نے چوتھی صدی سے یہ تاریخ مقررکردی تھی،جس میں روشن راتیں،موسم بہارکاآغازاور جوکی فصل کی تیاری کے تینوں عناصر جمع ہوگئے ہیں۔اسرائیل میں یہ پوراہفتہ تقریبات میں گزاراجاتاہے ،خاص طورپر پہلے دن اورآخری دن سرکاری طورپر تعطیل کردی جاتی ہے۔مذہبی طورپر عبرانی زبان میں ان سات دنوں کو’’ہول ہامود‘‘کہاجاتاہے یعنی عیدکے ہفت ایام۔ان ہفت ایام کی تقریبات میں ’’تفلین‘‘کاہوناضروری خیال کیاجاتاہے۔تفلین چمڑے کابناہواایک سیاہ رنگ کامقدس بستہ ہوتاہے جس میں تورات کے مکمل یا منتخب نسخے دھرے ہوتے ہیں۔یہودی اس تفلین کوہاتھوں میں اٹھائے یا کندھے سے لٹکائے اپنی مذہبی عبادت گاہوں’’صومعوں‘‘کے اندرصبح کے مقرر اوقات میں داخل ہوتے ہیں۔بعض علاقوں میں شام کے اوقات میں بھی یہ مذہبی دعا پڑھی جاتی ہے۔قدیم یہودی فکرکے لوگوں میں یہ تفلین صرف مردوں نے پکڑاہواہوتاہے اور عورتوں کے لیے ممنوع ہے۔جب کہ تجدیدی فکرمیں عورتوں مردوں دونوں کے لیے مباح ہے۔عبادت گاہوں میں اس تفلین سے تورات کے اوراق نکال کر اجتماعی طورپر ان کی تلاوت کی جاتی ہے۔اس دوران تمام شریک لوگ بلندآوازسے اس اجتماعی تقریب میں حصہ لیتے ہیں۔اس عمل کو ’’تھلیل‘‘ کہتے ہیں،توریت کے یہ مخصوص حصے یہودیوں کے ہاں تینوں سالانہ عیدوں کے موقع پر اسی طرح سے پڑھے جاتے ہیں جن میں سے ایک زیرمطالعہ عید بھی ہے۔تھلیل گاکربھی پڑھی جاتی ہے،شہری علاقوں میں تھلیل کے ساتھ آلات موسیقی کی سنگت بھی شامل ہوتی ہے اور عید کے سات یاآٹھ دنوں میں روزانہ کی بنیادپر تھلیل کے مقررکردہ حصے پڑھے جاتے ہیں جن میں خداکی تعریف اور مناجات شامل ہوتی ہیں۔
ان ایام عیدمیں خمیراورخمیری کھانوں پر مکمل پابندی ہوتی ہے،خاص طورپراناج کی کسی طرح کی اقسام گندم،جو،جو کی قسم کے دیگراجناس،گیہوں کی مختلف قسمیں وغیرہ پربھی۔اس پابندی پر عمل کرنے کے لیے بہت سخت قسم کی نگرانی کی جاتی ہے اور جہاں بھی اس عید کے کھانے تیارہورہے ہوں ان اداروں کی تلاشی لینے میں بھی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔بعض یہوودی علما جنہیں اصطلاح میں ’’ربی‘‘کہاجاتاہے وہ اس حد تک سختی کرتے ہیں کہ ممنوعہ خوراک کو گھرمیں رکھنے کی اجازت تک نہیں دیتے اور ان کے ہاں یہ فتوی موجود ہے کہ عید کے ان ایام میں ایسی خوراک کاسامان غیریہودی افراد کے ہاں امانتاََ رکھوادیاجائے۔اس عید فصح منانے کادوسرالازمی عنصر آنے والی نسلوں تک ان روایات کی منتقلی ہے۔اس لیے کہ توریت کے باب خروج میں خاص طورپر یہودیوں کو حکم دیاگیاہے کہ مصرسے اخراج کی یہ داستان اپنے بچوں تک ضرورپہنچائیں۔اس مقصد کے لیے بچوں کو معبدتک لایاجاتاہے اور ان کے گروہوں کے سامنے توریت کے متعلقہ حصوں کی تلاوت کی جاتی ہے اوراس طرح صدیوں سے نسل درنسل ان یہودیوں نے اپنی مذہبی روایات کو زندہ رکھاہے۔عیدفصح کی روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ خاندان کا پہلوٹھی کے بچے سے اس دن روزہ رکھوایاجاتاہے۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہاجاتاہے کہ طالمودکے مطابق فرعونیوں پر دس عذاب آئے تھے جن میں سے آخری عذاب ان کے پہلوٹھی کے بیٹوں کا ایک فرشتے کے ہاتھوں قتل تھا،پہلوٹھی کے بچے فرعون کے دربار میں تھے یا پھر قید خانوں میں سب کے سب ایک فرشتے کے ہاتھوں رات گئے قتل کردیے گئے تھے جس کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل کو مصرسے روانگی کی آزادی دے دی تھی۔عیدفصح پر ’’صیدر‘‘نام کاایک کھانا بھی کھایاجاتاہے۔فرعون نے جب بنی اسرائیل کو جب غلام بنایاتھاتو یہ آغاز شب تھااور صدیوں بعد جب فرعون سے آزادی ملی تو درمیان شب تھا،چنانچہ ’’صیدر‘‘کے کھانے میں رات کے آغازمیں غریبوں کاساکھانا کھایاجاتاہے اور بعدازنصف شب آزادی کاکھانا تناول کیاجاتاہے جس میں چارپیالے شراب بھی شامل کی جاتی ہے۔صیدردسترخوان کے دوران پڑھی جانے والی دعاؤں کو’’ہگادہ‘‘کہاجاتاہے ،جو ساراخاندان مل کر پڑھتاہے یاپھرسنتاہے جس میں دعوت دی جاتی ہے کہ سب لوگ آؤہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔
فرعونیوں نے نجات حاصل کرنے والے یہودیوں نے آج پوری دنیاکو فرعون مصرسے کئی گنازیادہ اندھیرنگری چوپٹ راج کی عملی تصویر بناکررکھ دیاہے۔ایک اسرائیل کی ریاست ہزاروں نہیں لاکھوں لہولہان انسانوں کے خون کانتیجہ بد ہے اور اس ناجائزریاست کا تسلسل بھی مستقل طورپرقتل انسانی کامحتاج ہے۔پوری دنیاکو پاؤں سے ناک تک سودکے طوق میں جکڑنے والے یہودی آج کس منہ سے عید فصح مناتے ہیں؟؟کل عالم کے ذرائع ابلاغ کو اپنے دست استبدادمیں قابوکر کے عریانی اور فحاشی کافروغ اور نسوانیت کی محتاج معیشیت کافروغ اس یہودیت کے مکروہ کارناموں میں سے چندہیں۔دنیابھرمیں قتل و غارتگری ،بم دھماکے،حکمرانوں کاقتل اور حکومتوں کی آئے روزاکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے عدم استحکام کے پیچھے ڈوریاں ہلانے والی انگلیاں صہیونیت کی درپردہ سازشوں کا پتہ دیتی ہیں۔یہ اﷲ تعالی کی مبغوض قوم ہے جس کا ناپاک وجود تاقیامت نشان عبرت کے طورپرباقی رہے گا کہ یہ مشیت ایزدی ہے۔ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو ان کی چیرہ دستیوں کے باعث پنکھوں کے ساتھ تلواریں لگاانہیں تہ تیغ کیا،اسٹالن کے ٹرک بھی لاتعدادیہودی گھرانوں کو سائیبیریا کی جان لیوایخ بستہ وادیوں میں چھوڑآئے تھے جہاں وہ برفانی قبروں میں زندہ دفن ہوگئے۔اب امریکہ کی ریاست یہودیوں کی انسانیت سوزچکی کے نیچے بری طرح پس رہی ہے جس کے نتیجے میں یورپ سے کئی گنابڑاہولوکاسٹ اب امریکہ کی آبادیوں میں لاوے کی طرح پک رہاہے۔بس کچھ دنوں کی بات ہے کہ جیش محمدﷺکا لشکراسلام اسرائیل کی ریاست کو خش و خاشاک کی طرح بہاتاہوا بحیرہ قلزم میں جاغرق کرے گا،ان شاء اﷲ تعالی۔

Short URL: http://tinyurl.com/y49rkzap
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *