کم عمری کی شادی اور صحت کے مسائل۔۔۔۔ تحریر: رضوان اللہ پشاوری

Rizwan Ullah Peshawari
Print Friendly, PDF & Email

چند دن قبل میرے موبائل پر فون آیا نمبر آنجانا تھا،جیسے ہی میں نے کال اٹینڈ کر کے سلام کیا تو اس صاحب نے کہا کہ میں نوید بول رہاہوں،کل پشاور پریس کلب میں ’’کم عمری کی شادی اور صحت کے مسائل‘‘کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا ہے،اس میں آپ کی تشریف آوری انتہائی ضروری ہے،کل ساڑھے دس بجے میں اپنی پشاور پریس کلب کی طرف روانہ ہوا،جیسے ہی میں سیمینار ہال میں داخل ہوا،تو ایک صاحب محو گفتگو تھے،میری نظر اچانک ایک لگی ہوئی پوسٹر پر پڑی اس پر لکھا تھا کہ اپنے بچوں سے کھیلیں ان کی زندگی سے نہ کھیلیں،میں اسی پوسٹر پر لکھے ہوئے حروف میں غوطہ زن ہوا،اچانک مجھے کم سنی کے ایک دوست کا واقعہ یاد آیا،میں چھوٹا تھا اس وقت میں حفظِ قرآن کر رہا تھا،میرا ایک دوست تھا اس کا ماموں اچانک مسجد کے دروازے سے داخل ہوا اور قاری صاحب سے کہا کہ احسان کی شادی ہے اس کو کئی دن کی چھٹی دیدیں،احسان خوشی سے پھولتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہوا،مگر وہ لوگوں سے یہی کہتا پھرتا تھا کہ لوگ یہ شادی کیوں کرتے ہیں؟جب شادی ہوئی واپس آیا تو اس نے کہا کہ میری شادی ہوئی میری بیوی میرے ساتھ گھر میں ہے ہم آپس میں کھیلتے ہیں،تو یہ ہے حال کم سنی میں شادی کا کہ بیوی بھی گھر آجاتی ہے لیکن ان کو ازدواجی حقوق یا جنسی تعلق کا پتہ تک نہیں ہوتاچہ جائے کہ ان کے معصوم کندھوں پر بیوی شوہر یا ماں باپ بننے کی بھاری ذمہ داری ڈالی جائے،یہ تقریباً 2001 ؁ء کا واقعہ تھا۔تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو بھی پکار پکار کر نوجوان نسل کی ضمیر کا نعرہ والدین کے دماغ میں گونج اٹھنا چاہئے کہ’’ہائے رُو بہ ضعف و زوال نوجوانوں کی جوانی برباد کرنے والوں!ہائے ٹیلنٹ کو دبانے اور ضائع کرنے والوں قیامت کے دن آپ سے پوچھا جائے گا‘‘
سیمینار میں مملکت خدادادکی قانون اور قانون میں ترمیم بارے بحث جاری تھی کہ لڑکے کی شادی کی کم ازکم عمر 18 سال اور لڑکی کی کم از کم عمر 16سال ہے،مگر اب یہ عمر بھی کم ہے کیونکہ یہ عمر میں لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کی ہے،اب اس سیمینار میں ہر ایک کو چند وقت دیا جاتا تھا،تھا کہ اپنا حاصل مطالعہ کچھ منٹوں میں بیان کر لیں،مگر میری بد قسمتی یہ تھی کہ میں کچھ تاخیر سے پہنچ گیا،اب اس سیمینار کے نائب تیمور صاحب میرے پاس آیا کہ آپ تو لیٹ ہوگئے آپ کا وقت تو گذر چکا ہے،مگر پھر بھی چند منٹ آپ کو دئے جائیں گے،اب ان کو کہنا ہی کیا تھا کہ یہ عمر مناسب ہے یا نہیں؟تو قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں چند منٹ لے لیئے،کہ قرآن میں جس کے لیے بھی زوج اور نساء کا لفظ ذکر کیا گیا ہے تو زوج ایک ایسا لفظ ہے کہ کبھی مرد اور کبھی عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے تو کیا اب یہ بچے مرد اور عورت کہلانے کے درجے میں ہیں؟نہیں یہ تو ابھی بچہ اور بچی ہیں،حالانکہ عمران خان جیسے اُدھیڑ عمر حضرات بھی اپنے کو بابا کہنے پہ غصہ سے تلملاجاتے ہیں۔کم عمری کی شادی کو اس وجہ سے بھی مفید نہیں سمجھا جا سکتا کہ اسلام نے زوج پر نان نفقہ رکھا ہے،اب اگر کوئی آدمی 18 سال کی عمر میں شادی کر لے تو یہ اب اپنی بیوی کو کیسے نفقہ دے گا کیونکہ یہ وقت تو خود لڑکے کی تعلیم وتعلم کی ہے،اب یہ خود تعلیم کرے گا یا اپنی بیوی کو نان نفقہ دیگا۔؟ہاں اگر اس کا انتظام ہوتو ایک الگ بات ہے،لیکن وہ کوئی خاص صورت ہوگی حالانکہ یہاں بات عام معاشرے کی ہے اور عام معاشرے کی حالت یہ ہوتی ہے کہ تندورِخداکے لیے حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر قوت لایموت پیدا کرنے کے لیے اور اپنے تاریک مستقبل میں ایک معمولی سا دیا جلانے کے لیے برائے نام تعلیم وتعلم کا سہارا لیا جاتا ہے۔لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ زرین عہد بھی موبائل اور نیٹ کے بے جا استعمال کے ساتھ ساتھ ۔
میری رائے کے مطابق اُن خود ساختہ دہشت گردوں نے دھندلادیا ہے جو تعلیم کے دشمن ہیں،اپنی قوم کے دشمن ہیں اور خصوصاً غیور پختون نسل کے دشمن ہیں،خود ساختہ میں نے اس لیے کہا کہ یہ شجرکاری بھی ان کی کارستانی ہے اور اب اس مخصوص خطہ کو آگ کی وادی میں دکھیلنا بھی ان ہی کی مہربانی ہے۔یہی تو ہماری بدقسمتی ہے کہ ارض پاک کا یہ حال بیرون ملک کی کسی بھی جگہ پر جاکر ڈگری دکھاتے ہیں تو ایسا ہی کہا جاتا ہے کہ چھوڑوں بس پاکستانی ہے،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہاں پر امتحانات شروع ہوجاتے ہیں تو یہاں پر ٹی وی سکرین پر کرکٹ شروع ہوجاتا ہے اور ہم نے تو بہت ہی پہلے سے اپنے اہل وعیال کو کرکٹ کے پُجاری بنا چکے ہیں،تو اب یہ بچہ امتحان کے لیے کام کریگا یا کر کٹ دیکھے گا تو ضروری بات ہے کہ کرکٹ دیکھے گا اور پھر صبح کو یہ بچہ پیپر ضرور نقل ہی کے ذریعے حل کریگا،بات کہاں سے کہاں نکل گئی؟ اچھاتیسری بات یہ ہے کہ کم سنی میں شادی کا فیصلہ کرنا یا شادی کے بعد خانگی مسائل کے حل کے لیے گہری سوچ کا حامل انتظام کرنا یہ گوناگوں اور پیچ وتاؤب کھانے والے مسائل اس عمر کے مناسب کہاں؟ جو حضرات اس تلخ تجربات سے گزر چکے ہیں انہیں بس سر ہلا کر اپنے بچوں پر رحم کرنا چاہئے۔نیز طبی حوالے سے بھی اب وہ زمانہ نہیں رہا سب کچھ چائنہ(ہائبریڈ)ہے،جسمانی قوتیں وہ نہیں رہی کہ اتنی کم عمر میں ہوش کی بجائے جوش اور انسانیت کے بجائے بہیمیت والے ازدوجی تعلقات،پھر حمل اور زچگی کے بارِگراں کہ جس کو قرآن پاک نے بھی بارِگراں ہی قرار دیاہے کے یہ چائنہ جسم اور جسمانی قوت متحمل نہیں ہوسکتی اور عین اسی کمزوری کی وجہ سے دوران زچگی شرح اموات رُو بہ اضافہ ہے۔
اور جیسے یہ کم سنی کی شادی لڑکے کے لیے مفید نہیں ہے تو بالکل اسی طرح یہ لڑکی کے لیے بھی مفید نہیں ہے،ازدواجی تعلقات اور جسمانی صحت میں براہِ راست تعلق ہوتا ہے ۔برسوں کے مشاہدے اوربہت سے علمی مضامین سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جوڑوں کے درمیان صحت مند اور پُر مُسرّت شادی کے نتیجے میں صحت پر مثبت اثرات مُرتّب ہوتے ہیں۔عام طور پر نو عمری 18سال سے کم عمرکی شادیاں ترقی پذیر ممالک میں نظرآتی ہیں اور دُلہن بچّیوں کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں مثلاً بچّے کی پیدائش کے وقت پیچیدگیاں ، غیر مطلوبہ حمل، اور اکثر اوقات پیدا ہونے والے بچّے میں غذائی قِلّت وغیر ہ جیسے مسائل پیش آسکتے ہیں۔
نوعمر ی میں شادی ہوجانے والی لڑکیوں کو نفسیاتی مسائل ،مثلاًذہنی دباؤ ڈپریشن ، اور ذہنی تناؤ سے تعلق رکھنے والے مسائل بھی پیش آتے ہیں ۔
مشاہدات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نو عمری میں شادی کرنے والی لڑکیوں کے ہاں بار بارغیر مطلوبہ حمل اور اسقاط حمل کے پیچیدہ مسائل سامنے آتے ہیں اور نتیجے کے طور پر اُن کی صحت پر خراب اثرات مُرتّب ہوتے ہیں ۔
لہٰذا ایسی ماؤں کے ہاں اکثرپیدا ہونے والے بچّوں کے لئے پیدائشی وزن اور بعد میں اُن کی جسمانی صحت کی افزائش معمول سے کم رہنے کا اِمکان ہوتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ نوعمری کی شادی اور جنسی اور تولیدی صحت کے خطرات سے بروقت آگاہی ضروری ہے۔تاکہ مشاعرے میں ایک شعور اجاگر ہوجائے،جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ باشعور،عقل مند اور صالح معاشرہ تشکیل دینے کے لیے اس معاشرہ کی بنیادی اکائی (شوہر بیوی)کی سن رُشد کا انتظار اور انتظام کرنا چاہئے۔چنانچہ اولاً تو بچوں کو ایسے گرم خوراک سے دور رکھا جائے کہ وہ قبل از وقت بالغ نہ ہو،تاکہ والدین قبل از وقت شادی کرنے پر مجبور نہ ہوں۔
دوسری بات یہ کہ والدین کو ان تمام خطرات وخدشات کا بھی علم ہونا چاہئے جو کم عمری میں شادی سے بچوں اور خصوصاً بچیوں کو درپیش آسکتے ہیں مثلاً کم عمری میں شادی ہونے اور پہلے حمل میں مطلوبہ تاخیر حاصل کرنے کے لئے ،عورتوں کو منع حمل کے بارے میں آگہی فراہم کرنے کی ضرور ت ہے ۔
*حمل واقع ہونے کی صورت میں ، زچگی سے پہلے کی دیکھ بھال کے بارے میں آگہی اور ضروری تعلیم فراہم کرنا چاہئے۔
* خطرے والے حمل کی صورت میں زچگی ہسپتال میں ہو نہ کہ گھر پر۔
* اگر کسی فرد کے بارے میں یہ شُبہ ہو کہ اُس کے لئے ایچ آئی وی ہونے کا زیادہ اِمکان ہے تو ایسی صور ت میں شادی سے پہلے ،ایچ آئی وی ٹیسٹ کروانے کے تصور سے آگہی فراہم کیجئے ،وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ محض رسم ورواج ،بہتر سے بہترین رشتہ کی طمع وامید پر جوانوں کی جوانی سے نہیں کھینا چاہئے کہ کم عمری کی شادی بھی اُسی کی ردعمل ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/jlrkb9a
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *