پا کستان کا موجودہ منظر نامہ

تحریر: پرو فیسرڈاکٹر شمشاد اختر
آج ہر وہ شخص جو اپنے ملک کے سود و زیاں سے پو ری دلچسپی رکھتا ہے اور حوادث روزگار اسے پوری طرح متاع درد سے محروم نہیں کر پا ئے جب اس کی نگا ہ پا کستان کے منظر پر پڑتی ہے تو اسے ما ضی تا بناک،حال ہو لناک،اور مستقبل تشویش ناک نظر آتا ہے اور اس تضاد نے خود دیکھنے والے کی شخصیت کو متضاد بنا رکھا ہے، اور پاکستان کا ہر ذمہ دار، درد مند اور با صلاحیت شہری قوت فیصلہ سے محرومی کا مریض ہو تا جا رہا ہے۔ جب ایک پا کستانی، آزادی وطن اور تحریک پا کستان کو ماضی کے آئینے میں دیکھتا ہے تو وہ اسے روشن اور خو ش کن نطر آتی ہے ، اس کے بزرگ ہی تھے جنہوں نے انگریز کی دی ہو ئی عزت کے مقا بلے میں کا لے پا نی کی اذیت کو منتخب کیا تھا، جیلیں کا ٹی تھیں،چکی پیسی تھی ، تختہ دار کو چو ما تھا، جلا وطنی قبو ل کی تھی اور یوں آزادی کی را ہ ہموار کر گئے ، قیام پا کستا ن کی تحریک چلی تو ہمارے ہی بزرگ تھے جنہوں نے اپنا بنگا لی، بلوچی،، سندھی، پٹھان،اور پنجا بی تشخص ختم کر کے محض اسلامی امتیاز اور افتخار قا ئم کیا تھا ، سنی،شیعہ اور مقلد اورغیر مقلد کی تقسیم کو فرا مو ش کر کے اسلام کی تعلیم کا سبق ازبر کیا تھا علاقا ئی اور صوبا ئی دا نے چن کر ملی ّ وحدت کی تسبیح میں پرو دیئے تھے ، زبان اور نسل کی لہروں اور مو جوں کو اسلام کے سمندر میں شا مل کر دیا تھا ، تحریک پا کستان میں کو ئی صو بہ گریزاں نہ تھا، کو ئی زبان بیگا نہ نہ تھی ، کو ئی نسل بر گشتہ نہ تھی کو ئی سنی مخا لف نہ تھا کو ئی شیعہ تنہا نہ تھا اور کو ئی فرد کسی سے جدا نہ تھا ، ایک نظریہ، ایک مطا لبہ، ایک نعرہ اور ایک نقشہ سب کو مطلو ب تھا اور سب کے لئے نقطہ اتحا د بن گیا بزرگوں کے اس اتحاد فکر و عمل نے دنیا کے نقشے پر ایک بہت بڑا ملک قا ئم کر کے دکھا دیا ، سیاسی پنڈت مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے ، تجزیہ نگار منہ جھکا کر بیٹھ گئے ، استعماری گما شتے غش کھا کر گر گئے اور جغادری ایک دو سرے کا منہ تکنے لگ گئے ، ماضی کے یہ چند اشارے ظاہر ہے کتنے یقین افروز اور جاذب نظر ہیں مگر اب کے جو ”منظر پا کستان“ سب کے سا منے ہے یعنی جو ہمارا حال ہے سو وہ ”برا حال“ ہے یہ تاثر کسی قنو طیت کا پیدا کردا نہیں بلکہ حقیقت کا عطا کردہ ہے جس سے چشم پو شی صر ف وہ کر سکتے ہیں جن کی پانچوں گھی میں اور سر کڑا ھی میں ہے جن کے خواب چکنا چور ہو گئے ، جن کی امیدیں بکھر گئیں اور جن کے عقیدے متزلزل ہو گئے وہ بھلا کیسے اس منظر کو خو ش کن کہہ سکتے ہیں ؟
کسی فلسفیانہ تمہید کے بغیر عرض ہے کہ کیا ”پا کستان“ کا لفظ ہر مسلمان کو اس خو شگوار احساس سے معمور نہیں کر رہا تھا ؟ کہ جو نہی یہ لفظ اپنے معنی سے ہم آغوش ہو گا تو اس دھرتی پر انگریز کا نہیں خدا کا قا نون ہو گا۔ سیا ست جا گیر داروں کے چنگل سے آزاد ہو جا ئے گی۔ معیشت کا قا رونی انداز بدل جا ئے گا ، معا شرت ہندوانہ اثر سے پا ک ہو جا ئے گی۔ منبر و محراب عہد نبوت کی یاد تا زہ کر دیں گے اور سر زمین پا کستان کا ہر با شندہ خدا کی بندگی کے علا وہ ہمہ قسمی بند گیوں سے آزاد ہو جا ئے گا لیکن پاکستان بننے کے تھوڑی مدت بعد دیکھتی آنکھوں اور سنتے کا نوں نے دیکھا اور سنا کہ ” منظر پا کستان“ کے سارے رنگ نہ صرف بدل گئے ہیں بلکہ پھیکے پڑ گئے ہیں ، بزرگوں کے دکھا ئے ہو ئے خواب آنکھ کھلنے پر ادھورے رہ گئے، اب ہر منظر خو فنا ک بنتا جا رہا ہے ، انگریز کے عہد سیا ست میں کھگے، ٹوا نے،دو لتانے، کھو ڑو،بھٹو، گر دیزی، مری، بگٹی،میر، خان،سردار، اور چودھری نمایاں تھے اب بھی وہی چہرے ہیں پہلے سے زیادہ بھیا نک، یہ پہلے بھی ضمیر فروش تھے اور اب بھی ضمیر کے بیو پاری ہیں ، نہ ان کا رنگ بدلا ہے نہ ڈھنگ ۔معیشت کا قا رونی انداز نہ صرف یہ کہ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اور زیادہ مکروہ ہو گیا ہے لو نڈے، لمڈے اور وحشی اور جا نگلی استحصال، جبر، مکر، سمگلنگ کے با عث کروڑوں میں کھیلتے ہیں اور ذہین،ہنر مند،با صلاحیت اور شریف لوگ فٹ پا تھوں کو نا پتے اور پگ ڈنڈیوں کی خاک پھا نکتے نظر آتے ہیں ،معاشرت اسلامی کیا ہو ئی الٹا دم کٹی بن گئی ذات پات نے زندگی کے ہر شعبے کو زہریلے سا نپ کی طرح ڈس لیا ہے ، لسا نی تقسیم نے رو شنیوں کے شہر کو درندوں کا بھٹ بنا دیا ہے جہاں قتل و غارت نے ڈیرے ڈاک رکھے ہیں، حقو ق انسا نیت کا جنازہ نکا لا جا رہا ہے، کچھ ذاتیں خو د بخود بڑی بن گیئں ہیں اور باقی عوام ڈھور ڈنگر ہیں۔ منبر و محراب کا نقشہ بھی چنداں خو ش کن نہیں کہاں منبر کی وہ عظمت کہ صدیقؓ و فا روق ؓ نے اس پر کھڑے ہو کر اخوت و بھا ئی چارہ کے خطبے دیئے اور کہاں یہ عالم کہ مسلمانوں کو فرقہ واریت کے تیروں سے چھلنی کر نے کے لئے کمین گاہ کا در جہ اختیار کر چکے ہیں، محراب و منبر کی وہ شان کہ جہاں عثمان ؓ و علی ؓ کے سجدوں کی خو شبو رچی ہو تی تھی اور کہاں یہ کیفیت کہ پیشانی تو خدا کے آگے جھکی ہو تی ہے اور دل کسی صنم کی چوکھٹ پر نظر آتا ہے یہ خواب بس خواب ہی رہ گیا کہ پاکستان کا ہر با شندہ صرف خدا کا بندہ ہو گا مگر اب حکمران ہوں یا رعا یا سب کی نگا ہیں واشنگٹن پر اٹک جا تی ہیں اگر ہماری آنکھ کا سر مہ خاک مدینہ و نجف ہو تا تو شا یدنگا ہوں کا قبلہ راست رہتا ۔
المختصر ماضی میں یہ کسی نے نہیں سو چا ہو گا کہ بننے والے پا کستان میں معیار صر ف پیسہ ہو گا ، مدار صرف طاقت پر ہو گا،عزت صر ف ایکڑوں کو ملے گی ، سہو لت صرف اوباشوں کو حاصل ہو گی ، عہدہ صرف جا گیر دار کو ملے گا ، قرضہ صرف سر ما یہ دار کو ملے گا، جس کا رقبہ زیادہ ہو گا رتبہ بھی اسی کا زیا دہ ہو گا ۔ جو جتنا زیادہ کمین ہو گا وہی ہمیشہ کرسی نشین ہو گا اگر ایسا کسی نے سو چا ہو تا تو کو ئی اپنی سفید داڑھی انگریز کی مٹھی میں نہ دیتا ۔کو ئی اپنی جوانی نہ لٹا تا ،کو ئی ماں، بہن اور بیٹی اپنی نا موس داؤ پر نہ لگا تی ، کو ئی کا رکن اپنے قا ئد کی پا لکی کندھوں پر نہ اٹھا تا کو ئی بھو کے پیٹ گھر سے نکل کر اپنے گلے پھا ڑ پھا ڑ کر یہ نعرے نہ لگا تا کہ ”بن کے رہے گا پا کستان“ ۔
ماضی میں یہ کیسے معلوم تھا کہ ان کی ہڈیوں پر سجے ہو ئے تخت پر انگریز کی چا پلوس اور پشیتنی وفادار لو گوں کی اولاد بیٹھے گی دولت صرف نا جا ئز طر یقے سے مل سکے گی اور عزت صرف اپنی غیرت نیلام کر کے حا صل ہوسکے گی، وزارت اپنی دیانت بیچ کر نصیب ہو سکے گی، ہمارے نا مور مجاھدوں، گمنام شہیدوں، پیکر وفا کا رکنوں اور قا بل فخر انقلابی کارکنوں کی روحیں بار بار یہ احتجاج کرتی ہیں کہ یہ گھر ہم اس لئے بنا یا تھا اپنے گھر اجاڑ کر اور یہ تاریخ اس لئے مرتب کی تھی اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ جو ڑ کر کہ انگریزوں کے نمک خوار انھیں اور ملت کے ضمیر کو اپنے پنجے میں جکڑ لیں،بلکہ اس لئے یہ سب کچھ کیا تھا کہ اس کو اسلامی ریاست بنا یا جا ئے،تشکیل پا کستان تو ہو گئی ابھی تکمیل پاکستان باقی ہے۔
Leave a Reply