کامیابی کشتیاں جلا دینے میں

تحریر: اے آر طارق
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس ،جس میں کشمیریوں سے یکجہتی کی قرارداد پاس ہونی تھی کا بائیکاٹ کیا۔وہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی شرکت کے خواہشمند نہ تھے،مگر تحریک انصاف کے کارکنان کے پرزور اصرار پر شاہ محمود قریشی کو اس میں جانے کی اجازت دے دی۔آل پارٹیز کانفرنس میں شاہ محمود کی شکل میں شرکت کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہ جانے کے فیصلہ پر سیاسی حلقے طرح طرح کے اعتراض اٹھا رہے ہیں۔یار لوگوں کا کہنا ہے کہ’’ جب آل پارٹیز کانفرنس میں تحریک انصاف نے شرکت کر لی تھی تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عمران کے نہ جانے میں کیا قباحت تھی؟۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ آل پارٹیز کانفرنس کی طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی شرکت فرماتے۔نواز شریف سے لاکھ اختلاف سہی ،مگر کشمیر ایشو کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں ان کی عدم شرکت مناسب نہیں تھی۔انہیں اس مشترکہ اجلاس میں شریک ہونا چاہیئے تھا۔‘‘عمران کی مشترکہ اجلاس میں عدم شرکت کے باعث سیاسی پنڈتوں میں مختلف قیاس آرائیاں،چہ میگوئیاں اور کھسر پھسر ہوتی رہی۔انہوں نے اس موقع پر عمران کو آڑے ہاتھوں لیااور ہدف تنقید کا نشانہ بنایا۔اس سلسلے میں عمران خان کا کہنا ہے کہ’’ میں نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں مانتا،وہ ایک کرپٹ آدمی ہے،میں اس کرپٹ شخص کی طرف سے بلائی گئی کسی بھی کانفرنس اور اجلاس میں شرکت کر کے اس کے ہاتھ مضبوط نہیں کر سکتا،‘‘ان کے خیال میں جس طرح مودی پاکستان کو جنگی معاملات میں الجھا کر مسئلہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے ،بالکل اسی طرح نواز شریف پاکستان کی خراب صورتحال اور مسئلہ کشمیر کی آڑ میں پانامہ الزامات سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں،اسلیے میں کسی بھی قسم کی ایسی صورتحال میں حکومتی دست بازو نہیں بن سکتا،جس سے کرپشن زدہ حکمران پھلے پھولے یا ان کا عرصہ اقتدار بڑھے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے مودی کو اپنے جلسے میں واضح اور دو ٹوک لفظوں میں بتا دیا تھا کہ ملک عزیز کے دفاع کے حوالے سے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ہم سب ایک ہیں۔عمران نے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کی ،جس پر یقیناًاعتراض اٹھائے جا سکتے ہیں۔مگر سوچا جائے کہ وہ کون سے عوامل تھے کہ جن کے باعث مودی کے زبردست مخالف عمران نے کشمیریوں کی یکجہتی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں شرکت نہ کی ،جس پر لازما انہیں شرکت کرنا چاہیئے تھی مگر انہوں نے جن اعتراضات کی بناء پر شرکت نہیں کی ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم جو کہ 5 ماہ سے پانامہ معاملے کو سرد خانے میں رکھے ہوئے ہیں،پر کہہ دیتے کہ ٹھیک ہے میں اپنے آپ کو پانامہ کے حوالے سے تحقیق کے لیے پیش کرتا ہوں تو معاملہ دوسرا رخ اختیار کرسکتا تھا ،جس میں ان کی شرکت لازمی ہوتی،مگر ہمارے ہاں کا نرالہ دستوریہ ہے کہ حکمران مشکل اور ناموافق حالات میں بھی اقتدار کی کرسی سے چمٹے رہتے ہیں اور اترنے کا نام تک نہیں لیتے،اپنے اقتدار کو ڈاواں ڈول دیکھ کربھی کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں ،جو ان کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دے سکیں،کو بچانے کی سعی میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عمران جو کہ ایک جہاندیدہ سیاستدان ہے ،تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر سیاست کرتے ہیں، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس وقت جب کہ وہ حکومت کے خلاف پانامہ ایشو پر طبل جنگ بجا چکے ہیں ،ان کے کسی بھی پیغام پر ان کے ہاں چلے جانے میں ان کی سیاسی موت ہے۔اس وقت نواز ٹھہراوٗ کے متحمل وہ ہرگز نہیں ہوسکتے۔ سو یہی وہ محرکات ہے ،جس کے باعث وہ شرکت نہ کرنے کے فیصلے پر اڑے رہے۔رہی بات اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی تو ان کے کیا کہنے ،سیاست کے افق پر چھائے رہنے کے لیے بہت کچھ بولتے رہتے ہیں۔بعض اوقات نمک حلال کرنے کی غرض سے حضور والا کی چمچہ گیری اور کئی بار بے وقت کی راگنی بھی چھیڑ دیتے ہیں۔جس سے ان کا مقصد محفل کوکشت زعفران بنانے سے زیادہ خود زعفران میں رنگنا ہوتا ہے ۔سو اسی کوشش میں بعض اوقات ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ’’ رہنما ء پر بھی گمان رہنماء ہوتا نہیں‘‘۔ جس کا عملی مظاہرہ انہوں نے اسمبلی فلور پر کیا۔پارلیمنٹ میں ڈائس کے مسئلے پر وزیر اعظم نے ان کو بلایا اور کہا کہ’’ میری نشت پر آجائیں‘‘،جواب میں ان کااز راہ مذاق یہ کہنا کہ’’ میرے لیڈر یہاں آئے ہوئے ہیں،وہ سوچیں گے کہ پتا نہیں کیا سودے بازی ہو رہی ہے‘‘ کے بیان سے وہ بلاول بھٹو کی ’’فہم میں کمی ‘‘کی چغلی کھا رہے ہیں اور اپنی اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کر تے دکھائی دیتے ہیں۔خورشید شاہ بھی کرسی اور عہدے کے’’ رسیاء‘‘ ہیں اور اس کے لیے فضل الرحمان کی طرح ہر حربہ،طریقہ،انداز اختیار کرنے تک جاتے ہیں۔فرینڈلی اپوزیشن بھی کرنے پر آجائے تو ایسے کرتے ہیں جیسے دوسرے پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہے ہو۔جہاں تک بات ہے عمران کی مشترکہ اجلاس میں عدم شرکت کی تو ،وہ ان کا ذاتی فعل ہے اور رہی بات کشمیریوں کیلیے یکجہتی کی قرارداد پاس کرنے کی تو تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ماضی میں اب تک ایسی سینکڑوں قراردادیں پاس کی ہیں،جن کا کوئی بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔مذاکرات اور قراردادیں دل بہلانے کے لیے غالب خیال اچھا ہے والی بات ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور یہ حقیقت ہم پر پوری طرح آشکارہ ہے کہ ہم جن سے کشمیر کی آزادی کے لیے فریاد کناں ہیں،وہی اس کا بیڑا غرق کیے اس کھیل تماشا کو انجوائے کررہے ہیں۔ہم نے کشمیر پر احتجاج پوری دنیا کو بارہادکھایا،دکھا لیا،مگر آج تک اس پر کچھ نہیں ہوا،جن کے پاس ہم اس مسئلے کے حل کے لیے جاتے ہیں ،وہ ہی اسے پاک بھارت آپسی معاملہ قرار دیکر معاملہ سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ہمیں کب سمجھ آئے گی۔یہ سب آپس میں ایکا کیے ہوئے ہیں ۔مسلم ممالک باالخصوص پاکستان کی خراب صورتحال پر شاداں وفرحاں جان بوجھ کرآنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔بھارت سے ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے جبکہ پاکستان سے صرف ان کے مفادات وابستہ ہیں،اپنا مطلب نکلتے ہی پاکستان سے اپنا ہاتھ اٹھا لیں گے۔ہمیں اس وقت قراردادوں اور مذاکرات کی نہیں بلکہ اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ،عقل وفہم ،بروقت فیصلہ اوردرست فیصلہ کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ہوگا جب ہماری خارجہ پالیسی بہتر ہوگی۔ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ یہاں پر سفارش ،اقربا پروری اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ اس حد تک دراز ہے کہ نواز حکومت کے دور میں نیٹ رپورٹ کے مطابق(اس میں کتنی حقیقت ہے حکومتی ذرائع ہی بتاسکتے ہیں) ایک ایسے شخص کو بیرون ملک میں قونصلیڑ ہے ،جس کا سرکار یا گورنمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔،اب آپ خود ہی بتائیے کہ ایسے میں اگر آپ کہیں کہ کوئی ہماری بات کو سنجیدہ لے اور غور سے سنے ،کیسے ممکن ہے۔ جب تک اہل اور قابل افراد کو سامنے نہیں لایا جائے گا ،ہم داخلی وخارجی ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہونگے، چاہے وہ سفارتی شکست ہویا مذاکراتی۔ہمیں شاہ فیصل مرحوم کی طرح کے فیصلے لینا ہونگے ، جس نے اپنے دور اقتدار میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی سعودیہ آمد پراس کی اس دھمکی پرکہ’’ہم تمہارے تیل کے کنووں کو آگ لگا دیں گے ‘‘پرمسکراتے ہوئے جواباکہا تھا کہ’’تم ہمارے تیل کے کنووں کو آگ لگا دو،مگر آگ لگانے سے پہلے یاد رکھنا کہ ہماری قوم تو دوبارہ اونٹوں پر بیٹھنا سیکھ جائے گی مگر امریکن کار سے نیچے نہیں اتر سکیں گے‘‘۔یہ سننے کے بعد ہنری کسنجر سرخ قالین پرپاوٗں پٹختے ہوئے، پیچ وخم کھاتے واپس اپنے ملک چلا گیا۔بر وقت اور درست فیصلے میں ہی ہماری بقاء ہے اور کامیابی طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا دینے میں ہے۔
Leave a Reply