ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ ۔۔۔۔ تحریر: اقراء اعجاز

Iqra Ijaz
Print Friendly, PDF & Email

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی

ویلنٹائن ڈے کیا ہے ؟ عیدالحب یا ویلنٹائن ڈے ایک خاص رومی عید ہے جس کی ابتدا سے متعلق کوئی ٹھوس بات کہنا ایک مشکل ترین امر ہے ۔ البتہ مختلف کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ابتدا تقریبا1700سال قبل ہوئی تھی اس وقت یہ عید کے طور پہ منائی جاتی کیونکہ اہل روم کے نزدیک 14 فروری کا دن یونو دیوی کے نزدیک مقدس تھا اور یونو کو عورتوں اور شادی بیاہ کی دیوی کہا جاتا تھا ۔ بعد میں اس موقعہ پر ایک حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے یہ دن عشقیہ .فحش .اور غیر شرعی تعلقات رکھنے والوں کی عید بن گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی میں رومی بادشاہ کلاوڈیوس کو اپنے مخالف کے خلاف فوج کشی کی ضرورت پڑی جس کے لئے اس نے فوج میں بھرتیاں شروع کیں مگر لوگوں میں رغبت نہیں تھی وجہ معلوم کی گئی تو معلوم ہوا کہ لوگوں کی رغبت اپنے اہل و عیال خاص طور پر اپنی بیویوں کی طرف تھی لہذا اس نے شادی کی رسم کو ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن ایک پادری جس کا نام ویلنٹائن تھا اس نے اس حکم کی مخالفت کی اور چھپ چھپا کر نکاح پڑھاتا رہا بادشاہ کو اطلاع ملی تو اس نے پادری کو جیل میں ڈال دیا جیل میں پادری پر جیلر کی لڑکی عاشق ہو گئی لیکن معاشقہ مکمل نہ ہو سکا اور پادری کو پھانسی ہو گئی .یہ واقعہ 14 فروری 279 سن عیسوی میں پیش آیا اسی مناسبت سے 14فروری کو ہر سال شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے یہ عید مناتے ہیں اپنی محبت کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں اس عید میں ایسی ایسی خوشیوں کا اظہار ہوتا ہے گویا یہ مسلمانوں کی شرعی عید ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنی محبت کے اظہار کے لئے ایک دوسرے کو تحائف پیش کرتے ہیں جو کی کارڈز اور پھولوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ آجکل یہ رسم ہمارے معاشرے کی زینت بھی بن گئی ہے ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے درپے ہے ۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے مگر یہاں جس تیزی سے اس تہوار نے زور پکڑا ہے وہ حیرت کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ ہمارا اسلامی تہوار نہیں ہے نہ ہی ہماری تہزیب و ثقافت اس بات کی اجازت دیتی ہے ۔ ہمارے معاشرے کے چند برے عناصر اس غیر شرعی اور شرمناک تہوار کو مسلمانوں میں بھی رائج کرنا چاہتے ہیں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہیں ۔ یہود و نصاری کی تقلید ہم پہ جائز نہیں ہے کیونکہ یہود و نصاری مسلم دشمن ہیں یہ کبھی بھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ عقل و شعور بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کیا محبت کے لئے ایک دن مقرر کیا جانا چاہئے محبت کے لئے تو ہر دن ہوتا ہے اور کیا محبت اور پیار صرف لڑکے اور لڑکی یعنی جنس مخالف کے لئے ہی محدود ہے جبکہ بحثیت مسلمان ہماری محبت ہمارے پیار کا اصل حقدار تو اللہ تعالی کی ذات ہے یہ سب سوال ایسے ہیں جو ان ملعونوں سے پوچھے جائیں تو ان کے پاس کسی ایک کا خاطر خواہ جواب نہ ہوگا ۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کی باہمی محبت کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتے جب تک تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو میں تمیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاوں جب تم اس پر عمل کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو آپس میں سلام کو پھیلاؤ (صحیح مسلم )۔
لیکن موجودہ زمانے میں محبت نے اپنی اصل شکل کھو دی ہے محبت کے نام پر ایک غیر حقیقی غیر شرعی جزبے کو ابھارا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں سطحی اور وقعتی نوعیت کے غیر شرعی تعلقات نے جنم لیا ہے ۔ یہ کیسی محبت ہے ؟ جس نے اس خوبصورت جزبے کو نفسانی خواہشات کے حصول کی پیروی تک محدود کردیا ۔ ہماری معاشرتی تہزیبی اقدار کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اس کی تقلید میں اندھا دھند دوڑے جا رہی ہے ۔ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا۔ سکوت تھا پردہ دار جسکا وہ راز اب آشکار ہوگا۔ نوجوانو ہم مسلمان ہیں ہمارا دین ہمیں ان سب کی اجازت نہیں دیتا ہماری کچھ روایات ہیں جن کی پاسداری میں ہی ہماری بقاہ ہے ۔ آجکل یہ تہوار منانا اس قدر عروج پہ ہے کہ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی من چلے گھروں سے ایسے نکلتے ہیں جیسے گرمیوں میں کیڑے مکوڑے باقاعدہ تحائف خریدے جاتے ہیں کارڈز مارکیٹ کی زینت بن جاتے ہیں ان سب بیہودہ باتوں کو سرعام کیا جا رہا ہے 14 فروری کا دن آتے ہی پھولوں کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے بازاروں میں رش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور تو اور ہمارا میڈیا بھی کسی سے کم نہیں ہے ۔ غیر شرعی محبت کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں ایک دوسرے کو وش کیا جاتا ہے ۔ میرے ملک کہ نوجوان کس نہج پہ چل پڑے ہیں کسی کے ماتھے پر شکن نہیں ہے کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایسی بے شرمانہ رسوم ترکے میں دینے والے ہیں ؟ہاکستان کو ہم نے بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے بہت سی ماون نے اپنے لعل کھوئے ہیں بہت سی بہنیں اپنی عصمت سے ہاتھ دھو بیٹھی کیا یہ ملک ہم نے ان سب خرافات کے لئے حاصل کیا تھا ہم اتنے مردہ ضمیر کب سے ہو گئے ؟بحثیت والدین ہمارا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو دین پہ چلنے کی تعلیمات دیں .نہ کہ ماڈرن ازم کے چکر میں انہیں آدھے تیتر آدھے بٹیر بنادیں اسلامی تہزیب و تمدن میں ان فضول اور غیر مناسب رسوم کی گنجائش نہیں ہے ہماری حکومت کو بھی اس پہ اقدامات کرنے چاہئے تاکہ غیر مسلم رواج ہمارے ملک میں رائج نہ ہو میڈیا کو بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرنی چاہئے کہ وہ معاشرے کے فعال شہری بنیں ۔

حسن کردار سے نور مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے

Short URL: http://tinyurl.com/z6f9y4w
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *