رواجی ذہن۔۔۔۔ تحریر: محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

عمران خان اور ایلس ہووے کی کہانی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے دونوں نے تصویر کے رخ کو بدل کر دیکھنے کا ارادہ کیا ۔ ایک کی کامیابی کی بدولت دنیا کپڑے سی کر پہننے کے قابل ہوئی تو دوسرے کی جدوجہد نے عوامی سوچ اور ملک دونوں کو بدل دیا ہے ۔ حسد اور جلن کا علاج نہ پہلے تھا نہ آج کسی حکیم کے پاس ہے ۔ کچھ نیا کرنے کے لئے روائتی طرز چھوڑ کرمشکل راستے پر سفر شرط ہوتی ہے۔ ایلس ہووے نے 1845میں اس دنیا کو وہ چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں انقلاب برپا کردیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی ۔ ایلس ہووے امریکہ کے مشہور شہر میسا چو سٹیس کا ایک کاریگرتھا۔وہ1819میں پیدا ہوااور صرف زندگی کی 48بہاریں دیکھنے کے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ ایلس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگا ڈالنے کے لئے ابتدا سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتاتھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے ۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آرہا تھا ۔ ایلس ہووے نے بھی پرانی تکنیک استعمال کی اس نے جب سلائی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے عین مطابق جڑ کی طرف چھید بنایا ۔ اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی تھی۔ شروع میں اپنی ایجاد کردہ مشین سے وہ صرف جوتا ہی سی سکتا تھاکپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی ۔ ایلس ہووے نے اس مسئلے کو سلجھانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ایک عرصہ تک وہ اسی ادھیڑ پن میں رہامگر اس کی سمجھ میں کوئی حل نہیں آتا تھا۔ آخرکار اس نے ایک خواب دیکھا اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کردیا۔
اس نے خواب میں دیکھا کہ جنگل کی سیر کے دوران اسے کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے پکڑ لیا ہے وحشی اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے ۔ بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر سلائی مشین بنا کر تیار کرے ناکامی کی صورت میں اسے قتل کردیا جائے گا ۔ اس نے سر توڑ کوشش کی مگر مقررہ مدت میں مشین تیار نہ کرسکا۔ جب وقت پورا ہوگیا تو بادشاہ نے اس کے قتل حکم جاری کردیا ۔ بادشاہ کے اشارے کی دیر تھی وحشی لوگ اس کو مارنے کے لئے دوڑ پڑے ۔ سب وحشیوں کے ہاتھ میں برچھے تھے ۔ہووے نے ان کے برچھوں پر غور کیا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا۔ خواب بھیانک تھا موت کا تعاقب اذیت ناک بھی تھا سو جونہی وحشی اس کے نزدیک پہنچے اس کی آنکھ کھل گئی جان بچی سو لاکھوں پائے۔ ہووے کو کھوئی ہوئی ڈور کا سرا جس کی تلاش میں وہ سرکرداں تھا مل چکا تھا۔ وحشیوں کے برچھوں کی نوک پربنے چھید نے اسے آغاز کی راہ دکھلا دی تھی ۔ اس نے برچھے کی نقل کرتے ہوئے اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اوراس میں دھاگا ڈال کر ٹرائی کیا ۔ مسئلہ حل ہوچکا تھا دھاگے کا چھید سوئی کے اوپر کے حصے میں ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر پا رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی ۔ ہووے نئے ٹرینڈ کو جب تک ذہن میں جگہ دینے پر آمادہ نہیں تھا مسئلے کے حل سے کوسوں دور تھا اس کی م شکل یہ تھی کہ رواج کے مطابق سوچ اور عمل کررہا تھاسومسئلے کے حل سے کوسوں دور تھا۔ وہ پرانی سوچ سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پار ہا تھا ۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے صرف وہی صحیح ہے ۔ ہزاروں سال کی سوچ جب تک اس کے ذہن میں بھٹکتی رہی وہ ناکام رہا ۔ جب اس کے لاشعور نے اسے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملہ کو سمجھا نہ صرف سمجھا بلکہ فورا گتھی کو سلجھابھی لیا ۔ اس کی کام میں لگن اور مگن اس لیول تک پہنچی ہوئی تھی کہ خواب میں موت کا تعاقب بھی اس کی سوچ کے محور کو نہ بدل پایا ۔ برچھوں کے چھید میں اسے اپنی سلائی مشین کا حل مل گیا ۔ ایجادات اور دریافتیں کرنے والے لوگ جنونی ہوتے ہیں۔ان کے اندر کی تڑپ و جذبہ انہیں بالا آخر کا میابی کے ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچا دیتی ہے ۔
خان صاحب کا جلسہ دیکھنے کے بعد پہلے لاہور پھر اوکاڑہ میں ایک ہی بات ذہن کو باربار کلک کرتی رہی کہ خان صاحب بہت طویل عرصہ روائتی طریقے سے سیاست کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اپنی سیٹ تک ہار جاتے رہے ۔ سیاسی میدان میں انہوں نے حریفوں کو جس طرح سیاست کرتے دیکھا انہوں نے بھی وہی سٹائل اپنا لیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی سیاست طویل عرصے تک میانوالی ان کے آبائی حلقے کے نکے میں پھنسی رہی ۔ ہر دفعہ جب وہ الیکشن میں مقابلہ کرتے تو جگ ہنسائی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آتا ۔ وہ پاکستان بننے کے بعد سے بوسیدہ سیاستدانوں کے طرز کو اپناتے رہے کرکٹ کے میدان کا ہیرو سیاسی میدان میں زیرو ہوتا چلا گیا ۔ تڑپ سچی تھی کھیل اسٹیمنے کا تھا خان صاحب لگے رہے ۔ سیاسی میچ کے اوور کبھی لمیٹڈ نہیں ہوتے یہ میچ آخری سانس تک چلتا ہے ۔ پراپیگنڈے الزام تراشیاں بدمعاشیاں چالاکیاں یہ ہتھیار اب خان صاحب کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتے ۔ خان صاحب جب تک روائتی طرز پر سوچ کر اپنی سیٹ جیتنے اور حکومت بنانے کی اسکیموں کا سوچتے رہے ناکامی ان کے آنگن میں دھمالیں ڈالتی رہی ۔پھر خان صاحب نے جنم جلے لوکل ہوس اقتدار کے سیاسی پجاریوں کے مندر پر لعنت بھیج کر جونہی عوام کو شعور دینے انہیں ان کی حالت کا احساس دلانے کا ارادہ کیا تو گویا ان کو کھویا ہوا رستہ مل گیا ۔ یہ ہے عالمی لیول کے لیڈروں کا راستہ جسے چننے میں بھلے ہی خان صاحب نے دیر کی مگر دیر آمد درست آمد ۔ اب ان کی سلائی مشین ہر روز تبدیلی کے جھنڈے سیتی جارہی ہے ۔ کوئی بھلے ہی خوش فہمی کی سیف الملوک کے حسن پے اپنے ذہن کو تروتازہ کرتا رہے سچ یہی ہے کہ دھرنوں نے اوراس دوران روز کی تقریروں نے سوئے ہوئے باشعور طبقے کو جگا دیا ہے اس میں نوجوان جج بیور و کریٹ انجینئر ڈاکٹرز ہرطبقے کے افراد بلا تقسیم جنس شامل ہیں ۔ اب بات حلقوں تک نہیں رہ گئی اب بات تبدیلی کے آتش فشاں کے دھانے سے نکلتے شعلوں اور اٹھتی بھاپ تک جا پہنچی ہے ۔سوئے ہوئے طبقے کو اپنی طاقت کا احساس ہوچکا ہے ۔ پرانا نظام فرسودہ سوچ آخری انگڑائیاں لے رہے ہیں ۔ آپ ملک کے وزیراعظم ہوں لیکن صبح سے شام تک آپ کے حامی آپ کی پوسٹیں شیئر کرکے تھک کر بالاآخر خود ہی پانچ سات لائیکس اور کمنٹس کا بندوبست کریں تومقبولیت کے گراف کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ دوسری طرف ایک وہ آدمی جس نے چند میچ کھیل کر ایک ڈیڑھ فٹ کا کپ قوم کو دیا ہو وہ اتنا مقبول ہوجائے کہ ہردل کی دھڑکن بن جائے تو بات صرف سوچنے کی نہیں بلکہ حالات کو دیکھ کر سوچ کو تبدیل کرنے بھی ہے ۔ اس ملک نے بدلنا ہے ۔ تبدیلی کے دریاکا رخ مزید موڑا نہیں جا سکتا ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری پارٹیاں بھی اپنی اپنی سوئیوں کے چھید کی جگہ اور پوزیشن تبدیل کریں تاکہ کم از کم اپنے گریبان کے چاک تو سی سکیں ۔ مزاحمت کے پتھر تبدیلی کے لاوے کے سامنے آخر کب تک ٹک پائیں گے ۔ کہیں تو لوٹ مار کا اختتام کرکے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کا فیصلہ کرنا ہی ہوگا ۔ یہ فیصلہ اکیلے عمران خان یا ان کی پارٹی نے نہیں کرنا ۔ یہ اس ملک کی ہر سیاسی پارٹی ہر شہری نے کرنا ہے۔ اب دل سے خود کو بدلنا ہے یا بادل نخواستہ یہ ہر ایک کی اپنی چوائس ہے۔عمران خان تو تبدیلی کا استعارہ ہے۔اس نے جو کرنا تھا وہ کر چکا ہے۔دلوں میں جگہ بنانے کے لےئے اس نے جو قربانی دینی تھی وہ دے چکا ہے۔وقت آچکا ہے کہ دوسرے شرفاء بھی اپنے آباواجداد کی لوٹ مار اسکیموں کو وائنڈ اپ کر کے پاکستان کے بارے میں سوچیں ۔یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں ۔ورنہ ہماری نہ کوئی پہچان نہ جان ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/hj4wruk
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *