چھوٹا کشمیر
کشمیر ریاست جموں و کشمیر کی ایک وادی ہے جسے پاکستان میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ 5 اگست کو ہندوستان نے پاکستانی اصطلاح والے مقبوضہ جموں وکشمیر کو مکمل اپنا حصہ بنا دیا ہے اورپاکستانی آزاد حصے جہاں ہم گھوم پھر رہے ہیں ان حصوں کے کئی علاقوں کو پاکستانی یا دوسرے سیاح چھوٹا کشمیر کے ناموں سے یاد کرتے ہیں یہاں تک کہ جو علاقے کشمیر کے حدود میں نہیں ان علاقوں کو بھی چھوٹا کشمیر کے نام دئے ہوئے ہیں ۔ہم کسی چھوٹے اور بڑے کشمیر سے واقف نہیں ہمیں اتنا علم ہے کہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں اسے ریاست جموں و کشمیر کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک ریاست جموں و کشمیر کے سارے علاقے چھوٹے نہیں بلکہ بڑے کشمیر ہی ہیں۔یہ لفظ کیسے وجود میں آیا اس بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ یہ لفظ کسی بادشاہ کی زبان سے ایک خوبصورت علاقے سے گزر ہونے کے موقع پر ادا ہوا ۔وہ بادشاہ اس علاقے کی خوبصورت دیکھ کر اتنا بے خود ہوا کہ اس کی زبان سے اچانک یہ جملہ نکلا ۔۔”ایں وادی بچہ کشمیر استیعنی۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے کئی اور علاقوں کو چھوٹے کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔مثلاً چھوٹا تبت، چھوٹا پامیر۔مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ گلگت بلتستان والے چھوٹے تبت اور چھوٹا پامیر کے جملوں پر چپ سادھ لیتے ہیں لیکن جہاں کہیں چھوٹا کشمیر کا نام آجاتا ہے تو وہ سو سالہ حکمرانی کرنے والےبڑے کشمیر تک کی تاریخ بھی بھول جاتے ہیں جبکہ بڑے کشمیر کی بہت ساری نشانیاں ان علاقوں میں اب بھی باقی ہیں ۔آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ میں کیا قصہ لے کے بیٹھ گیا بات یوں ہے کہ سردی کے اس موسم میں ناگزیر وجوہات کے باعث استور کی طرف جانے کا اتفاق ہوا ۔ بچپن میں اور پھر اس کے بعد کئی دورے استور کے ہوتے رہے ہیں اور ہر بار واپسی پر چند الفاظ قارئین تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اب کی بار جو میں نے استور کو دیکھا تو استور سے لوگوں کی ہجرت اور گلگت یا راوپنڈی میں رہائش کی وجہ بھی سمجھ آگئی ۔یہ سچ ہے کہ استور پہنچنا پہلے سے آسان ضرور ہوا ہے لیکن گرمیوں میں راما فیسٹویل دیکھ کر استور کو چھوٹا کشمیر کہنے والے نہ صرف استور کے مسائل سے واقفیت نہیں رکھتے بلکہ انہیں ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا بھی صحیح معنوں میں ادراک نہیں ۔
Leave a Reply