تحریر: محمد رضوان خان اس سے پہلے کہ آپ ان کی موت کو حادثہ قرار دیں خدا کی مرضی سے تعمیر دیں۔ میں اسے خود کشی کا نام دوں گا۔ وہ سرکاری محکمے میں گریڈ انیس کے آفیسر تھے۔بیوی بچے
میں جب بھی پروفیسرصاحب سے ملا ،یوں سمجؤے کہ اپنے سقراط سے ملا ۔اس کی ذات کو جانچنے کے لیے ایک نشست کافی نہہں تھی سو میں نے ان سے دوستی کرلی یوں ملاقاتوں کا سلسلہ چل کھلا۔ہر ملاقات کے
میں جب بھی بلا وجہ تنی ہوئی کوئی گردن دیکھتا ہوں تو میری بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے مٹی کا بنا ہوا انسان اور زمین پر اکڑ اکڑ کر چلے بات ہے بھی ہنسنے کی بلکہ دل کھول کر
ہم دونوں خاموش تھے اور ہمارے درمیان نامعلوم سی اداسی رقصاں تھی۔ہمارے سامنے میز پر میڈیکل رپورٹس پڑی ہوئی تھیں جو وہ جوان چند لمحے پہلے ہی لیب سے اٹھا کر لایا تھا۔دس ماہ پہلے یہ جوان ہنستا مسکراتا زندگی
اگر آپ پاکستان میں ہیں توا ﷲآپ کو عدالت،ہسپتال اور جمہوریت سے بچائے ۔جمہوریت کے مزے تو اہل وطن لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ہر دفعہ جب ان کا دل اوب جاتا ہے تو یہ پکار اٹھتے ہیں ۔ویسے
جوا ء کھیلتے دیہاتی جوان جوا کھلانے والے مکاراوپولیس کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ میرے لئے کوئی نیا نہیں تھا۔جو لوگ چولستان کے سے واقف ہیں انہوں نے صحرا کے عیں وسط میں لگنے والا میلہ چنن پیردیکھا ہو
میں جب بھی کوہ پیما ثمینہ بیگ کی ایک لوکل بینک کے داخلی دورازں پر آویزاں تصویر دیکھتا ہوں تو اس کے عظم اور ہمت کی داد دئیے بغیر نہیں گزر پاتا۔کہاں دھان پان سی خاتون اور کہاں ماونٹ ایورسٹ۔اپنے
زندگی کی لکیر دھیرے دھیرے مدھم ہوتی جا رہی تھی۔موت اپنی جگہ بناتی جا رہی تھی ۔سانسوں کی کشتی ا مید اور نا امیدی کے درمیان ڈول رہی تھی۔دعائیں ہی واحد سہارا تھیں ۔ہر طرف نالیاں ہی نالیاں تھیں ۔مصنوعی
ہم بحثیت قوم دردناک المیہ اور چلتی پھرتی داستان عبرت ہیں۔مسئلہ میچ کا نہیں ۔ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔پاکستان ہار گیا بنگلہ دیش جیت گیا ۔مسئلہ یہ بھی نہیں کہ ہم کیوں ہار گئے یاحسینہ واجد میچ دیکھنے بذات
ایک کے بعدڈاکومینٹری۔ہر ڈاکومیٹری کی پذیرائی اور وہ بھی اس لیول کی کہ آسکر کے لئے نامزدگی۔نامزدگی تو بعد میں ہوئی میں نے پہلے ہی دوست کو کہہ دیا تھا میاں موضوع تگڑا ہے آسکر کا ٹیگ لگا کر ہماری