انڈیا اور پاکستان کی جشن یومِ آزادی کے حوالے سے محفلِ اُردو

Print Friendly, PDF & Email

سرحد کے اس پار ہم بھی ہیں تم بھی ہو۔۔۔۔ملنے کو بے قرار ہم بھی ہیں تم بھی ہو
یادگار مشاعرہ اور جوشِ اُردو ایوارڈ ۲۰۱۵ کی تقریب کا انعقاد
ازقلم: حسیب اعجاز عاشرؔ
دبئی، متحدہ عرب امارات


منتخب الفاظ اور مخصوص انداز میں اپنے احساسات، مشاہدات،خیالات اور جذبات کی حقیقی منظر کشی ہی شاعری ہے ۔شاعری نہ ذات دیکھتی ہے نہ قوم اور نہ ہی سرحدوں کی خاردار تاریں،گھر کرنے کو محبت کرنے والے دل ڈھونڈ ہی لیتی ہے اسی لئے ہمیشہ سے ہی شاعری کو درس محبت،حصول محبت،فروغِ محبت کے لئے سب سے اہم ہتھیار مانا گیا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں سے پاک و ہند کی سرحدی صورتحال چاہے کتنی بھی کشیدہ ہو مگر دبئی میں بزمِ اُردو کی کاوشوں سے ہندوستان اور پاکستان کے ادبی پھولوں سے مہکتے گلدستے کے اِس پیغام نے ایک بار پھر پاک و ہند کے ایوانوں میں دستک دی ہے کہ عوام جنگ نہیں امن چاہتی ہے نفرت کو مٹانا اور محبت کو پھیلانا چاہتی ہے۔
بزمِ اُردو دبئی کے زیراہتمام ایرانی کلب دبئی میں ہندوستان اور پاکستان کی جشنِ یومِ آزادی کے حوالے سے منعقدہ ایک یادگار ،عظیم الشان مشاعرے اور جوش اُردو ایوارڈ ۲۰۱۵ میں دونوں دیسوں کے اہلِ ذوق حضرات نے جس نظم و ضبط ،اخلاص اور باہمی محبت کا مظاہر ہ کیا ،اپنی مثال آپ ہے ۔معروف شاعر انور شعور کی زیرِ صدارت اس محفل میں جناب مظفر علی نے مہمان خصوصی اور جناب رضا مراد نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کر کے محفل کے ادبی وقار میں اضافہ کیا ،روزنامہ سیاست کے محترم زاہد نے بھی خصوصی شرکت کر کے محفل کی رونق کو دوبالاکیا۔اِ س کامیاب محفل کے انعقاد کے سہرا منتظمِ اعلی ریحان خان، سرپرست شکیل احمد خان اور انکے معاونین معراج احمد نظامی اور سید تابش زیدی کے سر تھا۔ مہمان شعراء میں انور شعور (پاکستان)کے علاوہ منظر بھوپالی(انڈیا)، عباس تابش(پاکستان)، شمس الرحمن فاروقی(انڈیا)، ڈاکٹر زبیر فاروق(امارات)، اقبال اشہر(انڈیا)، محشر آفریدی(انڈیا)، جوہر کانپوری(انڈیا)، حسیب سوز(انڈیا)، احمد سلمان(پاکستان)، آغا سروش(انڈیا)، ابرار کاشف(انڈیا)، اشوک ساحل(انڈیا)، سلمان گیلانی(پاکستان)، اعجاز احمد(جموں کشمیر)، رخشندہ نوید(پاکستان) اور خوشبو رامپوری(انڈیا) شامل تھے۔ نظامت کے فرائض ابرار کاشف نے جداگانہ انداز میں نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے شعراء کرام کے مرتبے کا خوب خیال رکھا ،منتخب اشعار اور ہلکے پھلے چٹکلوں سے سامعین کی محفل میں دلچسپی کو اختتام تک برقرار رکھا ،کہ سبھی اِنکے مداح ہوئے۔ تقسیمِ تعریفی شیلڈز کے لئے تعارفی خدمات معراج احمد نظامی کے حصہ میں آئی۔یو اے ای میں مقیم پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے اہل ذوق حضرات کی کثیر تعداد سے ہال قبل از وقت کچھا کھچ بھرچکا تھا جبکہ ہال کے باہر ایک جمِ غفیر تقریب میں شرکت کے لئے بے تاب نظر آیا ۔تقریب کا آغاز اپنے طے شدہ وقت کے عین مطابق تقریباً نو بجے ہوا۔ابتدا میں بذریعہ قراندازی شرکاء میں تقسیم انعامات کا سلسلہ عمل میں لایا گیا ۔۔۔تالیوں کی بھرپور گونج میں مجلے کی رسم رونمائی ادا کی گئی جس میں صدر محفل،مہمانان خصوصی ،منتظم اعلی اور انکے معاونین نے حصہ لیا۔
رب جلیل کے با برکت نام سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مقبول ترین فلم امراؤ جان کے فلمساز مظفر علی کو اظہار خیال کے لئے مائیک پر مدوح کیا گیاتو حاضرینِ محفل نے بھرپور محبت سے انکا استقبال کیا ۔مظفر علی کا ماننا ہے کہ وطن پرستی وہ ہے جہاں ایک دوسرے سے محبت کی جاتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو فلم بناتا ہوں وہ میرے دل کا سفر ہوتا ہے اپنی زمین سے جڑا ہوا ہوں ۔اور میں میوزک، ثقافت، اردوشاعری و ادب سے بہت لگاؤ رکھتا ہوں ۔ اس شاندار محفل کے انعقاد پر منتظمین یقیناًخراج تحسین کے مستحق ہیں۔ہندوستانی فلم کے ہر دلعزیز اسٹار رضا مراد نے جب مائیک پر اپنی گھن گرج آواز میں السلام علیکم کہا تو پورا ہال وعلیکم السلام اور تالیوں سے گونج اُٹھا،انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ماں کے بعد اپنی مادری زبان سے بے حد پیار ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے لوگ اپنی تہذیب اپنے کلچر اپنی زبان سے دور ہوتے جا رہے ہیں ،بزمِ اردو دبئی نے اردو زبان کے فروغ کے لئے جو قدم اٹھایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔اُن نے کہا کہ میں اللہ رب العالمین کا کروڑوں بار شکرگزار ہوں جس نے مجھے بڑی عزت و کامرانی سے نوازا۔ پاکستان اور انڈیا کے لوگوں کا پیار میری کامیابی میں سب سے بڑا کردار اردو زبان کی لطافت کا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی مہمان نوازی کی تعریف بھی کی اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے عوام کی ترجمانی میں چند اشعار سماعتوں کی نذر کئے جو بے حد پسند کئے گئے۔

سرحد کے اس پار ہم بھی ہیں تم بھی ہو
ملنے کو بے قرار ہم بھی ہیں تم بھی ہو
سینوں میں دونوں ہی دھڑکتا ہے ایک ہی دل
محبت کے طلبگار ہم بھی ہیں تم بھی ہو
پھر کون ہے جو ہمیں روکتا ہے ملنے سے
غلط فہمی کا شکار ہم بھی ہیں تم بھی ہو

مقبول ادیب، نقاد، نظریہ ساز، شاعر اور مترجم جناب شمس الرحمن فاروقی کو اُنکی ادبی خدمات کے اعتراف میں جوش اُردو ایوارڈ ۲۰۱۵ سے نوازا گیا اور اس موقع پر ناظم محفل نے حکومت ہند سے انکی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے کا بھی مطالبہ کیا ۔شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ فروغ اُردو ادب کے لئے بزم اُردو دبئی کی کاوششیں قابل ستائش ہیں اور جس طرح پُرخلوص محبت سے نواز ہے میں تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔ دعا گوہ ہوں کہ خدمت ادب کا تاج انکے سر پر سجا رہے۔مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوا تو خوشبو رامپوری اور محمداعجاز پونچھی نے اپنا کلام کو سامعین کی نذر کیا ،اشوک ساحل جو مشاعرے میں جان ڈالنا اور سامعین کی توجہ حاصل کرنے کے ہنر سے باخوبی واقف ہیں، چند دلفریب اشعار سماعتوں کی نذر کر کے اپنے نشست کی جانب بڑھے تو سامعین کی بھرپور داد اور پرزور فرمائش پر انہیں دوبارہ مائیک پر آنے پر مجبور کر دیا ،چندغزلیں مزید پیش کی اور خوب داد و تحسین سمیٹی۔آغا سروش کے مزاحیہ کلام سے سامعین بہت لطف اندوز ہوئے ۔سید سلمان گیلانی کے مزاحیہ کلام نے سماعتوں کو تازگی بخشی ،سامعین اپنے بھرپور قہقوں سے پسندیدگی کی سند پیش کرتے رہے۔ابرار کاشف نے اپنے دلفریب نظامت کے طرح اپنے کلام سے بھی سماعتوں کو سرور بخشا۔۔احمد سلمان کے شاعری میں محبتوں کے اظہار کا والہانہ اچھوتا انداز سامعین کو خوب بھایا ۔محترمہ رخشندہ نوید نے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے کلام سے محفل کو عروج بخشا باذوق سامعین نے دلجمعی سے انکے کلام کو جذب کیا اور داد لٹائی۔حسیب سوز نے اپنے منفرد دل موہ کلام سے مشاعرے میں خوب رنگ جمایا ۔صفدر اعظم خان کے باکمال اسلوب اور خوبصورت کلام سے تقریب کی چمک دمک بڑھی۔جوہر کانپوری نے تو محفل میں اپنے کلام سے ایک ادبی تہلکہ مچا دیا ،ہر مصرعے پر داد بٹورتے رہے۔خوش فکر شاعر ڈاکٹر زبیر فاروق کے کلام میں روانی اور سادگی نے سماع باندھ دیا سامعین بہت محظوظ ہوئے ،خوب داد دی۔اقبال اشہر کی شاعری کے دلفریب عناصر کو بھی بے حد پسند کیا گیا ۔جدت پسند نامور شاعر عباس تابش نے اپنے دلکش کلام سے محفل کو عروج بخشا اور خوب دادحاصل کی۔منظر بھوپالی کے پُرترنم کلام سے ادبی فضاجھوم اُٹھی ،سامعین نے دل کھول کر داد لٹائی۔انور شعور کا خوبصورت کلام ،انداز و مہارت اور نہایت دھیمہ لہجہ دلوں میں گھر کر گیا،مشاعرے کو بامِ عروج بخشا اور خوب داد کے حقدار بنے،اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ محفل میں شرکت میرے لئے مسرت کا باعث ہے اپنی جھولی کو بے پناہ پیار سے بھر ا ہے جو ہمیشہ مجھے یاد رہے گا ۔خوبصورت تقریب کے انعقاد پر منتظم اعلی ریحان خان اور اُن کے رفقاء یقیناًداد و تحسین کے مستحق ہیں۔انہوں نے باذوق سامعین کی دلچسپی کی بھی تعریف کی جنہوں نے مشاعرے کو بڑے نظم و ضبط سے سماعت فرمایا اور بھرپور داد و تحسین سے شعراء کو تقویت بخشی۔ریحان خان نے خطاب کرتے ہوئے تمام مہمانان ،شرکاء کا تہہ دے شکریہ ادا کیا اور سپنسر حضرات سے اظہار تشکر بھی کیا۔ جن کے تعاون سے اس لاجواب اور بے مثال ادبی محفل کا انعقاد ممکن ہوا ۔ انہوں نے حاضرین سے کہا کہ آپ کی بھرپور دلچسپی اورقدم بہ قدم حوصلہ افزائی سے ہمارا یہ ادبی سفر پورے اب و تاب کے ساتھ جاری رہے گا ان شاء اللہ تعالی ۔۔
شعراء کے کلام سے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔۔۔۔

خوشبو رامپوریّ(رامپور،انڈیا)۔
رخصت بھی ہو تو چند ہی لمحوں کے واسطے
چھلکے نہ مرے صبر کا پیمانہ شرط ہے
*******
محمداعجاز پونچھی(پونچھ،جموں کشمیر)۔
بچھڑ جانے سے تیرے میں پھر انسان ہو گیا
سادگی دیکھ کر اپنی خود پر مہرباں ہو گیا
*******
اشوک ساحل (مظفرنگر،انڈیا)۔
ترا نام کتنا ہے مختصر
ترا ذکر کتنا طویل ہے
*******
ابرار کاشف(امراوتی،انڈیا)۔
مجھے پتا ہے کہ مرنے کی رت نہیں لیکن
قدم قدم پہ سہولت ہی کیا کیا جائے
*******
سید سلمان ؔ گیلانی(لاہور،پاکستان)۔
وہ بولی حج کا اب یہ تقاضا ہے حاجی جی
اب جان من نہیں مجھے باجی کہا کرو
*******
آغاسروش(حیدرآباد،انڈیا)۔
دھر لیا شیخ کو کسٹم کے فرشتوں نے سروشؔ
جانے کیا چیز تھی سامان سفر کے نیچے
*******
احمد سلمان(کراچی،پاکستان)۔
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
*******
رخشندہ نوید(لاہور،پاکستان)۔
جانے کسے دشمن کا ہے یہ مشورہ کہ بزم میں
غیر کی جانب ہمارا دل دکھائے دیکھ کر
*******
حسیب سوز (بدایوں،انڈیا)۔
دامن کی سلوٹوں پہ بڑا ناز ہے ہمیں
گھر سے نکل رہے تھے کہ بچہ لپٹ گیا
*******
جوہر کانپوری (کانپور،انڈیا)۔
وہ شاخیں جن پہ کا نٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں اگتا
انہیں شاخوں کو پھولوں سے سجانا چاہتے ہیں ہم
ہمارے بھائی ہیں مدمقابل جنگ میں جوہرؔ
یہ ایسی جنگ ہے جو ہار جانے چاہتے ہیں ہم
*******
ڈاکٹر زبیر فاروق(دبئی،امارات)۔
فاروقؔ کتنے گل میں چمن میں کھلے ہوئے
پہچان سب کی ہے مگر اپنے ہی نام سے
*******
صفدر اعظم خان(روڑکی،انڈیا)۔
دل کی صحبت مجھے ہر وقت جواں رکھتی ہے
عقل کے ساتھ چلا جاؤں تو بوڑھا ہو جاؤں
*******
اقبال اشہر(دہلی،انڈیا)۔
یہ سوچ کر ہی سفینے سفر پہ نکلے ہیں
سنا ہے روشنی اُس پار کچھ زیادہ ہے.
بڑا لطیف ہے صحرا کا یہ سفر نامہ
اگرچہ پیاس کا اظہار کچھ زیادہ ہے
*******
عباس تابش (لاہور،پاکستان)۔
ہوئی تھی رات ہمیں دشت ہول میں لیکن
گزار دی گئی غزلوں پہ کام کرتے ہوئے
نہ جانے کس سے بچھڑنا اُمڈ پڑا مجھ میں
میں رو پڑا تھا شجر کو سلام کرتے ہوئے
*******
منظر بھوپالی(بھوپال،انڈیا)۔
آپ نے رسمِ عیادت بھی نباہی ایسے
دل پہ مرہم کی جگہ زخم لگائے آئے
آپ ہی کہیے کہ ہم روک لیں خود کو کیسے
چاند پونم کا اگر چھت پہ منانے آئے
*******
انور شعور (کراچی،پاکستان)۔
زبان دل سے کوئی شاعری سناتا ہے
تو سامعین بھلاتے نہیں کلام اُس کا
شعورؔ سب سے الگ بیٹھا ہے محفل میں
اسی سے آپ سمجھ لیجئے مقام اُس کا
**********

Short URL: http://tinyurl.com/zctl7dh
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *