سیلاب ۔حقائق کے تناظر میں۔۔۔۔ تحریر: شاہ فیصل نعیم

Shah Faisal Naeem
Print Friendly, PDF & Email

مجھے اختلاف ہے ہر اُس شخص سے جو یہ کہتا ہے کہ ہر سال آنے والا سیلاب اور اس سے پھیلتی تباہی منہ بولتا ثبوت ہے حکومت کی نااہلی کا۔حکومت سے جو ہوتا ہے وہ کر رہی ہے یہاں اگر کوئی واقعی ذمہ دار ہے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے بحرانوں کے خاتمے کی امیدیں وابستہ کیں ایسے لوگوں سے جن کو پتا ہی نہیں کہ بحران ہوتا کیا ہے ؟او بھلے لوگو! اگر امیر کے بچے کو غربت پہ مضمون لکھنے کے لیے دو گے تو وہ کیا لکھے گا؟ ایسا ہی حال امیر حکمرانوں سے غریب عوام کے دکھ درد دور کرنے کی امید رکھنے کا ہے۔
ہر سال سیلاب آتا ہے ، ہر سال تمہارے گھر برباد ہوتے ہیں، ہر سال تمہارے مویشی تمہاری فصلیں بہہ جاتی ہیں، ہر سال تمہارے سپنوں کے محل پانی کی نذر ہو جاتے ہیں مگر تم ہو کہ سیلاب کے باعث حکومت سے ملنے والی مدد کے کچھ پیسوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ دیتے ہو۔ ہر سال ذلیل ہونے سے کہیں بہتر نہیں کہ تم ایسے لوگوں کا انتخاب کرو جو تمہارے مسائل کا حل نکالیں۔ جنہیں تمہاری مشکلات کا احساس ہو۔ جب تک تم بریانی کی پلیٹ، سگریٹ کے پیکٹ، میٹھے پانی کے گلاس، سڑک پکی کروانے ، نالی کھلی کروانے ،اپنے بیٹے کو ملازمت دلوانے اور بغیر سوچے سمجھے سیاستدانوں کا آلہ کار بننے اور اپنا ضمیر بیچنے سے باز نہیں آو گے یونہی تمہارا خانہ خراب ہوتا رہے گا۔
سیاستدان جب بھی کسی موقف کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں تو اُن کی آواز کو طاقت ملتی ہے عوام کی حمایت سے اب عوام کا فرض بنتا ہے کہ اپنی حمایت کا اعلان کرنے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے یا نہیں ۔ کسی نے کہا کہ اگر ڈیم بن گیا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا تو تم بیوقوفوں کی طرح اُس کے پیچھے چل پڑے اور اگر کسی نے کہا کہ ڈیم بننے سے سندھ بنجر ہو جائے گا تو تم نے اندرونی حقائق کو جانے بغیر اُس کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ان دونوں بیانوں کے حوالے سے شمس الملک سابق چیئرمین واپڈا کی طرف سے پیش کردہ کچھ حقائق کا تھوڑا سا مفہوم فراہم کردیتا ہوں شاید اس سے آپ کو کچھ سمجھ آجائے۔
اُن کے لیے جو کہتے ہیں کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو کے پی کے ڈوب جائے گا۔ حضور ۲۹ اگست ۱۹۲۹ء کو دریائے سندھ اور دریائے کابل میں بڑے پیمانے پر سیلاب آئے تھے جس کی وجہ سے صوبے کے بہت سے علاقے زیرِ آب آگئے اُس کی وجہ تو کالاباغ ڈیم نہیں تھا ۔ پھر ۲۰۱۰ء میں سیلاب آیا جس کی وجہ سے بہت سے علاقے ڈوب گئے اُس کی وجہ بھی کالاباغ ڈیم نہیں تھا۔ اور پھر یہ ڈیم پہلے سے موجود ڈیموں کی نسبت اُن علاقوں سے دورہے جن کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اس کے بننے کی مخالف کی جاتی ہے۔ ایسے ہی کئی اور حقائق چیئرمین صاحب نے اُن لوگوں کے لیے تحریر کیے ہیں جو کے پی کے سے ڈیم کی مخالفت میں صف آرا ہیں۔
اب آتے ہیں اُن لوگوں کی طرف جو برس ہا برس سے یہ رونا رو رہے ہیں کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو سندھ بنجر ہو جائے گا۔
Indus River System Authority (IRSA)
کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ منگلا او ر تربیلا ڈیم بننے سے پہلے سندھ کو سالانہ ۳ کروڑ ۶۰ لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملتا تھا جو ڈیموں کے بنے کے بعد ۴ کروڑ ۳۰ لاکھ ہوگیا یعنی ۷۰ لاکھ ایکڑ فٹ کا اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم کے بننے کے باعث سندھ کو ۴۰ لاکھ ایکڑفٹ پانی پہنچے گا۔ وہ لوگ جو اس ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں اور جو اِن کا ساتھ دے رہے ہیں اُن کو بیان بازی کرتے وقت اِن حقائق کو ضرور جاننا چاہیے۔
پانی سے بجلی ناپیدا کرنے کے باعث پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق بجلی کی پیداوار کے لیے ۴۸ فیصد گیس استعمال ہورہا ہے جس کے باعث گیس کا بحران پیدا ہو رہا ہے۔
آخر کالا باغ ڈیم بنانا اتنا کیوں ضروری ہے؟ اس کی چیدہ چیدہ وجوہات تو آپ کے سامنے ہیں کہ اس کے بننے سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا اور اُس کے ساتھ ساتھ وافر پانی جو ہر سال سیلاب کی صورت میں گاؤں کے گاؤں بہا کر لے جاتا ہے اس پر قابو پا لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک اہم وجہ جس کے تانے ماضی سے جُڑے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ جب ۱۹۶۳ء میں صدرایوب خان نے واشنگٹن کا دورہ کیا تو وہ اس دوران ورلڈ بنک کے صدر سے ملے اور اُن کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ پھر ورلڈ بنک کے تعاون سے پاکستان نے دنیا بھر سے ماہرین اکٹھے کیے جنہوں نے ساڑھے تین سال کی مد ت میں ایک رپورٹ تیار کی جس کو تاریخ میں
Development of Water & Power Resources of West Pakistan: A Sectoral Analysis
سے جانا جاتا ہے ۔ یہ رپورٹ دیتے وقت ماہرین نے لکھا تھا :
“یہ رپورٹ آئندہ کے لیے منصوبہ بندی ، معاشیات اور انجنیئرنگ کے ماہرین کے لیے ایک ماڈل ہوگا”۔
اس رپورٹ میں سے تین نکات میں یہاں نقل کرتا ہوں۔
پہلا: “منگلا اور تربیلا ڈیم کے بجلی ، پانی اور سیلاب سے بچاؤ کے فائدے بڑھتی ہوئی آبادی اور بڑھتی ہوئے معاشی اور معاشرتی ضروریات کی وجہ سے مکمل طور پر ۱۹۹۰ء کے لگ بھگ
Commit
ہو جائیں گے”۔
دوسرا: “اگر پاکستان اپنی ترقی کی رفتار اپنی ضروریات کے مطابق رکھنا چاہتا ہے تو پھر ۱۹۹۲ء میں پاکستان کے پاس ایک تیسرا بڑا ڈیم ہونا چاہیے”۔
اور یہ بھی سفارش کی کہ اس ڈیم کے لیے ضروری انجنیئرنگ کام کو ۱۹۷۷ء میں شروع کیا جائے۔
تیسرا: “یہ تیسرا منصوبہ کالا باغ ڈیم ہونا چاہیے ۔ اس کے بعد بھاشا ڈیم ۔ ان دونوں ڈیموں کو یکے بعد دیگرے بنانے سے پاکستان کو وہ وقت مل جائے گا کہ وہ دریائے سندھ اور اس کے معاونین کے متعلق انجنیئرنگ تحقیقی کام مکمل کر کے اپنے مستقبل کا پروگرام بنا سکے”۔
۱۹۶۷ء کے وسط میں یہ رپورٹ پاکستان کو پیش کی گئی تھی ۔ ۱۹۷۷ء میں کالا باغ ڈیم پر تحقیقی کام شروع ہو گیا تھا ۔ ۱۹۸۸ء میں کام مکمل تھا اس دوران دو بار اس کی فیزیبلٹی رپورٹ بنی مگر کچھ لوگوں کے سیاسی ، ذاتی مفادات اور ان پڑھ عوام کی اپنا خانہ خراب کرنے کی روش نے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا جس کا نتیجہ کسی سے مخفی نہیں۔ ڈیم کے نا بننے سے اگر کسی کو نقصان ہوا ہے تو وہ فقط عوام ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/jofrgzu
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *