ٹیلنٹ۔۔۔۔ تحریر: شاہ فیصل نعیم

Shah Faisal Naeem
Print Friendly, PDF & Email

اگر مری ملکۂ کوہسار ہے تو مال روڈ کی رونق اس کا جُھومر ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ مری جائیں لیکن مال روڈ کو شرفِ رفاقت بخشے بغیر لوٹ آئیں۔مری میں پھیلی ہوئی خوبصورتی، اونچے انچے درخت اور ان پر چہکتے ہوئے طیور، آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے جانور، ہر دلعزیز موسمی کیفیت اور ہر طرح کی شان و شوکت کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے قدرت کی تخلیق کاعظیم شہکارہے ۔ اس کی خوبصورتی کو چارچاند لگانے کے لیے دور درازسے حسن مال روڈ پرلایا جاتا ہے اورکچھ بنفسِ نفیس خود چلا آتا ہے۔اس کوچہ حسن میں جانے والے شاذو ناذر ہی خودکو بچا پاتے ہیں ۔چائے والے کا شور، بیروں کی پکار سر اِدھر آئیں، آپی اس ریسٹورنٹ میں سب سے اعلیٰ کوالٹی کا کھانا ملتا ہے،صاحب ! ماں باپ کے لیے، بہن بھائیوں کے لیے، بیوی بچوں کے لیے، دوست واحباب کے لیے چادریں ، میوہ جات، کھلونے اور تحفے یہاں سے خریدیں۔جن کو ان آوازوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتااورحسیناؤں کی تاڑمیں پھر رہے ہوتے ہیں ان کی بھی عجیب کہانی ہے۔ کچھ انڈے بیچنے والوں کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں، کچھ دال گرماگرم دال کی آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں ، کوئی اندھے پن کا مظاہرہ کر کے کسی لڑکی سے جا ٹکراتا ہے اور کہتاہے کہ میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہوں آپ ذرا اس نمبر پر کال کر کے ان کو بتادیں کے میں فلاں جگہ پہ ہوں اور وہ مجھے لے جائیں۔ اس طرح کے بہانوں سے لڑکیوں کے نمبر اکھٹے کرنے اور خودکو اس میدا ن کاگرو کہلوانا اکثر لوگ پسند کرتے ہیں ۔کچھ خود گھائل ہوکر کچھ دوسروں کے دل لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔ان سے ہٹ کر کچھ ایسے بھی ہیں جو ہر بھاری جیب والے کو اپنی آنکھ کا تارا خیال کرتے ہیں کیونکہ ان کی آنکھ اس کی جیب پر ہوتی ہے کہ کب اس کا دھیان کہیں بھٹکے اور ہم اس کی جیب صاف کر کے رفو چکر ہوجائیں۔
میری بھی آج کی شام اسی مال روڈ کے نام تھی میں ایک غبارے بیچنے والے کے پاس کھڑا تھامگر وہ میری موجودگی سے بے خبر اپنے کام میں مگن تھالوگ اَدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ایک بچہ بھاگتاہواغباروں والے کے پاس آتا ہے اورپوچھتاہے: \”انکل! آپ کے پاس رنگا رنگ غبارے ہیں جن کی خوبصورتی کے باعث لوگ انہیں خرید رہے ہیں میں اگر آپ سے ایکBlack غبارہ خریدوں تو کیا وہ بھی دوسرے غباروں کی ماند ہی اڑے گا\”؟تو غباروں والا کہتاہے: \”چھوٹے میاں غبارہ چاہے کیسا بھی ہو لیکن اس کو اڑانے والی یہ گیس ہوتی ہے جوہم اس میں بھرتے ہیں\”۔بچہ کہتاہے: \”بہت خوب ، انکل پھر آپ مجھے ایک Black غبارہ دے دیں\”۔چھوٹے میاں تو غبارہ لے کر چلے گئے لیکن میں وہیں کھڑا سوچتا رہا ۔بعداوقات ایک عام سا آدمی جسے آپ بہت حقیر جانتے ہیں ایسی بات کہہ جاتا ہے کہ بڑے بڑے فلاسفر کھڑے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔جب انسان کے پاس علم بہت زیادہ ہو جائے تو اس کی گفتگو محدود ہو جاتی ہے ایک چھوٹا سا چٹکلہ عرض کیے دیتاہوں۔حضرت شیخ شبلیؒ صاحبِ ذوق حضرات کے درمیان بیٹھے اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کی برکات بیان کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے انسان کے دل کو سکون ملتاہے تو بوعلی سینا بھی وہاں بیٹھا تھا کہنے لگا \”میں نہیں مانتا اسے کے صرف نام لینے سے سکون ملتا ہے\”۔ اسے آپ یوں سمجھ لیں کہ آگ کی خاصیت ہے کہ وہ جلاتی ہے لیکن آگ آگ کہنے سے آگ آپ کو جلاتی تو نہیں؟،اسی طرح برف کی خاصیت ہے کہ وہ ٹھنڈک پہنچاتی ہے لیکن برف برف کہنے سے آپ کو ٹھنڈک محسوس تو نہیں ہو گی ۔تو ظاہری سی بات ہے بو علی سینا بھی اپنے وقت کا بہت بڑا فلاسفر تھا وہ کیسے اتنی آسانی سے مان لیتالیکن وہ بھول گیا تھا کہ وہ ایک اللہ والے کی صحبت میں بیٹھا ہوا ہے ۔جب علامہ صاحب نے یہ الفاظ سنے تو کہنے لگے: \”بوعلی سینا تو گدھاہے\”۔اتنے بڑے مجمع میں جب اُس نے یہ الفاظ سنے تو اس کا رنگ زرد پڑ گیا کہ میری اتنی تذلیل۔تو علامہ صاحب نے فرمایا: \”بو علی سینا تجھے گدھا کہنے سے تیرے چہرے کا رنگ بدل سکتا ہے تو میر ے اللہ کا نام لینے سے د ل کی کیفیت نہیں بدل سکتی ،دل کو سکون نہیں مل سکتا\”؟بوعلی سینا نے جب یہ سنا تو کہنے لگا:\”حضور مان گیا آپ کو\” ۔
۔8ستمبر2012ء کو تمام پنجاب بورڈز نے انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا اعلان کیااسی سلسلے میں گوجرانوالہ بورڈمیں پوزیشن ہولڈرز کو دادِ تحسین پیش کر نے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیاتھا۔ہال وزراء، قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران، چئیرمین بورڈ، کنڑولر امتحانات، پولیس کے اعلیٰ عہدہ داران ، تعلیمی اداروں کے سربراہان، کالم نگاروں، پریس رپورٹرز اور پوزیشن ہولڈرز کے والدین سے بھر ا پڑا تھا۔پوزیشن ہولڈرز میں ہر قسم کے سٹوڈنٹس تھے کچھ سانولے رنگ کے، کچھ سیاہ رنگ کے اور کچھ بہت زیادہ خوبصورت تھے جس کے باعث ہر رپورٹران سے انٹرویو لینے کا خواہشمند تھا ۔کچھ اعلیٰ قسم کی ملبوسات زیب تن کئے ہوئے تھے اور کچھ غربت کے باعث مکمل کپڑوں سے بھی بے نیاز تھے کسی کے ایک پاؤں کی چپل دوسروں پاؤں کی چپل سے مختلف تھی،چاہے ان کے گھردیاتک نا جلتاتھا، ان کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہیں تھی،وہ دن میں کام کرتے تھے اور رات کو انہیں روشن مستقبل کی امید سڑیٹ لائٹس کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور کرتی تھی آج ان کی محنت رنگ لائی تھی اور ان کو اعلیٰ اعزازات او ر القاب و آداب سے نوازا جا رہا تھاآج مادرِعلمی کو ان پے ناز تھاانہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھااور اپنی محنت سے اپنے اساتذہ اور والدین کا نام ر وشن کر دیا تھا۔اگر آپ کے پاس صلاحتیں ہیں تو آپ چاہے کسی بھی فیلڈمیں ہوں آپ کی قدر کی جائے گی ۔مجھے اسے غبارے بیچنے والے کی بات کئی ماہ کے بعد آج سجھ آئی کے انسان بھی غبارے کی طرح ہی ہے وہ چاہے کسی بھی رنگ کا ہو اس کو منتہائے کمال تک اس کی صلاحتیں ہی پہنچاتی ہیں اس کی صلاحتیں اس کے لیے گیس کا کام کرتی ہیں۔اس لیے اس قدر اہم ہو جائیں کے زمانے کو آپ کی اس قدرضرورت ہوکہ آپ کے بغیر ان کا کام ہی نا چلتاہو۔
؂ زمانہ ہم سے خود ہے زمانے سے ہم نہیں
صاحبو! نیلسن مینڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ،مرلی دھرن اور تاریخ بھر ی پڑی ہے ایسے لوگوں سے جن کی صلاحیتوں نے انہیں دنیا کی نظروں میں حسین بنا دیا۔اگر آپ کے پاس کوئی کارآمد چیز ہے لیکن آپ اسے اپنے تصرف میں ہی نہیں لا رہے تو اُس کا کیا فائدہ اسی طرح اگر آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچان ہی نہیں رہے ،ان کو استعمال ہی نہیں کر رہے تو ان کا کیا فائدہ۔۔۔؟؟؟

Short URL: http://tinyurl.com/jtqnsdb
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *